Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Balogh Ul Arab Aur Hatim

Balogh Ul Arab Aur Hatim

کہتے ہیں کہ کتابیں بھی رزق کی طرح طلب گاروں تک پہنچتی ہیں۔ بعض اوقات کوئی شاندار کتاب اچانک ہی کسی وسیلے سے آدمی تک پہنچتی ہے، وہ اسے پڑھتا اور پھر اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ سرشاری اور انبساط کی ایک اچھوتی کیفیت کے طلسم میں وہ تادیر رہتا ہے۔

میری زندگی میں ایسی کئی کتابیں ہیں، جنہیں پڑھنے سے پہلے جو میں تھا، بعد میں وہ نہ رہا۔ ایسی کتابوں میں سے ایک "دنیا کی سو عظیم کتابیں" از ستار طاہر ہے۔ اس کتاب کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ اس کے خاصے مضامین ترجمہ ہیں اور صرف چند ایک ہی طبع زاد۔ ممکن ہے ایسا ہو، مگر پڑھنے والے کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ شاندار کتاب پڑھنے والے کو بالکل بدل ڈالتی ہے۔ کم علمی کے اندھیرے سے وہ کچھ جاننے کے اجالے میں آ جاتا ہے۔ یہ کتاب معلومات اور علم کا خزانہ ہے۔ میں ہر نوجوان کو یہ کتاب پڑھنے کا مشورہ ضرور دیتا ہوں۔ کچھ ہی عرصہ قبل بک کارنر جہلم نے اس کا بہت حسین اور اپ ڈیٹ ایڈیشن شائع کیا ہے۔

ایسی موثر کتابوں میں سے ایک ڈاکٹر حمیداللہ کی" خطبات بہاولپور" ہے۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کی قبر نور سے منور فرمائے، انہوں نے کیاشاندار کام کیا۔ درویش طبع ڈاکٹر حمیداللہ نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں یہ لیکچرز دئیے تھے، جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ جامعہ کے غلام محمد گھوٹوی ہال میں یہ لیکچر ہوئے۔ جن خوش نصیبوں کو وہ سننے کا موقعہ ملا، وہ اس فسوں سے کبھی نہ نکل پائے۔ ڈاکٹر صاحب کے ان لیکچرز کی آڈیو یوٹیوب پر موجود ہے، اس کتاب کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوئے۔ کیا روانی، سلاست اور بے ساختگی ہے، علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر۔ ہم میں سے جو یہ کتاب نہیں پڑھ سکے، ان کی کم نصیبی میں کوئی کلام نہیں۔

ایسی کتابوں میں سے ایک بلوغ الارب بھی ہے۔ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے کے جاہلی عرب معاشرے کو سمجھنے کے لئے اس سے بہتر کتاب اردو میں ترجمہ نہیں ہوئی۔ یہ کتاب قدیم عرب تہذیب، تمدن، حکایات، واقعات، رسم ورواج، کھانوں، ریگستانی سماج، فصاحت میں کمال رکھنے والے خطبا اور نجانے کس کس پہلو کو سموئے ہوئے ہے۔

اس بہترین کتاب کا پبلشر اردو سائنس بورڈ ہے۔ دراصل یہ کتاب 1966میں شائع ہوئی، تب یہ ادارہ مرکزی اردو بورڈ کہلاتا تھا، بعد میں اردو سائنس بورڈ کی شکل اختیار کی۔ بلوغ العرب چونکہ ان کی زیادہ فروخت ہونے والی کتاب تھی، اس لئے اس کے ایڈیشن بعد میں بھی شائع ہوتے رہے۔ بدقسمتی سے یہ جدید کمپوزنگ میں نہیں اور آج بھی اسی پرانے سٹائل میں پیلے سے کاغذ پر خط نسخ میں شائع ہوتی ہے۔ چار جلدوں پر محیط یہ کتاب ایک سوغات کا درجہ رکھتی ہے۔ عرب ادیب محمود شکری الوسی اس کے مولف ہیں۔ اردو میں اسے ڈاکٹر پیر محمد حسن نے کمال محنت اور عرق ریزی سے ترجمہ کیا۔ حواشی سے ان کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔

