پاکستانی سیاست اور پاکستانی سیاستدانوں پر بات کرنی ہے، مگر پہلے حالیہ امریکی انتخابات میں ہونے والے ایک اہم عنصر پر نظرڈالتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے کالم نگار اور معروف امریکی تجزیہ نگار نکولس کرسٹوف کا امریکی صدارتی الیکشن پر تجزیہ چند دن پہلے پڑھا۔ کرسٹوف اپنی تحقیقی رپورٹس پر دوبارمشہور صحافتی پلٹرز ایوارڈ حاصل کر چکا ہے۔ کرسٹوف نے اپنے کالم میں بڑے تاسف اور ایک طرح کی حیرت کے ساتھ لکھا کہ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ امریکی عوام جو پچھلے چار برس سے صدر ٹرمپ کو دیکھ رہے تھے، کورونا کے حوالے سے اس کی بدترین مس ہینڈلنگ بھگت چکے، جنہوں نے قوم سے لائیو تقریروں میں اس کے بہت سے جھوٹ پکڑے، امریکی اداروں پر اس کے متعدد حملوں کا مشاہدہ کیا، انہی امریکیوں میں سے اتنے زیادہ لوگ آخر ٹرمپ کے لئے ووٹ ڈالنے کیوں گئے؟
یہ وہ اہم نکتہ ہے جسے سمجھنے میں بیشتر امریکی تجزیہ کار، اینکر، دانشور اور رپورٹر ز ناکام رہے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹرمپ نے جو کچھ امریکہ اورامریکی اداروں کے ساتھ کر دیا، اس کے بعد الیکشن میں اس کا ووٹ بینک خاصا کم ہوجائے گا۔ یوں اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اندازے غلط نکلے۔ یہ تو درست ہے کہ صدر ٹرمپ الیکشن ہار گئے اور الیکٹوریل ووٹ میں فر ق رہا، مگر ٹرمپ کے لئے امریکی عوام کا بڑا حصہ ووٹ ڈالنے نکلا۔ انہیں سات کروڑ سے زیادہ ووٹ پڑے۔ ٹرمپ جیسے مزاج، سٹائل اور بری ساکھ والے شخص کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنا نکولس کرسٹوف جیسے کہنہ مشق تجزیہ کار کو بھی پریشان کر گیا۔
اس کا جواب کھوجنے کی مختلف تجزیہ کاروں نے کوشش کی اورحاصل ہونے والا نتیجہ قابل فہم ہے۔ ٹرمپ نے امریکی ووٹروں کے ایک بڑے حصے کے مسائل اور پریشانیوں کا درست ادراک کیا، اس نے اپنی تقریروں، گفتگو اوراقدامات میں ان کے جذبات کی ترجمانی کی۔ ایسا نہیں کہ ٹرمپ کو صرف سفید فام نسل پرستوں میں پزیرائی ملی، اسے معتدل سفید فاموں میں بھی ووٹ ملے، حیران کن طو رپر اس نے چند فیصد کالے اور ہسپانوی ووٹ کا ایک حصہ بھی حاصل کیا۔ یہ سیاست کا سادہ اصول ہے کہ اس میں خلا باقی نہیں رہتا۔ عوام کا ایک طبقہ اگر کچھ چاہتا ہے، معروف سیاسی جماعتیں اس طرف توجہ نہیں دیتیں تو وہ اپنے دل کی بات کرنے والے نسبتاً غیر معروف سیاستدانوں اور جماعتوں کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ یہی ٹرمپ کے معاملے میں ہوا۔
مجھے پاکستان میں بھی وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ صرف جماعت اسلامی نے الگ راہ اختیار کی، جماعت کے لوگ اپوزیشن کرنا چاہ رہے ہیں، مگر پی ڈی ایم کے مخصوص احتجاجی رنگ اور آہنگ کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی سوچ اور اپنے منشور کے مطابق۔ پی ڈی ایم نے ایک خاص بیانیہ تخلیق کیا ہے، اے پی سی کی قرارد اد اس حوالے سے خاصی جامع ہے، اس میں بہت سے نکات کا حوالہ دیا گیا۔
پی ڈی ایم کے اس بیانیہ کو میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے اپنے ہی انداز میں آگے بڑھایا ہے۔ میاں نواز شریف تواداروں کی قیادت پر براہ راست حملہ آور ہوئے ہیں۔ اس جارحانہ انداز سے پیپلزپارٹی نے واضح طور پر فاصلہ اختیارکیا، بلاول بھٹو حالیہ دنوں میں کم از کم دو بار اس کا اشارہ دے چکے ہیں۔ پی ڈی ایم کے بیانیہ کے اس داخلی تضاد کے مضمرات پر سردست بات نہیں کرتے، مگر مجموعی طور پر یہ بیانیہ ایک بڑے سقم کا حامل ہے۔ مریم نواز، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن اور بلوچ پشتون قوم پرست یہ بات بار بار کہہ رہے ہیں کہ عمران خان سلیکٹڈ اور زیرو ہے، صرف اسٹیبلشمنٹ کے سہارے پر اس کی حکومت کھڑی ہے۔ مریم نواز شریف کا لب ولہجہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں بہت زیادہ سخت اور توہین آمیزہے۔ ویسے اس معاملے میں خان صاحب اور پی ٹی آئی شکوہ نہیں کر سکتی کہ خود انہوں نے ہر ایک جماعت کے ساتھ ویسا ہی توہین آمیز سلوک روا رکھا۔ افسوس کہ بدزبانی اور ذاتی حملوں کا ایک میچ ہے جو چھ برسوں سے جاری ہے، مقابلہ ٹائی ہونے پر ہے، شائد سپر اوور کی نوبت آئے۔
