مجھے کھیلوں سے بہت دلچسپی ہے۔ کرکٹ خاص طور سے دلچسپی کا مرکز ہے۔ کرکٹ پر کبھی کبھار لکھ لیتا ہوں، مگر اسے بہت تواتر سے مانیٹر کرتا ہوں۔ کرکٹ کے حوالے سے ہونے والے اہم میچز، دلچسپ واقعات، ڈویلپمنٹس، کسی غیر معمولی کھلاڑی کا منظرعام پر آنا وغیرہ۔ ٹینس سے بھی دلچسپی رہی ہے، پچھلے چند برسوں میں کم ہوگئی، مگر ایک زمانے میں یہ بہت تھی۔ جب تک پاکستانی ہاکی ٹیم میں دم خم تھا، تب ہاکی بھی بہت پسند تھی۔ باکسنگ بھی ایک زمانے میں اچھی لگتی تھی، خاص کر جب لڑکپن میں عظیم باکسر محمد علی کے میچز دیکھنے کو ملتے۔
ریسلنگ ہمیشہ سے سخت ناپسند رہی ہے، اس کی نورا کشتی ٹائپ مقابلے زہر لگتے ہیں۔ مجھے تو ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو ریسلنگ مقابلے مزے سے دیکھ لیتے ہیں۔ بیس بال کوشش کے باوجود کبھی سمجھ نہیں آئی، یہی معاملہ رگبی کے ساتھ ہے۔ گالف ٹی وی سکرین پر اتنا بور لگتا ہے کہ کبھی دیکھنے کی خواہش پیدا نہیں ہوئی، البتہ لش پش گالف گرائونڈ دیکھ کر وہاں جانے اور چہل قدمی کرنے کا جی چاہتا ہے۔ سنوکر بھی مجھے نہایت بور اوربیکار کھیل لگتا ہے۔ البتہ فٹ بال ایسا کھیل ہے جسے دیکھ کر ہی رگوں میں خون تیز دوڑنے لگے۔
فٹ بال میرے پسندیدہ کھیلوں میں سے ایک ہے۔ بچپن، لڑکپن میں گلی محلے کی سطح پر ہم فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ کے مشہور صادق عباس گورنمنٹ ہائی سکول کے ساتھ والے محلے میں ہمارا گھر تھا۔ سکول کے بڑے گرائونڈ سے ہم بچے خوب فائدہ اٹھاتے۔ خاص کر رمضان میں عصر سے افطار تک فٹ بال کھیلا کرتے۔ میرے بڑے بھائی تو شہر کے معروف کلب میں بطور مڈ فیلڈر کھیلا کرتے، بہنوئی بھی شہر کے نامور فٹ بالر تھے۔
میرے جیسے البتہ ہائی سکول کے گرائونڈ میں ننگے پائوں فٹ بال کھیل کر خوش ہوجاتے۔ اپنے اس محدود دائرے میں البتہ کئی لڑکوں کے پائوں، پنڈلیوں کوزخمی کیا۔ ہمارا ایک ہی اصول تھا کہ بندہ گزر جائے یا بال۔ فل بیک کھیلا کرتے اور کوئی تیز رفتار فارورڈ اپنی پھرتی اور چستی سے ڈاج دے کر نکل جانے کی گستاخی کرتا تو پھر اسے خاک ہی چاٹنا پڑتی۔ اسی طرح کسی ناہنجار کی یہ جرات نہیں تھی کہ وہ کراس پر ہیڈ مار سکے، اللہ کے فضل سے ہم اس کے کندھے پر اپنی" نازک "کہنی رکھ دیتے تو غریب سے سانس لینا دوبھر ہوجاتا۔
فٹ بال کے عالمی سطح پر ٹورنامنٹ بھی دیکھتے رہے ہیں۔ فٹ بال لیگز میچز کمال کے ہوتے ہیں، انگلش پریمیر لیگ، سپین کی لالیگا اور فرنچ، اٹالین لیگز کے میچز دلچسپ ہوتے ہیں۔ مجھے سب سے زیادہ مزا ہر چار برس کے بعد فٹ بال کے ورلڈ کپ میں آتا ہے۔ ورلڈ کپ کا اپنا ہی جادو اور خاص قسم کا بخار ہے۔ آج کل اسی فیور کا شکار ہوں۔ قطر میں ورلڈ کپ شروع ہوچکا ہے۔
اس بار قطر نے ہر ایک کو سرپرائز دیا ہے۔ یہ عرب ملک کئی اعتبار سے اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال قطر کے شاہی خاندان کا ویژن دیگر عرب حکمرانوں سے بہت بہتر اور آگے ہے۔ قطر واحد ملک ہے جس نے الجزیرہ جیسا عالمی معیار کا ایسا چینل قائم کیا، جسے مغربی دنیا میں بھی تسلیمکیا جاتا ہے۔ قطر نے بے پناہ جتن کے بعد فٹ بال ورلڈ کپ کے انعقاد کی بازی جیتی۔ اس کے لئے انہیں بہت کچھ کرنا پڑا۔ جدید ترین اسٹیڈیم، بے پناہ ترقی یافتہ دلکش انفراسٹرکچر، میچ کے دوران گرائونڈ کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کی ٹیکنالوجی وغیرہ۔