بلوغ الارب میں بہت کچھ ہے، ایسا جس پر درجنوں کالم لکھے جا سکیں۔ میں جب بھی کہولت کا شکار ہوں، یکسانیت زدہ زندگی سے کوفت ہو، سیاسی حالات طبیعت میں بیزاری اور چڑچڑا پن پیدا کریں تو اسی طرح کی کتاب پڑھنا فرحت بخش اور لطف انگیز لگتا ہے۔ گزشتہ روز بلوغ الارب کی پہلی جلد پڑھتے ہوئے حاتم الطائی کا قصہ پڑھا۔ حاتم طائی ہمارے ہاں بھی خاصا معروف ہے، بچوں کی کہانیوں میں ذکر آتا ہے، ڈرامے بھی بن چکے ہیں، ہمارے بچپن میں پی ٹی وی پر بھی ڈرامہ چلا تھا۔ چند سال پہلے ایک بھارتی چینل پر بھی اسی نام سے ڈرامہ دیکھا۔

حاتم عربوں میں ایک بہت ہی مشہور اور نامور کردار ہے۔ حاتم ایک اچھا شاعر بھی تھا۔ عربوں میں سخاوت اور شاعری دونوں بڑے وصف سمجھے جاتے تھے۔ عربوں میں مثل تھی کہ حاتم سے بڑھ کر سخی کوئی نہیں۔ حاتم قبیلہ طے یا طی سے تعلق رکھتا تھا، اسی مناسبت سے طائی کہلایا۔ حاتم کا زمانہ آپ ﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے کا ہے۔ روایت ہے کہ حاتم کی ایک بیٹی سفّانہ ایک جنگ میں گرفتار ہو کر سرکار ﷺ کی خدمت میں لائی گئی۔ اس نے التجا کرتے ہوئے کہا، "میرا باپ اپنی قوم کا سردار تھا، قیدیوں کو چھڑایا کرتا تھا، جن امور کی حفاظت اس کے ذمے ہوتی، ان کی حفاظت کیا کرتا تھا۔ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرتا، کھانا کھلایا کرتا، امن وسلامتی کو رواج دیتا تھا۔ کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جو اس کے پاس آیا ہو اور حاتم نے اس کی حاجت روائی نہ کی ہو، میں اسی کی بیٹی ہوں۔ "یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، لڑکی یہ تو مومن کی صفات ہیں، تمہارا باپ اگر عہد اسلامی میں ہوتا تو ہم اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے۔ پھر آپ نے حکم دیا کہ اسے رہاکر دیا جائے کیونکہ اس کا باپ مکارم اخلاق سے محبت کرتا تھا۔

حاتم کے بارے میں الاعرابی نے کہاہے، " حاتم سخی تھا، اس کی سخاوت اس کے شعروں کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتی ہے، اس کا فعل اس کے قول کی تصدیق کرتا، جہاں کہیں اترتا اس کی قیام گاہ لوگوں میں معروف ہوتی۔ ہمیشہ ظفر یاب رہا، جب بھی لڑا غالب آیا۔ جب بھی غنیمت کا مال حاصل کیا تو لٹا دیا، جب کسی کو گرفتار کیا تو رہا کر دیا۔ اس نے قسم کھائی تھی کہ کسی ماں کے اکلوتے بیٹے کو قتل نہیں کرے گا۔ رجب کا چانددیکھنے کے بعد وہ ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھلا دیتا۔ چناچہ لوگ اس کے پاس آ کر جمع ہوجاتے۔ "

حاتم کے بہت سے قصے آج تک مشہور ہیں، ان میں سے بعض تو ناقابل یقین ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ کسی کام کے لئے محرم کے مہینے میں روانہ ہوا۔ جب قبیلہ عنزہ کے علاقے میں پہنچا تو ان کے ایک قیدی نے اسے پکار کر کہا، اے ابو سفّانہ، مجھے باندھنے کی رسیوں اور جوئوں نے کھا لیا ہے، مجھے بچائو۔ (یاد رہے کہ اس زمانے میں قیدی کی گردن میں تازہ ذبح کئے جانور کی کھال کا طوق بنا کر ڈال دیتے تھے۔ جب وہ خشک ہوجاتا تو سخت تکلیف دیتا جبکہ کچی کھال کی وجہ سے اس میں جوئیں اور کیڑے بھی پڑ جاتے تھے۔)

