فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم اس بار عرب دنیا سے ابھری ہے۔ یہ پرجوش ردعمل شدید ہے اور ا س نے ایک خاص سطح پر فرانس کی تجارتی دنیا کو متاثر بھی کیا ہے، فرانس کی حکومت اس پر اپنا آفیشل ردعمل دینے پر مجبور ہوئی، ان کی وزارت خارجہ نے مسلم اور عرب دنیا سے اپیل کی ہے کہ بائیکاٹ کی مہم میں شامل نہ ہویا جائے۔ ہمارے ہاں بھی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر مباحث میں مختلف سوالات پیدا ہورہے ہیں۔ ان پر بات ہونی چاہیے۔ کوئی بھی مہم ہو، وہ تب کامیاب ہوسکتی ہے جب لوگ قائل ہونے کے بعد یکسوئی سے اس میں شامل ہوں۔
تین چار اعتراضات کئے جارہے ہیں:" ہمارے بائیکاٹ کرنے سے فرانس پر کیا فرق پڑے گا؟ فرانس کی ایکسپورٹ کا اتنا بڑا، غیر معمولی حجم ہے، تمام مسلمان ممالک بائیکاٹ کریں تب بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، پھرایسی ناکام کوشش کیوں کی جائے؟ بائیکاٹ وغیرہ کی مہم کچھ عرصے بعدازخود دم توڑ جاتی ہے، اس لئے ایسا کرنے کے بجائے مکالمہ کی راہ اپنانی چاہیے، سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ جاری کرنے سے مسلم دنیا کو کیا حاصل ہوا، اس کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے، کمزوری کا احساس ہی پیدا ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ترکی جو زیادہ اعتراض کر رہا ہے، اس کی ائیر لائن میں زیادہ تر جہاز فرانسیسی ہیں، وہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ پاکستان میں بھی فرانسیسی آبدوز، جنگی جہاز وغیرہ ہیں، ان کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟"
اعتراضات پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ فرانس میں بار بار یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں؟ آپ سب کو یاد ہوگا کہ چند سال پہلے ڈنمار ک کے ایک اخبار نے نبی مہربانﷺ کے حوالے سے قابل اعتراض سکیچ یا خاکے شائع کئے تھے۔ اس پر دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ وہ ایشو کسی نہ کسی حد تک اب بھی چل رہا ہے۔ دراصل یورپ میں ایک لابی نے اسے انا اور اپنی دانست میں سیکولرازم کی بقا کا مسئلہ بنایا ہے۔ وہ اسے آزادی اظہار سمجھتے ہیں۔ اس کے جواب میں مسلمان سکالروں نے بڑی تفصیل سے اپنا بیانیہ پیش کیا ہے۔ بہت کچھ لکھا گیا، ویڈیو کلپس بھی بنائے گئے۔ مغرب میں ایک بڑی لابی مسلمانوں کے تحفظات کا احساس کرتی ہے اورقابل اعتراض مواد شائع کرنے کے خلاف ہے، تاہم ایک خاص لابی ایسی ہے جو اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ فرانس میں بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہاں کے ایک میگزین چارلی ہیبڈو نے چند سال پہلے وہ توہین آمیز سکیچ چھاپے، اس پر احتجاج ہوتا رہا، مگر میگزین نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا، پھرکچھ مسلح افراد نے میگزین کے دفتر پر حملہ کر کے وہاں چار کارٹونسٹوں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ آگ بھڑک رہی ہے، پچھلے سالوں میں مزید کئی واقعات ہوچکے ہیں۔ چارلی ہیبڈو نے جوابی طور پر کئی بار وہ سکیچ شائع کئے۔ بدقسمتی سے فرانسیسی قوانین ان پر قدغن نہیں لگا سکتے۔ وہاں کی مختلف حکومتیں ایک طرح سے انہیں سپورٹ ہی کرتی آئی ہیں۔ اس کا خاص پس منظر بھی ہے۔ فرانس میں آرٹ اور لٹریچر کی تحریکیں پرانی ہیں، صدیوں سے مسیحی چرچ کے فرانسیسی لکھاریوں، مصوروں، فنکاروں اور دانشوروں سے شدید اختلافات اور تنازعات رہے۔ بہت سے نامور لوگوں کو چرچ کے دبائو پر جلاوطن کیا گیا، انہوں نے جیلیں کاٹیں۔ اسی لئے فرانس کے یہ حلقے مذہبی تنظیموں اور اہل مذہب کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ ماضی میں مسیحی چرچ کی جانب سے سنسر بھگتنے کی وجہ سے یہ لوگ آزادی رائے کے حوالے سے غیر معمولی حساس ہیں کہ ہم جو مرضی لکھیں، شائع کریں، گاتے رہیں، پینٹ کریں، مجسمے بنائیں، ہمیں روکنے کا حق کسی کے پاس نہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ میسحی چرچ اور مذہبی حلقے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ وہاں پر سیدنا مسیح علیہ السلام کے حوالے سے جو کچھ لکھا جائے، متنازع فلم بنے، خاکے بنائے جائیں، کسی نے احتجاجی تحریک نہیں چلانی۔ پوپ اور چرچ کے لوگ ایک رسمی بیان دے کر نچنت ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ جب مسلمان احتجاج کریں تو جواباً یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عیسائی ہونے کے باوجود مغربی حکومتیں حضرت عیسیٰ کے خلاف مواد بھی شائع کرنے کی اجازت دے دیتی ہیں۔
ایک اور پہلو فرانس میں تیزی سے زور پکڑتی انتہائی دائیں بازو کی سیاست ہے۔ وہاں صدر ٹرمپ اور ان کے سفید نسل پرست حامیوں سے ملتے جلتے خیالات رکھنے والی الٹرا رائٹسٹ پارٹی خاصی طاقت پکڑ چکی ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے لئے واضح ناپسندیدگی اور بیزاری رکھتے ہیں، تارکین وطن کے لئے ان کا ایجنڈا سخت ہے اور وہ فرانسیسی الٹرا لبرل، الٹراسیکولر اقدار کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ ان کی لیڈر ایک خاتون میرین لی پین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مستقبل کی فرانسیسی صدر بھی بن سکتی ہیں۔ اٹھارہ ماہ بعد فرانس میں انتخابات ہونے ہیں اور اصل مقابلہ موجودہ صدرمیکخواں یا میکرون اور لی پین کے مابین ہوگا۔
تارکین وطن کے حوالے سے فرانسیسی معاشرے میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ مقامی آبادی میں منفی جذبات موجود ہیں۔ تارکین وطن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ زیادہ تر الجزائر، مراکش، تیونس وغیرہ سے آئے ہیں۔ مسلمان اور زیادہ تر سیاہ فام جبکہ ان کا تعلیمی، تہذیبی پس منظر بھی زیادہ روشن نہیں۔ یہ ذہن میں رہے کہ ان ممالک میں سے اکثر فرانسیسی کالونی رہے ہیں۔ جیسے برطانیہ نے ہندوستان پر حکومت کی، اسی طرح فرانس نے الجزائر وغیرہ پر حکومت کی۔ الجزائر تو ابھی ساٹھ کے عشرے میں خاصی طویل جنگ آزادی لڑنے کے بعد آزاد ہوا۔ فرانسیسی مقبوضہ علاقے ہونے کی وجہ سے وہاں فرانسیسی بولنے والا خاصا بڑا طبقہ موجود ہے۔ اسی لئے یہ یورپ میں زیادہ تر فرانس کا رخ کرتے ہیں۔ یوں فرانس میں تارکین وطن کے خلاف جذبات کی ایک شکل اسلام دشمنی میں ڈھل جاتی ہے۔
فرانس میں سیاسی مباحث کا ایک حصہ مذہب کے گرد گھومتا رہا ہے۔ وہاں مسلمانوں کی ٹھیٹھ مذہبی اقدار کے حوالے سے ایک حلقہ سخت اور بے لچک رائے رکھتا ہے۔ یہ وہی دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کے ووٹر ہیں۔ فرانس میں سکارف لینے کے خلاف قانون بن چکا ہے۔ سکولوں میں بچوں کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کہ مسلمان بچوں کو حلال فوڈ دی جائے یا نہیں؟ اسی طرح فرانس کے ساحلوں پر برکینی پہننے پر پابندی ہے۔ یہ جسم ڈھانپنے والا پیراکی کا لباس ہے جو نیم عریاں بکنی کے برعکس ہے اور برقعہ کی مناسبت سے برکینی کہلاتا ہے۔
