سینئر صحافی، کالم نگار، اینکر محترم سجاد میر کے ساتھ ایک ٹی وی نشست میں شریک تھا۔ میر صاحب بہت محترم، سینئر لکھاری ہیں، ہمارے اساتذہ میں سے، ٹی وی کے بھی اولین زمانے کے اینکر ہیں، پی ٹی وی کے دنوں والے۔ سلیم احمد جیسے لیجنڈ کے شاگرد رشید رہے، یوں ان کا عسکری صاحب سے بھی فکری سلسلہ بنتا ہے، آبائی شہر ساہی وال ہے تو مجید امجد سے عبقری کی آنکھیں بھی دیکھ رکھی ہیں۔ ان کی فکری تربیت ایسی ہوئی کہ چیزوں کو گہرائی میں جا کر دیکھتے اور سوچتے ہیں، اٹھائے سوال بھی سطحی یا روٹین کے بحثوں والے نہیں بلکہ بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
اس نشست میں سجاد میر صاحب بار بار یہ سوال اٹھاتے رہے کہ موجودہ بحران کا حل کیا ہے؟ ان کی کوشش تھی کہ کرنٹ افیئرز شو کی روایتی بحثوں میں الجھے بغیراساسی ایشو پر رہا جائے۔ حل تلاش کرنے کی کھوج کی جائے اور یہ کہ بحران کیسے ختم ہوسکتا ہے؟ ہوتا مگر وہی کہ بعض الجھنوں یا مسائل کا حل اتنی آسانی سے نکل نہیں سکتا، اس لئے بھی کہ ہر کوئی اپنے زاویے سے دیکھ رہاہوتا۔ مختصر نشست میں بات تفصیل سے بھی نہیں ہوسکتی۔ کالم اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اپنے مقدمہ کو کسی حد تک پیش کیا جا سکتا ہے۔
حل سوچنے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس وقت ہمارے پاس آپشنز زیادہ نہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وِن وِن(Win Win)ڈیل پیش کی جا سکے، یعنی جس میں دونوں فریقوں کے لئے جیت کا ساماں ہو۔ حل جو بھی نکلے گا، وہ کسی ایک فریق کو پسند نہیں آئے گا یاممکن ہے اسے سوٹ (Suit)نہ کرتا ہو۔
دوسرا یہ کہ جو موجودہ بحران یاگمبھیر سیاسی صورتحال ہے، یہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے خود دانستہ، اپنی رضامندی اور خوشی سے قبول کی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت زیادہ اچھا پرفارم نہیں کر پائی تھی، خاص کر پنجاب کی تاریخ کے نالائق ترین وزیراعلیٰ بزدار کی وجہ سے تحریک انصاف کو پنجاب میں بہت نقصان پہنچا تھا۔
اگر تحریک انصاف کی حکومت عدم اعتماد سے ختم کرنے کے بجائے اسے چلنے دیا جاتا تو اب نقشہ بالکل مختلف ہوتا۔ یہ سب مہنگائی اور مشکل فیصلے جو پی ڈی ایم نے پچھلے چند ماہ میں کئے ہیں، یہ عمران خان حکومت کو کرنے پڑتے۔ ان کی عدم مقبولیت خوفناک حد تک بڑھ جاتی اور اگر اب تحریک عدم اعتماد لائی جاتی تو شائد کسی ایک شخص کو بھی شکوہ نہ ہوتا۔ اگر عمران خان حکومت اپنے پانچ سال مکمل کر کے الیکشن کراتی تو پنجاب میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہار کا ضامن بن جانا تھا۔
پی ڈی ایم کو یہ سب باتیں معلوم تھیں۔ انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ یوکرائن روس جنگ شروع ہوچکی ہے اور حالات خراب ہوجائیں گے، پٹرول اور دیگر قیمتیں بڑھانا پڑیں گی۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر قبل از وقت حکومت ختم ہوئی تو مظلومیت کا عنصر اس کے حق میں جائے گا۔ اس سب کے باوجود پی ڈی ایم اور خاص کر زرداری شہباز شریف گٹھ جوڑ نے عمران خان حکومت گرانے کا فیصلہ کیا اوراپنے جوڑ توڑ، لوٹاکریسی وغیرہ سے ایسا کردکھایا۔ زرداری صاحب کو بھی نیب قوانین بدلنے سے فائدہ ہوا، مگر شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے کے خلاف مضبوط نیب کیسز سرے سے ختم ہوگئے، الیکشن قوانین بھی انہوں نے بدل ڈالے۔ اقتدار کے مزے تو لوٹ ہی رہے ہیں۔
