کراچی میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے ایک اور اچھا شو کیا۔ تعداد کے لحاظ سے یہ خاصا بھرپور جلسہ تھا۔ پیپلزپارٹی نے اپنے مخصوص انداز میں اسے ترتیب دیا اور سندھی موسیقی کے ساتھ ان گانوں پر پرفارم کرنے والے کارکنوں کی صورت میں وہ تمام رنگ شامل ہوگئے جو ٹی وی کوریج کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
گوجرانوالہ کے جلسے پر کالم لکھتے ہوئے دو باتیں کہی تھیں، ایک یہی کہ کراچی میں اچھا جلسہ ہوجائے گا، دوسرا یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پیپلزپارٹی میاں نواز شریف کو اپنے جلسے میں تقریر کی اجازت دے گی۔ میرا اندازہ یہی تھا کہ پیپلزپارٹی ایسا نہیں کرے گی۔ زرداری صاحب اپنے مخصوص انداز میں کھیل رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کو انہوں نے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے دیگر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر دھواں دھار تقریریں کریں، مسلم لیگ ن کے ساتھ سیاسی قربت بنائیں، حکومت پر سخت تنقید کریں، اداروں پر بھی نکتہ چینی کریں، مگر ایسا کرتے ہوئے سرخ لکیر عبور نہ کی جائے۔ گوجرانوالہ جلسہ اور کراچی میں بلاو ل بھٹو نے اپنی حدود وقیود کا خیال رکھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے زرداری صاحب سے اپنی ملاقات میں زور دیا کہ نواز شریف صاحب کو تقریر کرنے دیا جائے، مگر زرداری صاحب نے اتفاق نہ کیا۔
زرداری صاحب کی مصلحت پسندی قابل فہم ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا اس سیاسی سسٹم میں کوئی حصہ نہیں۔ ان کی بلا سے پارلیمنٹ کل کے بجائے آج ہی چلی جائے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت بھی سخت دلبرداشتہ اور شاکی ہے۔ میاں نواز شریف سسٹم گرانا چاہتے ہیں، شائد ان کے خیال میں پولیٹیکل سیٹ اپ کے بجائے عسکری سیٹ اپ کھل کر سامنے آئے تو عالمی دبائو ڈالناآسان ہوجائے گا۔ ن لیگ کی قیادت امریکہ میں جو بائیڈن کے صدر بننے سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھی ہے جو کلاسیکل ڈیموکریٹ اور غیر جمہوری حکومتوں کے ناقدہیں۔ اس کے برعکس صدر زرداری کو علم ہے کہ اگلے انتخابات میں بھی زیادہ سے زیادہ وہ سندھ کی صوبائی حکومت لے سکتے ہیں۔ پھر وہ نئے الیکشن اور ان پر اربوں روپے خرچ کرنے کا رسک کیوں لیں؟ آصف زرداری اپوزیشن تو کرنا چاہ رہے ہیں، مگر وہ سسٹم گرانا نہیں گرانا چاہتے۔ اپوزیشن کا کردار نبھانے سے انہیں سیاسی فوائد ملیں گے۔ اگر کوئی ڈیل نہ ہو، تب بھی ان کے اور اہل خانہ کے گرد گھیرا ڈھیلا ہوجائے گا، ممکن ہے سینٹ میں کچھ مل جائے۔
مریم نواز شریف کی تقریر پہلے سے زیادہ سخت تھی، وہ غیر معمولی جارحانہ انداز اپنا چکی ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ مریم صاحبہ کی قیادت میں مسلم لیگ ن بڑے تصادم کی طرف بگٹٹ دوڑی جا رہی ہے۔ مریم صاحبہ خود بھی اپنے لئے شدید مشکلات پیدا کریں گی اور اپنے ساتھ اپنی پارٹی کو بھی گہری کھائی میں لے جا سکتی ہیں۔ اللہ خیر کرے، سیاسی تصادم کسی کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ ملک کی مجموعی سیاسی قوت کو ضعف پہنچتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کوئی ایسی قوت یا فرد، گروہ موجود نہیں جو ثالثی کر سکے یا تصادم روکے اور کشیدگی میں کمی لے آئے۔
