ڈاکٹر شاہ محمد مری بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف لیفٹسٹ دانشور، ادیب، مترجم ہیں۔ سیاسی اور فکری اختلاف کے باوجود میں ذاتی طور پر ڈاکٹر صاحب کا احترام کرتا ہوں۔ وہ پچاس سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ بلوچ قوم کی تاریخ اور دیگر ایشوز پر کئی کتابیں لکھیں۔ بعض عالمی شاہکار تصنیفات کے تراجم بھی کئے، جن میں ہاورڈ فاسٹ کا سپارٹیکس سر فہرست ہے۔ انہوں نے ایک سیریز"عشاق کے قافلے" کے عنوان سے لکھی ہے، اس میں مزدک، شاہ عنایت، شاہ لطیف، مست توکلی، یوسف عزیز مگسی اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ ان میں معروف ترقی پسند دانشور کمال خان شیرانی بھی شامل تھی۔
سائیں کمال خان شیرانی پر کتاب پڑھنی شروع کی تو ان کی شخصیت سے متاثر ہوا۔ کمال خان نے نظریے کی خاطر اپنی اچھی سرکاری ملازمت چھوڑ دی۔ نوجوانوں کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا، ان کی سیاسی تربیت کی، سٹڈی سرکل چلائے۔ وسیع العلم اور وسیع المطالعہ انسان تھے۔ ان کی جدوجہد، ایثار اور قربانیوں پر رشک آیا۔ کتاب پڑھتے پڑھتے اچانک ایک ایسا جملہ پڑھا کہ تمام تر تاثر بدل گیا۔ جو بلند عمارت تصور میں بنی تھی، وہ دھڑام سے نیچے آگری۔ کمال خان شیرانی کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ (معروف کمیونسٹ کارکن )میجر ریٹائر اسحاق کا ایک فقرہ اکثر کوٹ کیا کرتے۔ میجر اسحاق کے بقول "پنجابی چونکہ گندم کھاتے ہیں، اس لئے وہ غبی العقل ہیں۔" یہ فقرہ پڑھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ یقین ہی نہیں آیا کہ اتنا پڑھا لکھا، علم رکھنے والا شخص جو نظریاتی ہے اور طبقاتی کشمکش کو سمجھتا ہے، وہ اس قدر متعصب ہوسکتا ہے کہ ایک نہایت فضول، بچکانہ سی بات پر نہ صرف یقین رکھے بلکہ اسے آگے بیا ن بھی کرے۔ قوم پرستی کے ساتھ لپٹا زہر یلا پن اور تعصب شائد اس قدر زود اثر ہے کہ وہ کشادگی سوچ سے محروم کر دیتا ہے۔ میجر اسحاق پر اللہ رحم کرے، انہوں نے معلوم نہیں کس وقت، اپنی کسی ترنگ میں آ کر یہ بات کہہ ڈالی۔ یہ سوچے بغیر کہ کروڑوں پنجابیوں کے حوالے سے ایسی کمزور بلکہ احمقانہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے؟ اسے دل وجاں سے قبول کرنے اور آگے پھیلانے والوں پر بھی حیرت ہے۔ گندم یہاں کون سی قوم نہیں کھاتی؟ کیا زہانت کا دارومدار گندم کھانے یا نہ کھانے پر ہے؟ ڈاکٹر مری کی کتاب آگے پڑھی نہیں گئی۔
یہی وہ غلطیاں ہیں جو ہمارے اچھے بھلے پڑھے لکھے قوم پرست کرتے ہیں، خود ہمارے سرائیکی قوم پرست بھی انہی تعصبات سے مبّرا نہیں۔ قوم پرست کروڑوں افراد پر مشتمل قوموں کو اپنی ایک سطری سٹیٹمنٹ کے ذریعے نپٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی سماج اتنے سادہ نہیں ہوتے، ان کے اندر تضادات اتنے زیادہ اور تہہ در تہہ ہیں کہ گہرائی میں جا ئے بغیر انہیں سمجھا نہیں جا سکتا۔
