محمود اچکزئی صاحب کی جانب سے پنجاب اور اہل لاہور کو طعنوں کے بعد جو بحث شروع ہوئی، وہ خاصی پھیل گئی ہے۔ مین سٹریم میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا پر یہ زور شور سے جاری ہے بلکہ پنجاب کے کئی اہل قلم تاریخی حوالے کھنگالنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ ہمارے اخبار نائنٹی ٹو نیوز کے ادارتی شعبہ کے سربراہ برادرم اشرف شریف نے ایسے تاریخی حوالوں پر مشتمل ایک دلچسپ معلومات افزا سیریز شروع کر رکھی ہے۔ اوریا مقبول جان کی بیوروکریسی میں ملازمت کا خاصا عرصہ بلوچستان میں گزرا، وہ بہت سی اندرونی کہانیوں سے اچھی طرح واقف ہیں، انہوں نے اپنے کالموں، ٹی وی پروگرام اور ٹوئٹس کے ذریعے واضح کیا کہ جناب اچکزئی کے اجداد میں شامل اچکزئی سرداروں نے کس طرح انگریز سرکار کا ساتھ دیا اور وظائف پاتے رہے۔ کئی اور دوستوں نے بھی اس موضوع پر طبع آزمائی کی۔ اگلے روز جناب سجاد میر نے اس پر قلم اٹھایا۔
سجاد میر صاحب ہمار ے اس سکول آف تھاٹ کے نمائندہ ہیں جس کا سلسلہ سلیم احمد مرحوم سے پروفیسر محمد حسن عسکری مرحوم تک پہنچتاہے۔ ہم جسے معروف معنوں میں رائٹ ونگ کہتے ہیں، اس میں شعری ادبی علمی بلکہ فلسفیانہ استدلال کو اس سکول آف تھاٹ نے آگے بڑھایا ہے۔ جناب سجاد میر اوران سے برادر خورد کا تعلق رکھنے والے جناب احمد جاوید آج اس نظریاتی ورثے کے امین ہیں۔ اس سکول کا ایک ہونہار فرزند سراج منیر جلد دنیا سے چلا گیا، ان کا کچھ کام البتہ کتابی صورت میں موجود ہے۔ میر صاحب ہمارے بڑے اور استادوں میں سے ہیں، چھوٹوں کو شکوہ کرنے کا حق حاصل نہیں، مگر میر صاحب سے یہی گلہ ہے کہ وہ اپنی صحافتی مصروفیت میں تصنیف وتالیف کا کام نہیں کر پائے۔ ان کی لکھی ہزاروں تحریروں میں سے کم ہی دستیاب ہیں، کالموں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ ہر ملاقات میں یاد دلاتا ہوں کہ ہمارے ادبی منظر نامے کی دوعبقری شخصیات مجید امجد اور سلیم احمد کے ساتھ انہوں نے برسوں گزارے ہیں، ان یاداشتوں کو مرتب کرنا بہت ضروری ہے۔ سجاد میر صاحب ہر بار اپنی مخصوص دلا ٓویز مسکراہٹ کے ساتھ ہامی بھرتے ہیں اور پھر اگلی ملاقات تک یہ تذکرہ موقوف ہوجاتا ہے۔
خیر بات میر صاحب کے کالم کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے اپنے کالم میں ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ سلیم احمد کی محفل میں جمیل الدین عالی نے سوال کیا کہ پنجاب نے بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ہمیشہ تعاون کیوں کیا؟ میر صاحب نے جواب دیا کہ پنجاب نے طویل عرصے تک بیرونی حملہ آوروں کے سامنے مزاحمت کی، انہوں نے سکندر مقدونی کے حملہ کے جواب میں راجہ پورس کی غیر معمولی مزاحمت کی مثال دی، تاہم جب پنجاب مسلمان ہو گیا تو دہلی پر ہندو غلبے کے خلاف اس نے افغانستان سے آنے والے مسلمان حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ احمد شاہ ابدالی کا نام اس حوالے سے لیا گیا۔ ابدالی کے بارے میں تو ویسے یہ روایت بھی ہے کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی ان کو خط لکھا اور ان کے حملے کی راہ ہموار کی کیونکہ مرہٹوں کے جابرانہ غلبے کو توڑنے کی یہی ایک راہ تھی۔ یہ ایسااہم نکتہ ہے جس پر کم توجہ جاتی ہے۔
