شہرکی بارونق سڑک پر ٹریفک رواں دواں تھی، اشارہ سرخ ہوا توگاڑیاں رک گئیں۔ چند لمحات کے بعد اشارہ سبز ہونے پر گاڑیاں چل پڑیں مگر ایک کار حرکت میں نہ آئی۔ تھوڑے انتظار کے بعد پیچھے والوں نے ہارن بجانے شروع کر دئیے۔ اس کار کا ڈرائیور پریشانی کے عالم میں سٹیرنگ ہاتھوں میں تھامے بیٹھا رہا۔ آخر دائیں بائیں سے چند نوجوان اترے اور اس جانب لپکے، یہ سوچ کر کہ اگر گاڑی خراب ہوگئی ہے تو اسے دھکا لگا کر سائیڈ میں کر دیں۔ شیشہ کھٹکھٹایا گیا تو ڈرائیور حواس باختہ باہر نکلا۔ بے بسی سے اس نے کہا، مجھے کچھ نظر نہیں آرہا۔ ایک نوجوان نے اسے سائیڈ والی سیٹ پر بٹھایا اور گاڑی ڈرائیو کر کے سائیڈ پر کر دی۔ کار سوار نے پریشانی سے درخواست کی، براہ کرم مجھے گھر چھوڑ دیں، میری آنکھوں کو کچھ مسئلہ ہوگیا ہے۔ وہ نوجوان اس کے بتائے گئے ایڈریس پر گاڑی لے گیا، پھر ہاتھ پکڑ کر فلیٹ کے اندر تک چھوڑ آیا۔ کچھ دیر بعد اس شخص کی بیوی گھر لوٹی تو وہ خاوند کو آئی سپیشلسٹ کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے مختلف ٹیسٹ کئے، آنکھوں کا معائنہ کیا، معاملے کا سراغ نہ مل سکا۔ آخر اس نے ایک دو ڈراپس لکھ دئیے کہ یہ آنکھوں میں ڈالیں۔ دونوں میاں بیوی گھر لوٹ آئے۔ اگلی صبح کچھ بھی بہتر نہ ہوا تو دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف ڈاکٹر بلکہ وہاں کی نرس اور ایک ملازم بھی آنکھوں کی اس پراسرار بیماری کا شکار ہوگیا۔ یہ کلینک سے باہر نکلے، ان کی آواز سن کر ایک مریض غصے سے چلایا، کم بخت تیری وجہ سے میں بھی نابینا ہوگیا۔ پتہ چلا کہ وہ نوجوان جو کارسوار کی گاڑی چلا کر گھر چھوڑنے گیا تھا، وہ بھی نابینا ہوگیا۔
یہ پراسرار مرض نہایت تیزی سے پھیلا، چند دنوں میں شہر کے سینکڑوں لوگ شکار ہوگئے۔ حکومت نے بیماری کو مزید پھیلنے سے بچانے کے لئے شہر کی ایک بڑی بلڈنگ خالی کرائی اور وہاں قرنطینہ بنا کر تمام مریضوں کو شفٹ کر دیا۔ حیران کن طور پر پہلے مریض کی بیوی نابینا نہیں ہوئی تھی، تاہم اس نے اپنے خاوند کے ساتھ محبت کی وجہ سے ساتھ دیا اور نابینا بن کر قرنطینہ چلی گئی۔ حکومت نے فوج کو سکیورٹی پر مامور کر دیا، سخت حفاظتی انتظامات میں دروازہ کھول کر ایک خاص جگہ پر کھانے پینے کے ڈبے، بوتلیں رکھ دئیے جاتے، مریض اٹھا کر لے جاتے۔ اس کے باوجود مرض پھیلتا رہا، قرنطینہ میں مریضوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ حتیٰ کہ نصف شہر سے زیادہ متاثر ہوگیا۔ معاملات بگڑتے گئے۔ اس دوران قرنطینہ میں گینگسٹر ٹائپ لوگوں کا ایک گروہ بھی مریض بن کر آ گیا۔ ان میں سے ایک کے پاس پستول بھی تھا۔ انہوں نے آتے ہی پوری بلڈنگ اور راشن وغیرہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔ وہ روزانہ کی خوراک کے بدلے قیدیوں سے کچھ نہ کچھ دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ ایک آدھ دن میں ہر ایک کے پاس موجود نقدی، چھوٹے موٹی اشیا ختم ہوگئیں، تب مکروہ مطالبہ سامنے آیا کہ ہر وارڈ کی خواتین اپنے جسم سے سب کے راشن کی قیمت چکائیں۔ معاملات مزید خراب ہوئے، کئی ڈرامائی واقعات آئے۔ آخر شہر اس قدرمتاثر ہوا کہ انہیں کھانے پینے کا سامان دینے والا بھی کوئی نہیں رہا۔ پھر یہ مریض باہر نکلے اور کسی نہ کسی طرح شہر کے دوسرے کونے تک پہنچے۔ یہ بیماری بعد میں اچانک ہی ختم ہوگئی۔