کسی فرد کے بارے میں رائے دینا قدرے آسان ہے، مگر لاکھوں، کروڑوں پر مشتمل اقوام کے متعلق رواروی میں رائے نہیں دی جا سکتی۔ ہر فرد کا اپنا سماجی پس منظر، حالات اورطبع ہے۔ ایک ہی گھر کے چار بیٹوں کا مزاج، شخصیت اور آرا ایک دوسرے سے مختلف ہوجاتی ہیں۔ موروثیت کا کچھ عمل دخل ہے، مگر آگے جا کر اساتذہ، دوستوں، قدرت کی جانب سے وارد کردہ واقعات اور حادثات کے نتیجہ میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ ایک شہر کے مختلف محلے بسا اوقات مختلف انداز میں ردعمل دیتے ہیں۔ پیشہ لوگوں کا طرزعمل بدل دیتا ہے۔ کسان، جنگجو، تاجر، دکان دار، مزدور، ہنرمند، سرکار کے ملازم الگ الگ انداز میں سوچتے اورعمل کرتے ہیں۔ شہروں اور دیہات کا پس منظر، خواہشات اور ردعمل مختلف ہیں۔ ایک شہر دوسرے سے مختلف رویہ پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کئی کروڑ افراد ایک ہی پیٹرن پر سوچیں۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ چند ایک باتیں ا ن میں مشترک ہوں، مگر وہ کیا اور کون سی ہیں، ان کے بارے میں یقین سے نہیں کیا جا سکتا۔ علمی اور سائنسی رویہ یہ ہے کہ ہم رائے بناتے ہوئے ان تمام فیکٹرز کو ذہن میں رکھیں۔ اپنی رائے کے حتمی ہونے پر زور نہ دیں اور حقائق تک پہنچنے کے لئے اوپن رہیں۔ ہم پنجابیوں، بلوچوں، پشتونوں، سندھیوں، سرائیکیوں، کشمیریوں اور دیگر اقوام کے بارے میں بلا ججھک کسی بھی رائے کا اظہار کر دیتے ہیں، یہ غیر منطقی، غیر علمی رویہ ہے۔
اپنے پچھلے کالم میں افغانستان کے راستے ہندوستان پر ماضی میں حملہ آور ہونے والے لشکروں اور سالاروں کے حوالے سے بات ہوئی۔ اس طعنے پر بھی تفصیل سے بات کی کہ پنجاب نے بیرونی حملہ آوروں کی مزاحمت نہیں کی۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ طعن وتشنیع سے پہلے پنجاب کے تہہ در تہہ سماج کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے اندر مسلم، غیر مسلم کی تقسیم جاننی چاہیے۔ غیر مسلم پنجابیوں یعنی سکھوں کی حکومت میں مسلمان پنجابیوں پر کیا گزری، کچھ اس کی بھی خبر لی لینی چاہیے۔ ویسے میدانی علاقوں میں رہنے والوں کا موازنہ کوہستانی علاقوں کے مکینوں سے کرنا بھی حماقت آمیز سادہ لوحی ہے۔ صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ایسے علاقوں کے سماج کی بنت مختلف ہوتی ہے۔ زرخیز زمین، پانی کی فراوانی اور سازگار موسم کی بنا پر لوگ زیادہ تر زراعت پیشہ ہوتے ہیں۔ وہ کوہستانیوں کی طرح جنگجو اور سخت جان نہیں ہوتے۔ یہ فطری جغرافیائی فرق ہے۔
سب سے اہم کہ میدانی علاقوں میں گوریلا جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ مزاحمت ممکن نہیں رہتی۔ پہاڑاور جنگل گوریلا جنگ کے لئے موزوں ہیں۔ جنگجو غاروں یا گھنی جھاڑیوں میں چھپ جاتے ہیں۔ اونچی چٹانوں، چوٹیوں اور تنگ دروں کی وجہ سے دفاع آسان ہوجاتا ہے۔ میدانی علاقوں میں اگر حملہ آور فوج زیادہ بڑی ہے، ان کے پاس جدید اسلحہ ہے تو مقامی فوج تباہ ہوجائے گی۔ فوجی مارے جاتے ہیں یا پھر انہیں ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں، وہ بھاگ کر کہیں چھپ نہیں سکتے۔ پہاڑی علاقوں میں مزاحمت جاری رہ سکتی ہے۔