محترم محمود اچکزئی صاحب نے اپنی لاہور جلسہ کی تقریر میں دراصل کئی باتیں خلط ملط کر دیں، سوشل میڈیا پر چلنے والے مباحث نے انہیں مزید الجھا دیا اور بات کا اصل تناظر کہیں گم ہوگیا۔ ایسی تاریخی بحثیں کم ہی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ جو نوجوان البتہ ان چیزوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کو چاہیے کہ چند نکات ملحوظ خاطر رکھیں ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ کبھی جنرلائز سوئپنگ سٹیٹمنٹ کو قبول نہ کیا کریں۔ علم کی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ایسے ہی بیٹھے بٹھائے کوئی عمومی رائے (جنرلائزسٹیٹمنٹ) نہیں داغی جاتی۔ ہر معاملے کا اپنا تناظر اور بسا اوقات اس کی کئی پرتیں، تہیں ہوتی ہیں۔ ان سب کو سمجھنا پڑتا ہے۔
پنجاب کے بارے میں رائے دیتے ہوئے ایک بہت اہم بات ملحوظ رکھیں کہ پنجاب ایک نہیں ہے۔ پنجاب کو سادہ ترین انداز میں بھی دو یا تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مسلمان پنجابی اور غیر مسلم پنجابی۔ غیر مسلم پنجابیوں کی آگے جا کر تقسیم سکھ اور ہندو کی بنتی ہے۔ مسلمان پنجاب بڑی حد تک اب پاکستانی پنجاب ہے، یہاں سکھ اور ہندو پنجابیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، البتہ تھوڑے بہت پنجابی مسیحی ضرور موجود ہیں۔ مسلمان پنجابیوں کی بڑی غالب اکثریت ہندو یا سکھ سے مسلمان ہوئی ہے۔ یعنی ان مسلم پنجابیوں کا ماضی اور تاریخی پس منظر غیر مسلم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی دیگر قوموں یا قومیتوں میں یہ معاملہ اتنا واضح نہیں۔ پختونوں کی بہت بڑی اکثریت مسلمان ہی ہے، پچانوے ستانوے یا ننانوے فیصد۔ سندھ میں البتہ چند فیصد سندھی ہندو موجود ہیں، بلوچستان کے پشتونوں، بلوچوں میں بھی بڑی قلیل تعداد غیر مسلموں کی ہے۔ کئی صدیوں سے یہ سب مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یہی کشمیریوں اور گلگتی، بلتی عوام کا معاملہ ہے۔
مسلمان پنجاب کی ایک اور تقسیم سرائیکی اور پنجابی کی ہے۔ جنوبی پنجاب میں سرائیکیوں کا مستقر ہے۔ سرائیکی کلسٹر ویسے کے پی، بلوچستان اور اندرون سندھ میں بھی ہیں، مگر سردست پنجاب کے سرائیکی علاقے کی بات ہو رہی ہے جہاں کروڑوں سرائیکی رہتے ہیں۔ سرائیکی اپنی زبان، کلچر وغیرہ کے حساب سے پنجابیوں سے مختلف ہیں۔ ماضی ان کا بھی ہندو یا غیر مسلم رہا، بھارت میں بھی کچھ سرائیکی علاقے ہیں۔ اب یہ ایک دلچسپ ضمنی تقسیم ہے کہ پاکستان کامسلمان پنجاب اور بھارت کا غیر مسلم پنجاب کا فنون لطیفہ مشترک ہے، پنجابی موسیقی گیت، بھنگڑا، شادی کی رسمیں وغیرہ، ایک جیسے ملتے جلتے کھانے جیسے مکئی کی روٹی مع مکھن ساگ وغیرہ۔ پنجاب کے ایک حصے سرائیکیوں کا البتہ بھارتی کلچر کے ساتھ زیادہ کچھ مشترک نہیں۔ سرائیکی خطے میں بھنگڑے کی جگہ جھمر ڈالی جاتی ہے، سرائیکی فوک میوزک میں روہی یا تھل دامان کا عکس ہے اور وہ تیز پنجابی موسیقی سے یکسر مختلف ہے۔ سرائیکی شاعری بھی وصال کی جگہ ہجر اور وچھوڑے کی شاعری ہے۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح ایک صوبے کے اندر مختلف کلسٹر کس طرح الگ الگ سوچتے ہیں۔ ان سب پر ایک رائے کیسے تھوپی جا سکتی ہے؟