قطر پر مغربی حکومتوں اور وہاں کی طاقتور لابیوں کا شدید دبائو تھا کہ ملک میں شراب اور ایل جی بی ٹی وغیرہ کے حوالے سے لچکدار پالیسی اپنائی جائے، افتتاحی تقریب کے لئے بھی توقع تھی کہ خالص مغربی انداز کا ہلہ گلہ اور شورشرابا ہوگا۔ قطر نے مگر بہت ہی باوقار اور خوبصورت انداز میں قرآن پاک کی مسحور انگیز تلاوت سے افتتاح کیا۔ ایک معذور قاری جو وہاں کے معروف موٹیویشنل سپیکر ہیں، انہوں نے بڑی خوبصورت تلاوت کی اور مغربی دنیا کے ممتاز اداکار، صداکار مورگن فری مین کے ساتھ اپنے دلچسپ مکالمہ میں قرآن کی آیا ت کو خوبصورتی سے کوٹ کیا۔
مورگن فری مین میرے پسندیدہ اداکاروں کی فہرست میں شامل ہیں، اس کی آواز اور ادائیگی کمال کی ہے۔ خدا کی تلاش پر مورگن فری مین نے ایک ڈاکیومینٹری سیریز کے لئے کام کیا، جس میں وہ بہت سی جگہوں پر گیا، مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملا اور بہت سے مکالمے کئے۔ مورگن فری مین کی کاوشن کا نچوڑ تشکیک اور بے یقینی تھا۔ وہ مغرب کی ایتھیسٹ دنیا میں بہت مقبول ہے اور ایک لادین شخص سمجھا جاتا ہے۔ قطر کے سحرانگیز سٹیڈیم میں اس کے سوال پر قطری معذور قاری اور موٹیویشنل سپیکر نے بہت ہی خوبصورتی سے قرآن کی آیات سنائیں اور ان کا انگریزی ترجمہ بتایا۔ یوٹیوب پر اس کا دل کو چھو لینے والا کلپ دیکھا جا سکتا ہے۔
فٹ بال ورلڈ کپ دیکھنے کے لئے قطر ایک ملین سے زیادہ غیر ملکیوں کی آمد متوقع ہے۔ کسی مسلمان ملک میں پہلی بار یہ ٹورنامنٹ ہو رہا ہے۔ قطری حکومت نے انہیں اسلام کے بنیادی اصولوں سے متعارف کرانے کے لئے ٹھیک ٹھاک کوشش کی ہے۔ کئی ہزار داعی تیار کئے گئے ہیں جو مختلف جگہوں پر دلچسپی رکھنے والوں کو اسلام کا تعارف کرائیں گے۔ مختلف جگہوں پر قرآنی آیات کی دلکش خطاطی وغیرہ سجائی گئی، مساجد میں بہت ہی خوبصورت لحن سے آذان دینے والوں کا اہتمام کیا گیا۔ مقامی عرب ثقافت سے روشناس کرانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔ قطری حکومت نے کہا ہے کہ سٹیڈیم اور اس کے آس پاس شراب فروخت نہیں ہوگی۔ ہم جنس پرستوں یعنی LGBTکے جھنڈوں وغیرہ پر پابندی ہے۔ قطری حکومت کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ہم اٹھائیس انتیس دنوں کے فٹ بال ٹورنامنٹ کے لئے اپنے دین اور اقدار کو قربان نہیں کر سکتے۔ یہ نہایت قابل تحسین رویہ ہے۔