اپنے غصے اور جھنجھلاہٹ میں پی ڈی ایم کے رہنما یہ بات مگر بھول گئے ہیں کہ عمران خان پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا اعتراض 2018ء کے الیکشن پر ہے، وہ تحریک انصاف کے حاصل کردہ ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ووٹوں کو درست نہیں سمجھتے۔ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسی عمران خان نے 2013ء کے انتخابات میں مناسب امیدوار وں کے بغیر، انتخابی تجربے کی عدم موجودگی میں ستر لاکھ ووٹ لئے تھے۔ جولائی 2018ء کے انتخابات میں عمران خان کے امیدواروں پر نظر ڈال لی جائے تو ستر لاکھ ووٹوں کا دوگنا ہوجانا غیر فطری نہیں لگتا۔ عمران خان پر بہت سے حوالوں سے تنقید ہوسکتی ہے، کوئی چاہے تو جولائی اٹھارہ کے الیکشن پر بھی انگلی اٹھا دے، عمران خان کی حکومت، گورننس پر تنقید کے بے شمار نکات موجود ہیں۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر عمران خان نے عوام کے بڑے حصے کو متحرک کیا، تبدیلی کے لئے ان کی خواہش کو سمجھا، ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے نعرے تخلیق کئے اور یوں بڑا ووٹ بینک بنا لیا۔
عمران خان کی سو ا دو سالہ حکومتی کارکردگی خاصی مایوس کن ہے۔ خان صاحب نے اچھی ٹیم کا انتخاب نہیں کیا، ناتجربہ کاری اور بعض امور میں نااہلی بھی جھلکتی ہے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے میں وہ بری طرح ناکام ہوئے، جو تھوڑا بہت اچھا کام کیا، اس کا تاثر بھی عوام میں نہیں بنا سکے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ، مگر عمران خان نے جو ووٹ بینک بنایا تھا، وہ ابھی ہوا میں تحلیل نہیں ہوا۔ لوگ خان سے مایوس ضرور ہوئے، مگر اس مایوسی نے ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں کے لئے نرم گوشہ پیدا نہیں کیا۔ جو لوگ شریف اور زرداری خاندان کو کرپٹ سمجھتے تھے، وہ آج بھی وہی سوچتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے طرز سیاست کو ناپسند کرنے والے آج مولانا کے مداح نہیں بن گئے؟
آخر وہ ایسا کیوں کریں؟ کیا شریف اور زرداری خاندان یا مولانا نے اپنے سٹائل میں تبدیلی پیدا کی ہے؟ کیا انہوں نے اپنے نعروں، ایجنڈے میں نظام کی تبدیلی کو شامل کیا، کرپشن کے خلاف بات کی؟ نہیں۔ وہ تو رسماً بھی کرپشن کے خلاف بات نہیں کرتے۔ ماضی کے حکمرانوں پر جو الزامات تھے، وہ ان سے عوام کی نظر میں بری نہیں ہوئے۔ جن وجوہات کی بنا پر تنقید کی جاتی تھی، وہ ختم تو نہیں ہوگئیں۔ ان پرانی پارٹیوں نے کوئی ایسا نیا عوامی ایجنڈا نہیں دیا جس وجہ سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں۔ خاص کر عمران خان کے ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے کیا کیا گیا؟ کچھ بھی نہیں۔ ہمارا پڑھا لکھا شہری طبقہ کیا سوچتا ہے، اس کے کون سے مسائل ہیں، وہ حکمرانوں سے کیا چاہتا ہے ? یہ باتیں ابھی تک ماضی کی دونوں حکمران جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو سمجھ نہیں آ رہیں۔
یہ درست کہ عمران خان کے ووٹراس سے خوش نہیں، ان کے تحفظات موجود ہیں، ممکن ہے چند فیصد لوگ دلبرداشتہ ہو کر الگ ہو گئے ہوں، مگر یہ لوگ پیپلزپارٹی، ن لیگ کی طرف نہیں جا سکتے۔ یہ زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار ہوجائیں گے یا پھر انتخابی میدان سجنے پر فیصلہ کریں گے کہ واپسی اختیار کی جائے یا گھر بیٹھے رہیں۔
جس طرح نیویارک ٹائمز کا ممتاز کالم نگار ٹرمپ کے لئے ووٹ ڈالے جانے کی بلند شرح پر حیران ہوا، مجھے لگتا ہے پاکستانی اپوزیشن جماعتوں کو بھی ویسے ہی سرپرائز سے واسطہ نہ پڑ جائے۔ سیاست میں خلا برقرار نہیں رہتا۔ کوئی نہ کوئی جماعت اس خلا میں قدم رکھتی اور پھر ثمرات سمیٹ لیتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے کسی کے پاس ایسی حکمت عملی موجود ہے؟