یہاں ایک اور اہم تقسیم بھی ذہن میں رکھنا ہوگی۔ پچھلی تین چار صدیوں میں پنجاب پر مختلف حکمران رہے۔ احمد شاہ ابدالی جاتے ہوئے ریاست ملتان کی حکمران پٹھانوں کو دے گیا۔ سدوزئی اور خاکوانی ملتان کے نواب رہے۔ خاکوانی افغان صوبہ ننگرہار کے علاقہ خوگیانی کی نسبت سے خوگانی اور پھر خاکوانی کہلائے۔ سرائیکی علاقوں میں بہت سے پٹھان قبائل آباد ہیں، خاکوانی، ترین، علیزئی، ملیزئی، سدوزئی، باموزئی، بارک زئی، اسماعیل زئی اور بابر وغیرہ، یاد رہے کہ ککے زئی پٹھان نہیں، یہ شیخ برادری کا حصہ کہلاتے ہیں۔ یہ سب پٹھان نسب کے ساتھ اب اپنی لسانی اور سیاسی شناخت سرائیکی رکھتے ہیں۔ یعنی پنجاب کے اندر سرائیکی اور سرائیکیوں کے اندر افغانستان سے آ کر یہاں رچ بسنے والے پٹھان۔
یہاں پر سکھ فیکٹر بھی سمجھنا اہم ہے۔ پنجاب کے سکھ فرقہ نے راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں عروج پایا اورتخت لاہور پر اس کی حکومت قائم ہوئی۔ رنجیت سنگھ کے ساتھ ملتان کے مسلمان پٹھان حکمرانوں کی جنگیں رہیں، آخری جنگ میں نواب مظفر خان سدوزئی اپنے دس بیٹوں سمیت شہید ہوگئے اور ملتان پر بھی سکھوں کا قبضہ ہوا۔ سکھوں یعنی غیر مسلم پنجابیوں نے اپنے پنجاب ہی کے مسلمان پنجابیوں پر ظلم وستم کئے۔ سکھ استبداد کی بہت مثالیں تاریخی کتب میں مذکور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کی بادشاہی مسجد کو رنجیت سنگھ کے دور میں گھوڑوں، خچروں کا اصطبل بنا دیا گیا تھا۔ سکھوں کے دور میں ملتان کے غیر مسلم حکمران دیوان مول چند نے بہت ظلم کئے، مساجد گوردوارے بنے، بے پناہ لوٹ مار ہوئی، خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں۔ ان سب کے ردعمل میں پنجاب (ملتان اور لاہور وغیرہ) کے مسلمانوں کے ایک حلقے نے انگریز کا ساتھ دیا تاکہ سکھ مظالم سے جان چھوٹے۔ یہ فطری اور منطقی ردعمل تھا۔ میرے جیسے لوگوں کے اجداد نے البتہ تیسری راہ نکالی اور وہ بہاولپور کی مسلمان ریاست کا حصہ بن گئے۔ ان کے خیال میں سکھ اور انگریز دونوں ہی مسلمان دشمن ہے، اس لئے مسلمان عباسی نواب کا ساتھ دینا چاہیے۔
اس لئے ہمیں ان بحثوں کو شروع کرتے ہوئے ان تمام گہرائیوں اور پرتوں کو سمجھنا چاہیے۔ سیاسی جلسے میں اپنی ترنگ میں کہی کسی بات پر ردعمل میں خلط مبحث ہی جنم لے گا۔ صاف بات یہ ہے کہ ہندوستان پر حملہ کرنے والے غوری، غزنوی سے لے کر احمد شاہ ابدالی تک کے بارے میں کوئی ایک رائے پنجاب میں موجود نہیں۔ مسلم پنجاب کا رویہ اور ہے، غیر مسلم پنجاب کا الگ۔ سرائیکی مختلف انداز میں سوچتے ہیں تو سرائیکی پٹھان جن حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے، ان کے بارے میں ظاہر ہے نرم گوشہ رکھیں گے۔ اسی طرح مسلم پنجاب میں بھی سیکولر سوچ رکھنے والے بیرونی حملہ آوروں کو مختلف عینک سے دیکھیں گے جب کہ رائٹ ونگ کے مذہبی اور معتدل عناصر ان حملوں کے نتیجے میں ہندوستان میں مرتب ہونے والے مذہبی اثرات کو دیکھتے ہیں۔
محمود اچکزئی جیسے صاحبان کو مشورہ ہے کہ پہلے کچھ عرصہ پنجاب میں قیام کرکے اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ پنجاب کا سماج سادہ ہے نہ تاریخ۔ ان پیچیدگیوں کو سمجھ کر پھر کوئی بات کریں۔ بلا سوچے سمجھے دی گئی جنرلائز سٹیٹمنٹ کہنے والے کی جہالت اور لا علمی ہی ظاہر کرے گی۔