چھوٹی چھوٹی کئی باتیں ایسی سامنے آ جاتی ہیں جن پر تبصرہ کرنا ضروری لگتا ہے، ایسے میں جن موضوع پر لکھنے کا سوچا تھا، اسے ایک دو دنوں کے لئے موخر کرنا پڑتا ہے۔ آج کا کالم کسی خاص موضوع پر نہیں، دو مختلف تبصرے ہیں، ان کا تعلق البتہ وبا کے موسم سے ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ روز ایک بار پھر قوم سے خطاب فرمایا۔ دس دنوں میں جناب وزیراعظم کا یہ تیسرا خطاب تھا۔ تقریر کے چند منٹوں کے بعد ہی ایک دوست نے واٹس ایپ میسج کیا جس میں پنجاب کی مشہور بذلہ سنج میراثی کمیونٹی کا لطیفہ بھیجا، وہی میراثی جسے ایک ڈاکٹر نے کولہے میں تین ٹیکے لگا دئیے، چوتھا ٹیکہ کسی اور مریض کے لئے سرنج میں بھرنے لگا تو میراثی خوفزدہ ہوگیا کہ شائد یہ بھی مجھے ہی لگے گا، اس نے پنجابی سلینگ میں ایک شگفتہ جملہ کہاجو افسوس کہ قابل اشاعت نہیں، نجی محفلوں میں البتہ سنایا جا سکتا ہے۔ لطیفہ بھیجنے والے نے وزیراعظم کی تواتر سے آنے والی تقریروں پر کٹیلا طنز کیا، جو برمحل لگ رہا تھا۔
خان صاحب کے پرانے ہمدردوں میں بدقسمتی سے ہمارا بھی شمار ہوتا ہے، اب فاصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کیا کریں یہ کام بھی آسان نہیں۔ ہماری سیاست میں ایسی شدید قسم کی تقسیم در آئی ہے کہ جب تک سیاسی مخالف پر ننگا قسم کا تبریٰ نہ کیا جائے، رکیک حملے نہ ہوں، اسے تنقید مانا ہی نہیں جاتا۔ ہمارے برادر کلاں خیر سے عظیم الشان قسم کے مسلم لیگی ہیں او رخود کو ازراہ تفنن انجمن پٹواریاں کا تاحیات رکن قرار دیتے ہیں۔ خاکسار کی فرماں داری سے انہیں کوئی شکوہ نہیں، صرف خان صاحب کی حمایت کی تہمت وہ گاہے چسپاں کردیتے ہیں، جبکہ وضاحت کی ہر کوشش بے رحمی سے ناکام بنا دیتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا شمار عمران خان نے روایتی مخالفین میں نہیں ہوتا، بلکہ گھر کے آدھے لوگ حامی گردانتے ہیں۔ اس لئے ہماری معروضات کو میڈیا کی روایتی تنقید نہ سمجھا جائے۔
ہم نے وزیراعظم کی تقریر کو بڑے انہماک سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ اخبارنویسوں کی عادت ہوتی ہے کہ ہر خبر میں پہلے سرخی تلاش کرتے ہیں۔ وزیراعظم کا قوم سے خطاب ہمیشہ اخبار کے اگلے دن کی لیڈ ہوتی ہے۔ میں سوچتا رہا کہ نیوز روم والے اس تقریر سے کیا شہ سرخی بنائیں گے؟ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ بعد میں ایک دو نیوز روم کے سینئر ساتھیوں سے بات ہوئی تو وہ چکرائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس کا اعلان کیا ہے، مگر یہ اعلان اخبار دو دن پہلے چھاپ چکے ہیں، اسی طرح ویلفیئر فنڈ کا کہا تو یہ خبر بھی پہلے شائع ہوچکی ہے۔ ان بے چاروں کوتقریر کا ایک ایک لفظ بار بار سننا پڑ رہا تھا کہ کہیں سے کچھ نیا مل جائے جسے نمایاں کر سکیں۔ ستم ظریفی ہے کہ لاک ڈائون ہوئے آٹھ دن ہوگئے، ملک بھر میں یہ بحثیں چل رہی ہیں کہ لاک ڈائون کے کیا کیا نقصانات ہو رہے ہیں، جبکہ خان صاحب نے آ کراعلان کیا کہ میں لاک ڈائون نہیں کروں گا۔ جہاں پناہ! اس وقت جو ملک میں صورتحال ہے، اسے پھر کیا کہیں گے؟ یہ عمران خان کے عجز کلام کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔ وہ قوم سے خطاب کرنے آئے اور کہنے کو کچھ بھی نیا نہیں۔ وہ تمام اعلانات دہرا دئیے جو مختلف حوالوں سے میڈیا میں پہلے ہی آ چکے تھے۔
