ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب سے پہلی ملاقات پچیس سال پہلے سردیوں کی ایک خنک دوپہر میں ہوئی۔ اردو ڈائجسٹ جوائن کئے مجھے کچھ دن ہوچکے تھے۔ ڈاکٹر اعجازقریشی ان دنوں پاکستان سے باہر کسی کاروباری دورے پر گئے تھے، ان کی جگہ انتظامی معاملات ان کے صاحبزادے طیب اعجاز قریشی کے ہاتھ میں تھے، طیب اعجاز نے الطاف حسن قریشی صاحب سے میرامختصر انٹرویو کرایا اور یوں بطور سب ایڈیٹر صحافتی سفر کا آغاز ہوگیا۔ آج کل یہی طیب اعجاز قریشی ہی اردو ڈائجسٹ کے تمام معاملات سنبھالے ہوئے ہیں، ان کی ہمت ہے کہ بزرگوں کی نشانی عمدگی سے چلا رہے ہیں، حالانکہ ان کے اپنے دوسرے کاروباری جھمیلے کم نہیں۔ خیر مجھے ملازمت کے پہلے ہی دن گارڈین، یوکے کا ایک پرچہ تھما دیا گیا، اس میں ترکی اور انڈیا کے حوالے سے دو سٹوریز شائع ہوئی تھیں۔ ان کا نہ صرف ترجمہ بلکہ تازہ ترین حالات کے مطابق اپ ڈیٹ بھی کرنا تھا۔ گارڈین کا صرف نام ہی سن رکھا تھا، پہلی بار اسے دیکھا اور اس کے رپورٹروں کی مخصوص انگریزی پڑھی، پھر میز پر پڑی انگریزی اردو لغت کی مدد سے ترجمہ کرنے میں جت گیا۔ ایک کے بعد دوسری اور پھر تیسری اسائنمنٹ ملتی گئی۔ مینجمنٹ غالبا نئے سب ایڈیٹر کی استعداد کو جانچنا چاہتی تھی۔ انہی اسائنمنٹس میں الجھا رہتا، کان کھجانے کی فرصت نہیں تھی۔
ایک دن ظہر کے وقت دروازے پر دستک ہوئی، تیز چمکتی ہوئی آنکھوں والے ایک بزرگ صورت شخص نے جھانکا اور نرمی سے بولے، ظہر کی جماعت تیار ہے، آ جائیے۔ میرے کمرے کے سامنے ہی اردو ڈائجسٹ کی اچھی خاصی بڑی لائبریری تھی، فرش پر دبیز قالین بچھے تھے۔ ظہر، عصر اور مغرب کی نماز وہیں پر باجماعت ادا کی جاتی۔ اس دن انہی بزرگ نے امامت کی۔ نماز کے بعد کسی ساتھی غالباًنائب مدیر محسن فارانی صاحب سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ فارانی صاحب نے حیرت سے مجھے دیکھا، اپنے مخصوص انداز میں کھنکتاقہقہہ لگایا، زور سے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور کہنے لگے، "لو آپ انہیں نہیں جانتے، یہ اردو ڈائجسٹ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ہیں۔ باہر گئے ہوئے تھے، رات ہی واپس آئے ہیں۔"میں نے سوچا، اچھا یہی ہیں ڈاکٹر اعجاز حسن، جن کا نام پرنٹ لائن پر صدر مجلس کے طور پر شائع ہوتا ہے۔ اگلے تین چار برس میں نے اردو ڈائجسٹ میں گزارے اور ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔
تین دن پہلے ڈاکٹرا عجاز حسن قریشی انتقال کر گئے۔ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو ڈاکٹر اعجازقریشی صاحب کا متبسم چہرہ سامنے آ رہا ہے۔ ان کی شخصیت طویل مضمون کی متقاضی ہے، کالم میں تو ہلکی سی جھلک ہی آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں تین چار چیزیں نمایاں تھیں۔ پاکستان، نظریہ پاکستان، استحکام پاکستان اور اردو سے محبت ان کی زندگی اور ذات کا حصہ تھی۔ انہوں نے علی گڑھ میں تعلیم کے دوران تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ پاکستان سے محبت ان کے رگ رگ میں رچی بسی تھی۔ انہیں کبھی مایوسی کی بات کرتے نہیں سنا۔ اللہ پر یقین کمال درجے کا تھا، کوئی نہ کوئی مثبت پہلو تلاش کر لیتے۔ بہت سے ایسے کام کر بھی دکھائے جو ابتدا میں ناممکن یا بہت مشکل نظر آ رہے تھے۔ اردو ڈائجسٹ نکالناکون ساآسان کام تھا؟ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کی قرآن خوانی کے موقعہ پر الطاف صاحب نے اعتراف کیا کہ اگر میرے بڑے بھائی نہ ہوتے تو اردو ڈائجسٹ کا یہ سفرآگے نہ بڑھ پاتا۔ کم لوگ جانتے ہیں ڈاکٹر اعجاز قریشی پاکستان سے آم، کینو اور سبزیاں برآمد(ایکسپورٹ) کرنے والے ابتدائی لوگوں میں تھے۔ ان کی قائم کردہ کمپنی روشن نے بہترین ایکسپورٹر کی ٹرافی کئی بار جیتی۔