افغانستان میں پچھلی صدیوں میں روس، برطانیہ اور اب امریکیوں کو برتری کی بڑی وجہ مقامی آبادی کو ملنے والا جغرافیائی ایڈوانٹیج ہے۔ افغانوں کے جذبے، جرات اور قربانیوں کی نفی مقصود نہیں، مگر کابل اور دیگر بڑے شہروں کے مکین بھی افغان ہی تھے۔ وہ کم دلیر نہیں، مگر بیرونی حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ دیہی علاقوں میں البتہ گوریلا جنگ طویل چلی اور پھر وہاں سے قوت پا کر شہروں پر بھی قبضے ہوگئے۔ طالبان حکومت میں تاجک گوریلا لیڈر احمد شاہ مسعود کی مزاحمت دیکھ لیجئے۔ پچانوے فیصد افغانستان پر طالبان کا کنٹرول تھا، مگر پنج شیرکی دشوار گزار پیالہ نما وادی کی وجہ سے وہ احمد شاہ مسعود کو بے دخل نہیں کر سکے۔ امریکیوں کے خلاف طالبان گوریلا مزاحمت دیکھ لیں، کابل، جلا ل آباد، ہرات، خوست اور دیگر شہروں سے طالبان پہلے ہی ہلے میں بے دخل ہوگئے، مگر دیہی علاقوں میں مزاحمت جاری رکھی اور ہِٹ اینڈرَن کی حکمت عملی سے امریکیوں کو زچ کئے رکھا۔
اپنے دونوں کالموں میں صرف یہ بتانے، سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ معاملات اتنے سادہ اور واضح نہیں ہوتے جتنے ہم اپنی لاعلمی کی بنا پر فرض کر لیتے ہیں۔ حقیقتیں کبھی کچھ یوں گڈمڈ ہوتی ہے کہ انہیں کھول کرمفروضوں سے الگ کرنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں ماضی بعید کے طرز عمل پر طعنے دینا بیکار اور مجہول حرکت ہے۔ ہمیں لمحہ موجود میں رہنا اور آج کے مسائل پر بات کرنی چاہیے۔ کیسی بے کار بات ہے کہ آج کے کسی انسان کو اس کی چار پانچ پشت پہلے کے فرد کے عمل پر ہدف تنقید بنایا جائے۔ بلوچ سرداروں نے انگریز افسر کی بگھی کھینچی یا محمود اچکزئی صاحب کے اجداد میں سے کسی نے وظیفہ لیا یا ایسا کچھ واقعہ پنجاب، خیبر پختون خوا یا سندھ میں ہوا، وہ سب تاریخ، ماضی بعید کا قصہ ہے۔ محمود اچکزئی کے والد پاکستان مخالف تھے مگر وہ انگریز مخالف بھی رہے، اس سے انکارکیوں کیا جائے؟ مخدوم شاہ محمود قریشی مجھے اپنے مصنوعی لب ولہجہ اور روایتی سیاست کی بنا پر کبھی پسند نہیں رہے، مگر مجھے اس پر ہمیشہ اعتراض رہا کہ قریشی صاحب پر ان کے پردادا یا کسی اور بزرگ کی وجہ سے تنقید کی جائے۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے اگر کسی نے انگریز کا ساتھ دیا تو آج کے شاہ محمود قریشی کا کیا قصور؟ ہمارے بعض صحافی دوست یہ طعنہ دیتے رہے، مگر یہ غیر منصفانہ تنقید اور زیادتی ہے۔
ویسے بھی تاریخ کو کھنگالیں تو بہت سی باتیں گڈمڈ ملیں گی۔ سکندر اور دیگر حملہ آوروں کی مزاحمت بھی ہوئی اور انہی کے بھائی بندوں نے حملہ آور کا ساتھ بھی دیا۔ مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوئی تو کبھی یار لوگوں نے مذہب ایک طرف رکھ کر فاتحین کا ساتھ دیا۔ احمد شاہ ابدالی مسلم افغان تھا، اس کے مقابلے میں مرہٹہ فوجی توپ خانے کا کمانڈر ابراہیم خان گادھی بھی افغان النسل مسلمان تھا۔ سراج الدولہ کو شکست دلانے اور انگریزوں کو جتوانے والا میر جعفر اس کا قریبی رشتے دار تھا۔ میر غلام علی لنگڑے نے ٹیپوکی شکست میں کردار ادا کیا۔ بابر اور ابراہیم لودھی کی جنگ میں ہم فاتح کے حامی بنے مگر ہارنے والا بھی مسلمان لودھی پٹھان تھا۔ افغانستان پر انگریزوں کے قبضے کی راہ ہموار کرنے میں کچھ افغان سرداروں کا بھی ہاتھ تھا۔ روسی فوج کا خیر مقدم کرنے والے ببرک کارمل اور نور محمد ترکئی وغیرہ بھی افغان ہی تھے۔ ترکئی تو ہمارے ترقی پسندوں میں مقبول رہا ہے، اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہوئے۔ آخری تجزیے میں فرد کا کردار (کیریکٹر)اہم ہے، اس پر بات ہونی، اسی پر حکم لگانا چاہیے۔