مولانا فضل الرحمن کا میں دیرینہ ناقد ہوں، پچھلے سال انہوں نے دھرنا دیا تو اس سے پہلے لکھ دیا تھا کہ وہ ناکام ہوں گے۔ انہیں ناکام ہی ہونا پڑا۔ اس بار مولانا زیادہ پراعتماد ہیں۔ اس کی وجوہات ابھی سمجھ نہیں آ رہیں۔ مولانا کی تقریروں کی البتہ ستائش کرنی چاہیے۔ گوجرانوالہ اور کراچی دونوں جگہوں پر سب سے جامع اور بھرپور تقریر ان کی تھی۔ انہوں نے حکومت پر سخت تنقید کی، عمران خان پر طنز کے تیر چلائے، اداروں کی طرف بلیغ اشارے کئے، مگر زیادہ آگے جانے سے گریز کیا۔ کراچی کے جلسہ میں وہ کشمیر کے حوالے سے خاصا بولے۔ کشمیر مولانا کا پسندیدہ موضوع نہیں۔ وہ طویل عرصہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے، مگر کشمیر پر کبھی بھرپور انداز میں نہیں بولے۔ کراچی کے جلسہ میں البتہ انہوں نے کشمیریوں کی اچھی ترجمانی کی۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر غداری کے مقدمے کی کھل کر مذمت کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ فاروق حیدر ن لیگ کے وزیراعظم ہیں، مگر مریم نواز شریف کو ان کے ساتھ یک جہتی کی توفیق نہ ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن لیڈروں کا قرض ادا کیا۔ انہیں اپنی مذہبی آڈینس کا بھی بخوبی اندازہ تھا، اس لئے ابتدا ہی میں ربیع الاول کا مقدس مہینہ شروع ہونے کے حوالے سے بات کی اور درود شریف پڑھنے کی تلقین کی۔ میرے حساب سے دونوں جلسوں میں مولانا کی تقریروں کے سب سے زیادہ نمبر بنتے ہیں۔ اگرچہ پی ڈی ایم ٹکرائو کے جس سفر پر جا رہا ہے، اس میں مولانا بھی برابر کے شریک بلکہ مہمیز لگا رہے ہیں۔
امیر خان ہوتی کی تقریر خاصی مایوس کن بلکہ تکلیف دہ تھی۔ انہیں تقریر سے پہلے کچھ پریکٹس کر لینی چاہیے تھی۔ باہر کی دنیا میں باقاعدہ سپیچ کنسلٹنٹ ملتے ہیں جو بھرپور انداز میں تقریر کی تیاری کرا دیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے بلاول بھٹو پر اس حوالے سے خاصی محنت کی، کہا جاتا ہے کہ یہی کام مریم نواز شریف کی بولنے کی صلاحیت سنوارنے کے لئے کیا گیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ سننے والوں کو بور کرنے اور ان کی سمع خراشی سے بہتر ہے کہ پروفیشنل کوچنگ لیں اور پھر پوائنٹس لکھ کر جامع تقریر ہو۔ کراچی جلسے میں بلاول بھٹو کی تقریر سے پہلے پیپلزپارٹی سندھ کے مرحوم لیڈر راشد ربانی کو خراج عقیدت پیش کرنا اچھا لگا۔ سیاسی کارکنوں کو ایسی عزت ملنی چاہیے۔ یہ آئیڈیا سعید غنی کا تھا یا جس کسی نے اس کی منظوری دی، اسے پانچ نمبر ایکسٹرا ملنے چاہئیں۔ یہ وہ سٹائل ہے جو بی بی سے مخصوص رہا ہے۔ وہ اپنے کارکنوں سے رابطے میں رہتیں، ان کی ای میلز کے جواب دیتیں اور بعض مواقع پر انہیں بھرپور تکریم دے کر مان بڑھاتیں۔