ڈاکٹر صاحب کو ہماری اخلاقی اقدار کی بہت فکر تھی۔ ڈائجسٹ میں ان موضوعات پر خاص طور سے لکھا، لکھوایا جاتا۔ وہ ہمیشہ سوچتے کہ گھرکا، خاندان کا ادارہ بہت اہم ہے، اسے نہیں ٹوٹنا چاہیے۔ انہیں اندازہ تھا کہ گھر میں ماں کا کردار بنیادی ہے، اسے گلوریفائی کرنا چاہیے۔ اردو ڈائجسٹ نے دو جلدوں میں شاندار" عظیم مائیں " نمبر نکالا۔ ماں کے حوالے سے مضامین ہمیشہ شائع ہوتے رہتے۔ اردو ڈائجسٹ کئی عشروں سے اگست میں آزادی نمبر نکال رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے واقعات، ہجرت کی لہو رنگ داستانیں اورہماری قومی تاریخ میں کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں، ان سب پرتحریریں شامل ہوتیں۔
اردو ڈائجسٹ نے ستمبر کے مہینے میں جنگ ستمبر 1965کے حوالے سے بے شمار" دفاع نمبر" شائع کئے۔ ممکن ہے کچھ لوگ اسے پرو اسٹیبلشمنٹ رویہ قرار دیں۔ ایسے لوگوں کو بتاتا چلوں کہ آپریشن جبرالٹر کے حوالے سے سب سے اہم اور شائد پہلی تنقیدی تحریر بھی اردو ڈائجسٹ ہی نے شائع کی۔ یہ اردو ڈائجسٹ کا سلور جوبلی نمبر 1985))تھا، جس میں بریگیڈئر گلزار مرحوم کے صاحبزادے کی لکھی" کمانڈو عالمگیر کی کہانی " شائع کی گئی، اس میں بتایا گیا کہ کس بھونڈے اور ناقص انداز سے آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی کی گئی اور کس طرح صرف چند ہفتوں کی ناکافی تربیت کے بعد رضاکاروں کو مقبوضہ کشمیر بھیج دیا گیا۔ جنرل ضیا کا دور تھا، شور مچا ہوگا، مگر اردو ڈائجسٹ کی انتظامیہ کے خلوص اور حب الوطنی پرکون انگلی اٹھا سکتا تھا؟ برسوں بعد میں ڈاکٹر صاحب کو خیال آیا کہ استاد کا انسٹی ٹیوشن کمزو رپڑ رہا ہے، اس پر کام ہونا چاہیے۔ معروف مصنف اور ادیب قاضی ذوالفقار احمد(قذا عسکری) ڈائجسٹ میں لکھا کرتے تھے، وہ سکول ٹیچنگ سے وابستہ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان سے ایک طویل سلسلہ بعنوان "من کہ ایک مدرس ہوں "لکھوایا۔
اردو سے محبت ڈاکٹر اعجاز قریشی کی زندگی کا اہم جز تھا۔ اپنی تحریر یا گفتگو میں انگریزی الفاظ بالکل استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی سختی سے تاکید کرتے۔ چھوٹوں کو ڈانٹ دیتے جبکہ بڑے لوگوں کے سامنے بھی یہ اعتراض ضرور اٹھاتے۔ ڈاکٹر صاحب مولانا مودودی کے بڑے مداح تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر میں نے مولانا کو نہ پڑھا ہوتا تو پچاس کے عشرے میں جرمنی جا کر مغربی تہذیب سے مغلوب ہوجاتا۔ مولانا کو وہ اپنا استاد مانتے تھے، مگر ایک بار مولانا مودودی کو ٹوک دیا کہ مولانا آپ چیک پر انگریزی میں دستخط کیوں کرتے ہیں، اردو میں کر کے مثال قائم کریں۔ خود ڈاکٹر اعجاز قریشی نہ صرف ہمیشہ چیک پر اردو میں دستخط کرتے بلکہ ہمیں بھی ڈائجسٹ سے تنخواہ لیتے ہوئے وائوچر پر انگریزی میں دستخط کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کوئی ان سے فون نمبر پوچھتا تو ہمیشہ اردو میں جواب دیتے، ارد و ڈائجسٹ کا نمبر آج بھی مجھے یاد ہے، 7589957، ڈاکٹر صاحب اسے یوں بتاتے، " سات پانچ آٹھ نو نو پانچ سات۔" لوگوں کو اس کی عادت نہیں ہوتی، وہ چکرا جاتے۔ کوئی غریب انگریزی میں دہرانے کا کہتا تو جواب میں ڈاکٹر صاحب مسکراتے ہوئے نرم مگر کاٹ دار جملے میں انہیں یاد دلاتے کہ آپ پاکستانی ہیں، آپ کی قومی زبان اردو ہے، انگریزی نہیں اور اگر اردو میں ہندسے آپ کو سمجھ نہیں آ رہے تو یہ بڑی ندامت کی بات ہے۔ ایک بار پروفیسر غفور احمد نے اپنے کسی بچے یا بچی کا شادی کارڈ بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ انگریزی میں تھا۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی پہلے تو تاسف سے اپنے مخصوص انداز میں سر ہلاتے رہے۔ پھر برداشت نہ ہوااور پروفیسر صاحب کو فون کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ پھر تو انہوں نے یہ عادت بنالی تھی کہ جو دعوت نامہ انگریزی میں لکھا آتا، وہاں نہ جاتے بلکہ فون کر کے احتجاج کرتے۔
پندرہ سولہ برس پہلے جب ڈاکٹر صاحب ستتر اٹھتر برس کے تھے، انہیں خیال آیا کہ لائق مگر نادار بچوں کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔ یہ آئیڈیا کہاں سے آیا اور کس طرح مختلف مراحل سے گزر کر یہ کاروان علم فائونڈیشن میں تبدیل ہوا، یہ بھی ایک پوری کہانی ہے۔ کبھی بیان کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑھاپے کے باوجود مستحق اور قابل بچوں کے لئے کاروان علم فائونڈیشن کا ادارہ بنا ڈالا۔ بہت لوگوں نے ڈاکٹر اعجاز قریشی کو سمجھایا کہ اب آپ کے آرام کرنے کی عمر ہے، چھوڑیں اس نئے جھنجھٹ میں نہ پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب ہار ماننے والے نہیں تھے، جوانوں کی طرح اس میں جت گئے۔ ہمارے دوست خالد ارشاد صوفی جو میگزین جرنلزم کے آدمی تھے، اپنے ایک فیچر پر اے پی این ایس ایوارڈ بھی لیا، انہیں ڈاکٹر صاحب نے قائل کر کے صحافتی کیرئر تج دینے اور کاروان علم میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے پر آمادہ کر لیا۔ انگریزی محاورے کے مطابق باقی جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ اس ادارے نے ہزاروں طلبہ کی زندگی اس نے بدل کر رکھ دی۔ کئی کروڑ روپے سالانہ طلبہ میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ آخری برسوں میں ڈاکٹر صاحب بہت ضعیف ہوگئے، چلنے میں دقت ہوتی تھی، کبھی کبھار تقریبات میں اپنے صاحبزادے طیب اعجاز قریشی کے ساتھ نظر آتے۔ سلام کے لئے جاتے تو پہلے جیسی شفقت سے مخاطب کرتے، ان کی ہر بات، ہر نصیحت پاکستان، پاکستانیت کے گرد گھومتی۔ مختلف قومی ایشوز پر لکھنے کی ترغیب دیتے۔ ، ایک مشورہ جو مجھے ہمیشہ دیا، وہ وزن کم کرنا تھا۔ درجنوں تیر بہدف نسخے انہوں نے بتائے، ہم نے بڑی دل جمعی سے انہیں نوٹ کیا، شکرگزار ہوئے۔ خاکسار کی تصویر دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ عمل کتنا کر پایا؟ ڈاکٹر صاحب کی محبت میں کمی نہیں آئی، اگلی ملاقات میں کسی نئے قہوے، نہار منہ گرم پانی کے چار گلاس یا کسی اور نسخے کا تذکرہ کرتے۔ ان کی لغت میں مایوسی نام کا لفظ نہیں تھا۔
ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ایک بڑے آدمی تھے، ہر اعتبار سے بڑے انسان۔ ایسے مثبت، پرعزم، مخلص شخص کا جانا سماج کا بڑا نقصان ہے۔ افسوس کہ کم لوگ اس کا ادراک کر پائیں گے۔