حاتم نے بھنا کر کہا، تمہارا خانہ خراب ہو، میں اپنی قوم کے علاقے میں نہیں ہوں، اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ تم نے میرے نام کی تشہیر کر کے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، مگر اب میں تمہیں چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتا۔ اس کے بعد اس نے قبیلہ عنزہ والوں سے بھائو تائو کر کے قیدی کو خریدا اور رہا کرایا، اس کے پاس مگر دینے کو پیسے نہیں تھے، اس نے خود کو اسی قبیلے کے پاس رہن رکھوایا اور اپنے گھر سے پیسے منگوائے، جب پیسے آئے تو وہ آزاد ہو کر اپنے کام سے آگے بڑھا۔

حاتم کی بیوی ماویہ جو اس کی سخاوت سے تنگ بھی رہتی تھی، اس نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک بار سخت قحط سالی تھی، اونت اور مویشی برباد ہوگئے، ایک رات ہم نے شدید بھوک میں گزاری، ہمارا بیٹا عدی اور بیٹی سفانہ بھوکے سوئے، حاتم مجھے باتیں کر کے بہلاتا رہا تاکہ میں بھی سو جائوں۔ سب سونے والے تھے کہ خیمے کے باہر کسی عورت کی آواز آئی، حاتم نے اٹھ کر دیکھا تو ایک عورت تھی جوکہہ رہی تھی، اے ابو سفانہ میں تمہارے پاس بھوکے بچوں کی طرف سے آئی ہوں۔ حاتم نے کہا اپنے بچوں کو لے کر آ، اللہ کی قسم میں ضرو ان کے پیٹ بھروں گا۔ حاتم کی بیوی ماویہ اٹھ گئی، خاوند سے پوچھا کہ کوئی مویشی نہیں ہے، ہمارے بچے بھی بھوکے سوئے ہیں۔ حاتم اٹھا اور اپنا عزیز گھوڑا ذبح کر دیا۔ پھر آگ جلائی، گوشت کے ٹکڑے کئے ا ور اس عورت کو کہا کہ بھونتی جا، خود بھی کھا اور بچوں کو بھی کھلا۔ پھر مجھے کہا کہ بچوں کو اٹھا۔ پھر حاتم کہنے لگا کہ یہ تو کمینہ پن ہے کہ تم تو گوشت کھائو اور ڈیرے والے جو بھوکے پڑے ہیں وہ ایسے رہیں۔ وہ ہر ایک کے گھر گیا اور انہیں بلا لایا۔ سب نے اکھٹے ہو کر کھایا، مگر وہ کمبل اوڑھ کر ایک طرف بیٹھا رہا، حتیٰ کہ گھوڑے کے گوشت میں سے کچھ نہ بچا، حاتم بھوکا ہی رہا۔

حاتم کے دیوان میں بہت سے اشعار سخاوت کے حوالے سے ہیں۔ اپنی بیوی کو مخاطب کر کے کہتا ہے:

جب تو کھانا تیار کرے تو ساتھ کھانے والا بھی تلاش کر

کیونکہ جانتی ہے میں کھانا کبھی اکیلا نہیں کھا سکتا

جب تک کوئی مہمان میرے ہاں مقیم رہے، میں اس کا غلام رہتا ہوں

اس ایک خصلت کے سوا مجھ میں غلاموں کی سی اور خصلت نہیں ہے

ایک اور جگہ لکھتا ہے:

سخی آدمی اپنے عیال اور مہمانوں کو جب تک اسکا مال موجود ہو

کبھی مصیبت اور تنگی کی حالت میں نہیں رکھ سکتا

جب تو ہنڈیا پکائے تو اسے چھپا کر نہ رکھ، اگر ایسا کیا تو

جو کچھ تو نے پکایا ہوگا، وہ مجھ پر حرام کی طرح ہوگا

جب آگ جلانا تو ٹیلے پر پڑی ہوئی موٹی لکڑیاں جلانا

چھوٹی لکڑیاں جلد بجھ جاتی ہیں، کھانا زیادہ نہیں پکے گا