سب سے قابل اعتراض اور مایوس کن تقریر محمود اچکزئی کی رہی۔ اس میں عجیب قسم کا قوم پرستانہ تعصب گھلا ہوا تھا۔ بار بار انہوں نے اس کا مظاہرہ کیا۔ اپنی تقریر میں پانچ سات مرتبہ پشتون، سندھی، بلوچ اور سرائیکی کا ذکر کیا، مگر ایک بار بھی پنجابیوں کا نام نہیں لیا، گویا پنجابی اس ملک کے باسی ہی نہیں۔ یہ بات بڑی عجیب لگی۔ ایک آدھ بار تو چلو انہوں نے پنجابی اشرافیہ کے خلاف بات کرتے ہوئے دوسری قومیتوں کا ذکر کیا، مگر تقریر میں کئی بارپاکستان کی بڑی قومیتوں کا ذکر کیا، مگر دانستہ پنجابی کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ حیرت ہوئی کہ سٹیج پر بیٹھے پنجابی لیڈروں میں سے کسی کو اس حوالے سے بعد میں ایک فقرہ کہنے کی بھی اخلاقی جرات نہ ہوئی، یہی کہہ دیتے کہ کئی کروڑ لوگ پنجابی بولنے والے ہیں، سب خوشحال یا اشرافیہ میں سے نہیں، ان میں سے کروڑوں خود استحصال کا شکار بنتے رہے ہیں، صرف زبان اور قومیت کی بنا پر ان کے خلاف نہ سوچا جائے? افسوس مریم نواز سمیت کسی لیڈر نے یہ بات نہ کی۔ ہمارے سرائیکی قوم پر ست دوست اس پر خوش ہیں کہ اچکزئی صاحب نے سندھی، بلوچ، پشتون قومیت کے ساتھ سرائیکی قومیت کو بھی تسلیم کیا۔ وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ ایسا انہوں نے خوشی سے نہیں کیا بلکہ اپنی طرف سے پنجابی قومیت کو چڑانے اور نیچا دکھانے کے لئے کیا۔ اچکزئی صاحب کی تقریر کسی قومی لیڈر کی نہیں بلکہ پونم جیسے اینٹی فیڈریشن اتحاد کے لیڈر کی تھی۔
اردو کو اچکزئی صاحب نے جس طرح بے توقیر کیا، وہ بھی ناقابل فہم تھا۔ اول تو کراچی کے جلسے میں یوں منہ بھر کر اردو کے خلاف بات کرنا ویسے ہی عجیب وغریب بات ہے۔ کراچی اردو بولنے والوں کا اکثریتی شہر ہے، کئی ملین لوگ بلکہ ایک کروڑ سے زائد ایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے۔ ٹھیک ہے اچکزئی صاحب کی اردو مادری زبان نہیں، مگر جس شہر میں وہ جلسہ کرنے آئے ہیں، وہاں کی اکثریتی آبادی کی یہ مادری زبان ہے۔ ان کا ہی کچھ لحاظ کر لیا ہوتا۔ آگے چل کر انہوں نے اردو کو صرف لینگو فرانکا قرار دیا۔ اردو لینگو فرانکا یاصرف رابطے کی زبان نہیں۔ اردو ہماری قومی زبان ہے۔ ، آئین پاکستان جس کی پاسداری کا اچکزئی صاحب درس دیتے نہیں تھکتے، اس کی رو سے یہ قومی زبان ہے بلکہ اب تک اسے دفتری زبان بھی ہوجانا چاہیے، آئین نے اس کے لئے جو مدت دی تھی، وہ ختم ہوچکی۔
اردو ہماری تہذیبی اور علمی زبان بھی ہے۔ اردو درحقیقت اس خطے کی مسلم تہذیب کی روح ہے۔ جتنا بڑا مذہبی، علمی کام اردو میں ہوا اور کس زبان میں ہے؟ دنیا کی بہترین تفاسیر میں سے سرفہرست تفاسیر اردو میں ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ میں عربی کے بعد سب سے وقیع کام اردو میں ہوا۔ اردو ادب میں ہونے والے کام کو بلا مبالغہ کسی بھی علاقائی زبان کی تخلیقات پر بھاری کہا جا سکتا ہے۔ سندھی ادب میں خاصا اچھا، قابل ذکر کام ہوا، مگر جس سطح کے اردو ناول اور افسانے لکھے گئے، وہ مثال ادھر بھی نہیں۔ میں علاقائی زبانوں کو اہمیت دینے کے حق میں ہوں۔ یہ کام مگر یہ اردو کی برائی کئے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ محمود اچکزئی صاحب کے مداحین برہم ہوں گے، مگر اس تقریر سے اچکزئی صاحب ایک متعصب، چھوٹے دل ودماغ کے مالک، تھڑدلے شخص لگے۔ وہ قومی لیڈر ہیں، ان سے زیادہ سنجیدہ اور معیاری گفتگو کی توقع کرنی چاہیے۔ مجموعی طور پر کراچی جلسہ اور اس سے منسلک واقعات نے تصادم کے امکانات بڑھا دئیے ہیں۔ اللہ خیر فرمائے، آمین۔