یہ مشہورنوبیل انعام یافتہ پرتگالی ادیب حوزے سارا ماگو(José Saramago) کے شہرہ آفاق ناول بلائنڈ نیس (Blindness) کا ٹوٹا پھوٹا خلاصہ ہے۔ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اردو کے صاحب طرز شاعر احمد مشتاق نے اسکا ترجمہ کیا ہے۔ اس پرہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی۔ حوزے ساراماگو جادوگر لکھاری ہے۔ انسانی کرداروں کے داخلی تضادات کو سامنے لانا اسی کا کمال ہے۔ انسان کے اندر خیر وشر کی قوتیں موجود ہیں۔ بدترین لمحات میں بھی بعض اوقات انسانوں کے اندر سے نہایت سفاک، بے رحم اور خود غرض وجود سامنے آتا ہے۔ قرنطینہ میں نابینا ہونے کے باوجود ایک طاقتور گروہ نے جو شیطانی کھیل کھیلا، اسے پڑھتے ہوئے آدمی دم بخود رہ جاتا ہے۔ اچھے کردار بھی موجود ہیں، خاتون جو نابینا نہ ہونے کے باوجود اپنے خاوند کا ساتھ نبھاتی ہے۔ اصل نکتہ یہی ہے کہ آزمائش کے لمحوں میں انسان کس طرح اپنی خواہشات، کمینگیوں اور خود غرضی کے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
پچھلے چند دنوں سے کرونا وائرس کی خبریں سن کر، پڑھ کر وہی ناول اور فلم یاد آ رہی ہے۔ اللہ رحم کرے۔ برادرم عارف انیس ملک معروف موٹیویشنل سپیکر، لکھاری اور ماہر نفسیات ہیں۔ آج کل برطانیہ مقیم ہیں، انہوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں وہاں کی صورتحال بتائی کہ کس طرح لندن کے ایک سٹور میں ٹوائلٹ پیپر کے ایک رول کی خاطر چھینا چھپٹی ہوئی۔ اللہ اپنی امان میں رکھے۔ پاکستان میں ابھی حالات کنٹرول میں ہیں۔ چند نکات اہم ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے۔
یہ کائنات ایک خاص نظام کے تحت چل رہی ہے، اس کے اپنے قاعدے، اصول ہیں۔ یہ اسباب کی دنیا ہے۔ یہاں صدیوں سے مختلف آفات آتی رہی ہیں۔ زلزلے، سیلاب، سمندری طوفان، وبائیں وغیرہ۔ ان میں ہزاروں، لاکھوں لوگ ہلاک ہوتے رہے۔ آفات، وبائوں سے بچنے کے طریقے موجود ہیں، انہی پر عمل کر کے بچت ہوسکتی ہے۔ کبھی کوئی آفت اتنی بڑی ہوتی ہے کہ تمام احتیاطی تدابیر ناکام ہوجاتی ہیں۔ ہمارے پاس مگر اپنی سی کوشش کرنے کے سوا اور چارہ نہیں۔ قدرت کے کاموں کی ہم اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تعبیر وتشریح ہی کر سکتے ہیں۔ حقیقی علم تو صرف رب تعالیٰ کو حاصل ہے۔ انسانوں پر ایسی مصیبتیں کیوں آتی ہیں، یہ ہم نہیں جانتے۔ اسے اللہ کا عذاب کہنا بھی درست نہیں۔ آزمائش تو بہرحال یہ ہے۔ اللہ کے آخری رسول ہمارے آقا حضور ﷺ نے ہمیں مختلف دعائیں سکھائی ہیں۔ ہمیں کہا کہ اللہ سے عافیت مانگتے رہیں اور جب سے دنیا بنی ہے، عافیت مانگنے سے بڑی دعا اور نہیں آئی۔ اسی طرح سنت نبویﷺ میں مختلف عمل تجویز کئے گئے، صدقہ خیرات، مشکل زدگان کی مدد وغیرہ۔ جو ہمارے بس میں ہے، وہ کریں اور پھر نتائج اللہ پر چھوڑ دیں۔ رب کو جو منظور ہو، اس میں راضی اور مطمئن رہیں۔
اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے اور اصل دائمی زندگی روز قیامت شروع ہوگی، اس دن ہماری آج کی زندگی کی کارکردگی کاصلہ ملے گا۔ اس لئے آزمائش کے ان دنوں کو اچھے طریقے سے، ثابت قدمی اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ ڈاکٹروں نے جو احتیاطیں بتائی ہیں، ان پر سختی سے عمل کریں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ بار بار کے اعلانات کے باوجود لوگ کیوں ہاتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کا آگے بڑھا ہوا ہاتھ واپس کرنا کس قدر برالگے گا؟ آج کل ہاتھ ملانایاگلے ملنا ہی نہیں چاہیے۔ باہر سے گھر آئیں تو فوری طور پر پہلے صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھوئیں۔ گھر کے بزرگوں کو کم سے کم ایکسپوژر دیں، بلاضرورت انہیں لاڈ پیار سے بھی ٹچ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ غیر محسوس انداز میں انہیں جراثیم سے بچایا جائے۔
اسی طرح علما نے ہدایت کی ہے کہ عبادت کے لئے گھر کو ترجیح دیں تو پھر ایسا ہی کرنا چاہیے۔ حکومت نے چھٹیاں کی ہیں تاکہ لوگ گھروں میں رہیں اور اختلاط کے باعث بیماری نہ پھیل سکے۔ ایسے میں گھر ہی رہنا چاہیے، چھٹیاں منانے یا بچوں کو پارک وغیرہ گھمانے نہ لے جائیں۔ جن کے پاس وسائل ہیں، وہ اپنے دائیں بائیں دیکھیں کہ جو بے وسیلہ لوگ، دیہاڑی پر کام کرنے والے پریشان ہیں، خاموشی سے ان کی مدد کریں۔ بچے فارغ ہیں توانہیں کچھ دیر سکون کا سانس لینے دیں، پھر گھر میں مصروف رکھیں، پڑھنے کی طرف متوجہ کریں۔ سب سے بڑھ کر کہ گھروں میں اجتماعی عبادت شروع کریں۔ سب مل کر آیت کریمہ کا ورد کریں۔ درود پاک پڑھنے پر لگائیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ خوف وہراس نہ پھیلائیں، پینک میں چیزیں سٹور نہ کر لیں۔ ضروری چیزیں گھرلے آئیں، مگر دہشت کے عالم میں کئی ماہ کا سامان اکٹھا خرید لینے سے مارکیٹ میں بحران پیدا ہوجائے گا۔ مارکیٹ میں ماسک نہیں مل رہے تو گھر میں بنائے جا سکتے ہیں، اتوار کو میرے بھائی صاحب ملنے آئے تو گھر کے بنائے ہوئے کئی ماسک لے آئے، معلوم ہوا کہ بھابھی صاحبہ نے یوٹیوب سے دیکھ کر وہ ماسک گھر میں بنا ڈالے۔ ایسا کرنا چاہیے، اس سے مارکیٹ پر دبائو کم ہوگا۔ کسی کے پاس ماسک، سینی ٹائزرز کا سٹاک ہے توسب کچھ اپنے لئے مختص کرنے کے بجائے دوسروں سے شیئر کر نا چاہیے۔ یہ سوچ کر کہ اس نیکی کا ثمر ان شااللہ اسے دنیامیں بھی ملے گا اور آخرت میں تو یقینی ہے۔ کرونا وائرس ختم کرنا عام آدمی کے اختیار میں نہیں۔ اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش البتہ وہ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد رب کریم سے حفاظت کی دعائیں مانگے، عافیت طلب کرے۔ اگر خدانخواستہ یہ بیماری لاحق ہوگئی تو پھر ڈرنے اور چھپنے کے بجائے علاج کرائیں۔ اگر رب نے بلانا ہے تو پھر تہہ خانوں میں چھپے بھی موت آ پہنچے گی۔ یہ یاد رکھیں کہ مومن کے لئے دنیا آزمائش گاہ ہے، دنیا بھی عارضی ٹھکانہ ہے۔ آخر کار ہم سب نے اپنے مالک کے پاس جانا ہے۔ صبر، برداشت، حوصلے اور ایثار کے جذبے کے ساتھ یہ کٹھن دن کاٹیں۔ آزمائش کے دنوں کا اپنا نصاب ہوتا ہے، ہمیں اس میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