اس کی اگر پی ڈی ایم کو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، عوام میں عدم مقبول ہوگئے، ووٹر اس طرف نہیں راغب نہیں ہو رہا۔ تحریک انصاف پنجاب اور کے پی میں چھائی ہوئی ہے جبکہ ابھی وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف کو منانے کے لئے مزید ٹیکس وغیرہ لگانے پڑیں گے۔ تو اس سب کی ذمہ داری ان کے اپنے اوپر ہی عائد ہوتی ہے۔ کسی نے انہیں ایسا کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا تھا۔ ان کی اپنی وجوہات، اپنے مسائل اور خوف تھے، جس وجہ سے انہوں نے ہارس ٹریڈنگ کو بھی بطور ہتھیار استعمال کیا اور عمران حکومت گراد ی۔
اس لئے ہم موجودہ بحران کا جو بھی حل تلاش کریں، اس میں اگر حکمران اتحاد خسارے میں نظر آئے تو ان سے بے شک ہمدردی کر لیں، مگریہ سمجھ لیں کہ یہ کانٹوں کا ہار انہوں نے خود اپنی گردن میں ڈالا ہے۔
دوسری طرف عمران خان کوئی مثالی سیاست دان نہیں۔ وہ2013سے تھوڑا پہلے اور کچھ بعد تک والے آئیڈیلسٹ بھی نہیں رہے۔ عمران خان اب ایک پریکٹیکل سیاستدان ہے، عملیت پسند، معروضی زمینی حقائق کو جان کر ان کے مطابق اپنی پالیسی بنانے والا، اس میں کسی حد تک روایتی سیاستدانوں والی بے نیازی، تھوڑی بے حسی بھی شامل ہوچکی ہے۔ اپنی غلطیوں سے اس نے کچھ زیادہ نہیں سیکھا کہ حالات نے اس کی غلطیوں کو ڈھانپ لیا، ان کی تباہ کاری کا اسے نشانہ نہیں بننے دیا۔
عمران خان اپنی حکومت گرنے کے بعد جس جارحانہ انداز میں پلٹ کر حملہ آور ہوا، اس نے وفاقی حکومت کو چین کا سانس نہیں لینے دیا، مسلسل دبائو میں رکھا ہے، وہ نئے الیکشن کے لئے کچھ زیادہ ہی اتاولا اور بے تاب نظر آتا ہے۔ صوبائی اسمبلیاں توڑنے میں بھی اس نے عجلت کی۔ شائد اس لئے کہ الیکشن جتنا جلد ہوں گے، اس کے جیتنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ فوری الیکشن عمران خان کے حق میں اور پی ڈی ایم کے خلاف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بہرحال ماننا پڑے گا کہ عمران خان کا موقف زیادہ جمہوری ہے۔
عمران خان عوام کی رائے جاننے اور اسے ماننے کا کہہ رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتیں اپنے بحرانوں کا حل نئے الیکشن کرا کر نکالتی ہیں۔ جہاں کہیں اکثریت بہت کم ہو، حکومت کمزور رہ جائے، عوامی سپورٹ حاصل نہ ہو تو مہذب جمہوری ممالک اس کا حل نئے الیکشن میں نکالتے ہیں۔ جاپان جیسے ملک میں اکثریت نہ ہو تو مسلسل کئی بار دو ڈھائی سال بعد عام انتخابات کرا دئیے جاتے ہیں۔ بہت سے ممالک یہی کرتے ہیں۔