فرانس کے موجودہ صدر ایمانئیول میکخواں یا میکروں ماضی میں برکینی، حجاب اور حلال فوڈ وغیرہ جیسے مباحث سے فاصلے پر رہے، مگر سیاسی موقعہ پرستی کے پیش نظر اب وہ اس طرف چلے گئے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی صدر انتہائی دائیں بازو کے ووٹرکو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔
چند دن پہلے ایک فرانسیسی ٹیچر جو اپنی کلاس میں آزادی اظہار کے نام پر یہ سکیچ باقاعدہ پروجیکٹر پردکھایا کرتا تھا، وہ اپنے مسلمان طلبہ سے کہتا کہ تم نہیں دیکھنا چاہتے تو آنکھیں بند کر لو، میں تو یہ ضرور دکھائوں گا۔ اس کے جاہلانہ رویے پر مشتعل ہو کر ایک چیچن مسلمان طالب علم نے چاقو سے اسے قتل کر کے سر تن سے جدا کر دیا۔ فرانس کے سیکولر حلقے اس پر شدید ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلامو فوبیا کی مہم شروع کر رکھی ہے، مسلمان اداروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، ایک مسجد بند کر دی گئی، مسلمان نوجوانوں پر حملے بھی ہوئے ہیں۔ فرانسیسی صدر میکخواں نے آگ کو بجھانے کے بجائے تند وتیز بیانات سے اسے بھڑکایا ہے۔ سب سے شرمناک حرکت یہ ہوئی کہ بعض سرکاری عمارات پر(لائٹنگ وغیرہ کے ذریعے) وہ توہین آمیز سکیچ دکھائے گئے۔ ایسے واقعات کی پہلی بار حکومتی سطح پر سرپرستی ہوئی۔
اسی وجہ سے مسلم دنیا میں ردعمل بھی شدید ہوا ہے۔ کئی عرب ممالک میں فرانس سے براہ راست درآمد شدہ پراڈکٹ فروخت ہوتی ہیں۔ فرانسیسی پنیر، دودھ، پانی، کئی طرح کی سوئٹس وغیرہ، خاص کر فرانسیسی کاسمٹیکس، کٹلری وغیرہ۔ بعض بڑے شاپنگ مال بھی فرانسیسی کمپنی کے ہیں۔ ان کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔ قطر، کویت، امارات، سعودی عرب وغیرہ میں عوامی سطح پر مختلف گروپ ان اشیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، خود عرب امپورٹر اپنے آرڈرز منسوخ کر کے دیگر آپشنز پر جا رہے ہیں۔ فرانس کی ایکسپورٹ کئی سو ارب یورو ہے، عرب دنیا کایہ بائیکاٹ چند ارب یوروکا نقصان پہنچائے گا، مگر بہرحال ایک دھچکا اس نے پہنچایا ضرور ہے۔ فرانسیسی تاجر پریشان ہوئے اور ان کے دبائو پر حکومت کو بھی بیان جاری کرنا پڑا۔ مسلمان سربراہوں میں سے ترک صدر اردوان کے بعد پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے کھل کر پرزور انداز میں فرانس میں ہونے والے توہین رسالت کے واقعات کی مذمت کی۔ طیب اردوان نے تو فرانسیسی صدر کو دماغی معائنہ کرانے کا مشورہ بھی دیا ہے، جس سے دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
سوالات وہی ہیں کہ کیا بائیکاٹ کرنا درست حکمت عملی ہے اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کیا آپشنز ہوسکتی ہیں؟ چند ایک مزید سوالات بھی اسی ایشو سے منسلک ہیں کہ ایسے ناپسندیدہ واقعات رکوانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے؟ اس پر ان شااللہ بات کریں گے۔ اس حوالے سے جو قارئین اپنی رائے دینا چاہیں، وہ مجھے ای میل، واٹس ایپ میسج یا فیس بک پر کمنٹس کے ذریعے فیڈ بیک دے سکتے ہیں۔