پاکستان میں ایک حلقہ ہمیشہ سے یہ تلقین کرتا ہے کہ اگر غیر ملکی سیاح بلانے ہیں تو شراب وشباب کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ دلیل کے لئے ترکی اور بعض دیگر مسلم ممالک کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ قطر نے اس کے برعکس ایک بہت ہی خوبصورت اور قابل تقلید روایت قائم کی ہے۔ بعض مغربی حلقے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کرتے رہے، مگر ان کی ایک نہیں سنی گئی۔ مزے کی بات ہے کہ مغرب سے زیادہ پاکستان کے لبرلز، ملحدین اور مذہب بیزار حلقوں کو تکلیف ہوئی ہے، وہ بری طرح چڑکر قطر کے خلاف پوسٹیں کر رہے ہیں۔ یہ رویہ ناقابل فہم ہے۔ ہر ملک کو حق ہے کہ وہ اپنی اقدار کا تحفظ کرے۔ بے حیائی، فحاشی اور مادر پدر آزادی کو بطور اقدار بعض مغربی ممالک اجازت دیتے ہیں تو اس کے برعکس رویہ بھی قبول کرنا چاہیے۔
خیر یہ تو چلتا رہے گا، کھیل کی طرف آئیں۔ فٹ بال کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوگیا۔ ورلڈ کپ میں بتیس ٹیمیں شامل ہیں، آٹھ پول بنائے گئے ہیں۔ ہر پول سے دو دو ٹیمیں آگے جائیں گی، یوں سولہ ٹیموں پر مشتمل ناک آئوٹ رائونڈ شروع ہوگا۔ یہ دوسرا رائونڈ جو ایک طرح سے پری کوارٹر فائنل ہے، یہ بہت دلچسپ اور مزے کا ہوتا ہے، جب کم وبیش ایک جیسی قوت رکھنے والی ٹیمیں آپ میں ٹکرائیں تو میچ دیکھنے کا لطف بڑھ جاتا ہے۔ اس کے بعد آٹھ ٹیمیں کوارٹر فائنل، پھر سیمی فائنل اورورلڈ کپ فائنل ہوگا۔
روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز نے اپنے بیس نومبر کے سنڈے میگزین کو فٹ بال سپیشل بنایا۔ ہم ورلڈ کپ کے حوالے سے مختلف خصوصی اشاعتیں دیتے رہیں گے۔ ہمارے میگزین کے سینئر صحافی اور سپورٹس ایڈیشن کے انچار ج عبدالستار ہاشمی کی تحقیق کے مطابق بیشتر مغربی فٹ بال ماہرین اور تجزیہ کار چار پانچ ٹیموں برازیل، ارجنٹائن، سپین، فرانس، پرتگال کو فیورٹ قرار دے رہی ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں دور حاضر کے دو عظیم فٹ بالر ارجنٹائن کے میسی اور پرتگال کے رونالڈو اپنے آخری میچز کھیلیں گے، عمر کے اعتبار سے اگلے ورلڈ کپ میں ان کی شمولیت تقریباً ناممکن ہے۔ دونوں اپنے ممالک کو ورلڈ چیمپین بنانے کے لئے پورا زور لگائیں گے۔ برازیل کی ٹیم بہت اچھی اور مضبوط ہے، ارجنٹائن بھی اس بار اچھے کمبی نیشن کے ساتھ آئی ہے۔
فرانس کے ساتھ سیٹ بیک یہ ہوا ہے کہ ورلڈ کپ سے پہلے اس کے پانچ بڑے کھلاڑی ان فٹ ہوگئے، جن میں کریم بینزیما جیسا سپرسٹار بھی شامل ہے۔ اس کے باوجود فرانس کی ٹیم کو مضبوط اور خطرناک کہا جا رہا ہے۔ سپین کی ٹیم بھی اچھی فارم میں ہے۔ پرتگال کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس بار جیسامضبوط سکواڈ ان کے پاس کبھی نہیں رہا۔ ویسے تو جرمنی بھی پچھلی بار آئوٹ ہونے کا بدلہ لینے کو تیار ہوگی۔ کئی دیگر ٹیمیں بھی اچھی اور تیاری کر کے آئی ہوں گی۔
ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی کرنا بھی اتنا مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ کوئی عام ٹیم شامل ہو ہی نہیں سکتی۔ اس بار ایک اپ سیٹ ورلڈ کپ سے پہلے ہوا جب اٹلی جیسی بہترین ٹیم کوالیفائی ہی نہیں کر پائی۔ ورلڈ کپ میں ہر بار کچھ اپ سیٹ ہوتے ہیں۔ ایک دلچسپ روایت یہ بھی چل رہی ہے کہ اکثر دفاعی چیمپین جلد آئوٹ ہوجاتا ہے، اس بار فرانس دفاعی چیمپین ہے، دیکھیں اس پر کیا گزرتی ہے؟