کرکٹ کے ماہرین کہا کرتے ہیں کہ کرکٹ میں چھپنے کی کوئی جگہ نہیں۔ کپتان کو ہمیشہ جرات سے سامنے آ کر، آگے بڑھ کر لیڈ کرنا پڑتا ہے۔ وہ جتنا چھپے گا، اتنا ہی ایکسپوز ہوگا۔ سیاست کابھی یہی معاملہ ہے۔ عوام کی حیثیت سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے آکسیجن جیسی ہے۔ ان کی بنیاد ہی عوامی مینڈیٹ اور عوام کی دی گئی سیاسی قوت پر ہے۔ سیاستدان کس طرح الیکشن یا اپنے ووٹروں سے بھاگ یا چھپ سکتا ہے؟ یہ سادہ نکتہ پی ڈی ایم کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
پی ڈی ایم اور خاص کر ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو چاہیے کہ وہ جرات کر کے عوام میں آئیں، میاں صاحب کو وطن واپس آنا چاہیے، وہ لوگوں میں جائیں، انہیں اپنے مسائل بتائیں، انہیں اعتماد میں لیں، انہیں قائل کریں، ایک حقیقت پسند جوابی بیانیہ بنائیں۔ پی ڈی ایم کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو مقدمات کے ذریعے ختم کرنے کے بجائے سیاسی شکست دینے کی پلاننگ کرے، فیئر الیکشن میں شکست کا سوچے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے الیکشن سے بھاگنا سیاست نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے سے عوام میں پزیرائی ملے گی۔ بھگوڑے سیاستدانوں کو عوام بے رحمی سے مسترد کر دیتے ہیں۔
ہمارے خیال میں حل صاف اور واضح ہے۔ تین نکاتی حل۔ سب سے پہلے تو پنجاب اور کے پی اسمبلیوں میں فری اینڈ فیئر الیکشن ہونا چاہیے۔ آئین میں دی گئی مدت کے اندر یعنی زیادہ سے زیادہ اپریل کے وسط تک۔ یہ الیکشن مرحلہ وار نہیں بلکہ ایک ہی دن کرانا چاہیے، جیسا کہ ہماری سیاسی روایت بن چکا ہے۔ نگران حکومت کا واحد مینڈیٹ الیکشن کرانا ہی ہوتا ہے۔ صوبے میں اصلاحات لانا، چیزیں ٹھیک کرنا ان کی آئینی ذمہ داری نہیں۔ وہ ڈھائی تین ماہ میں الیکشن کرانے میں الیکشن کمیشن کی انتظامی معاونت کرائیں اور چلتے بنیں۔
قومی اسمبلی اور دیگر دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بے شک ابھی نہ ہوں، اگست میں ان کی مدت ختم ہوجائے گی، تب ساٹھ دنوں میں الیکشن کرانا آئینی پابندی ہے، اکتوبر میں جنرل الیکشن ہوجائے، فری اینڈ فیئر۔
پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ اور کابینہ متنازع طریقے سے بنائی گئی۔ قومی اسمبلی میں ایسا نہ کیا جائے ورنہ پورا انتخابی عمل مشکوک ہوجائے گا۔ راجہ ریاض ایک فیک اپوزیشن لیڈر ہیں، وہ درحقیقت ن لیگ کے ساتھی ہیں۔ ان کی جگہ قومی اسمبلی میں موجود واحد جینوئن اپوزیشن جماعت جی ڈے اے کو دینی چاہیے، اس کے لیڈر غوث بخش مہر نے راجہ ریاض کی جگہ اپوزیشن لیڈر بننے کی کوشش کی تھی۔ ایک جینوئن اپوزیشن لیڈر بنا کر غیر جانبدار نگران وزیراعظم بنایا جائے جو مقررہ مدت میں شفاف انتخابات کر ا کر سرخرو ہوجائے۔
مردم شماری کرانے کا کام اگلی حکومت پر چھوڑ دیں۔ اس کے پاس اس کام کے لئے بہت وقت ہوگا۔ مردم شماری کی آڑ میں آئین شکنی کرنا اور اسمبلیوں کی مدت کئی ماہ آگے لے جاناشدید غیر جمہوری، غیر سیاسی کام ہوگا۔ سیاسی جبر استبداد کا ایک خوفناک نمونہ۔
اس پورے بحران کا حل تو یہی ہے، البتہ یہ ایک حلقے کو ناپسند ضرور ہوگا کیونکہ اس بار وِن وِن ڈیل ممکن نہیں۔ علاج بس یہی کہ آئین کے ساتھ کھڑے ہوں اور عوام کی رائے جانیں، اسے مانیں۔ فیصلہ اسی طرح ہوسکتا ہے۔ جمہوری، سیاسی معاشرے ایسے ہی فیصلے کرتے ہیں۔