وزیراعظم کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آ رہی کہ وہ اردو کے اچھے مقرر نہیں ہیں۔ زبان میں روانی نہیں، بار بار وہ اٹکتے اور کئی مرتبہ لفظ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ یہ مقرر کی بدترین خامی سمجھی جاتی ہے۔ سیاسی جلسوں کا ماحول مختلف ہوتا ہے، وہاں مداحین ہی آتے ہیں، ڈی جے کا میوزک بھی ماحول گرماتا ہے، ایسے میں تقریر گزارا کر جاتی ہے۔ جب قوم سے خطاب ہو، چند منٹ میں ٹو دی پوائنٹ بات کرنا ہو، تب خان صاحب کو ٹی وی سکرین پر گپ شپ کرنے کے بجائے لکھی ہوئی تقریر کرنی چاہیے۔ سرکار کے پاس ہر کام کے لئے لوگ موجود ہوتے ہیں، کسی موزوں سپیچ رائٹر کولے لیں، اپنے سوشل میڈیا سیل سے کسی "کاریگر" کو منگوا لیں، مگر خود زحمت کرنے کے بجائے پروفیشنل لکھاری کو ترجیح دیں۔ لکھی تقریر میں اپنی پسند کے نکات شامل کرائیں، مصنوعی پرتکلف زبان نہ ہو، سادہ انداز میں پراثر جملے ہوں، انہیں پرامپٹر کے ذریعے پڑھ دیا جائے۔ اس میں کیا حرج ہے؟ دنیا بھر میں یہی چلن ہے۔ عمران خان ہربار عوام کے علم میں اضافہ کی بھاری ذمہ داری بھی اٹھالیتے ہیں۔ کبھی کئی کئی منٹ یہ اطلاع فراہم کرنے میں صرف کر دیتے ہیں کہ اٹلی میں کیا ہوا، امریکہ نے کیا کیا، چین کی کیا حکمت عملی تھی وغیرہ وغیرہ، اس بار مودی کا تجزیہ فرمایا۔ کوئی پلیز وزیراعظم کو بتائے کہ ٹی وی چینل سارا دن یہی معلومات لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ اب تو کسی دور افتادہ قصبے میں بیٹھا ہوا کوئی حجام بھی وزیراعظم سے زیادہ نہیں تو اتنی معلومات رکھتا ہی ہے۔
خان صاحب کو دو اور نکات بھی سمجھنا چاہئیں۔ اس وقت تقریروں سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ جتنی تیز رفتاری سے ممکن ہوسکے، لوگوں کو امداد فراہم کرنا شروع کر دیں۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ بھوکے لوگوں کے مشتعل ہجوم سڑکوں پر آ جائیں گے۔ جیسے ممکن ہو، لوگوں کی مدد کو پہنچیں۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ وقت پوائنٹ سکورنگ کا نہیں۔ وزیراعظم نے ٹائیگر فورس کا اعلان کیا ہے، ا س سے سیاسی تقسیم ہی بڑھے گی۔ نئی فورس بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لاکھوں سرکاری ملازمین گھر بیٹھے ہیں۔ صرف محکمہ تعلیم کے لاکھوں ٹیچرز اگلے کئی ہفتوں تک فارغ ہیں۔ ہر گائوں میں پرائمری، مڈل سکول وغیرہ ہیں، ٹیچرز کومقامی حالات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ اس ورک فورس کو استعمال میں لے آئیں۔ سرکاری ملازمین کہیں نہیں بھاگ سکتے، ان سے حساب لینا بھی آسان ہے۔ ٹائیگر فورس میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی شمولیت کی اسے مزید متنازع بنا دے گی۔ ویسے تو ٹائیگر نام ہی متنازع ہے۔ خان صاحب کئی برسوں سے اپنے کارکنوں کے لئے یہ لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر الگ سے کوئی فورس بنانی ہی تھی تو اسے نیشنل لیول پر سیاست سے بالاتر رکھتے۔ نام ایسا ہوتا جس سے پاکستانیت اور قومی یک جہتی کا احساس ہوتا، اپوزیشن بھی اس کا حصہ بن سکتی۔ ابھی کچھ نہیں بگڑا، اس کا نام بدلا جا سکتا ہے اور اسے غیر متنازع بنایا جا سکتا ہے۔ الخدمت، اخوت اور دوسری بہت سی فلاحی تنظیموں کے ہزاروں والنٹیئر موجود ہیں، ان کی ورک فورس، تجربہ اور ڈیٹا سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس حکومتی فورس کو اچھی شہرت والی فلاحی تنظیموں کے نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ چیک اینڈ بیلنس برقرار رہے۔
ہمارے پاس اپوزیشن جماعتوں کے لئے بھی ایک عدد مشورہ موجود ہے۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے سینیٹ الیکشن میں ا ور عمومی طور پر حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن کے نام سے اتحاد بنایا تھا۔ یہ وقت آ گیا ہے کہ متحدہ اپوزیشن اس نازک گھڑی میں قوم کے ساتھ کھڑی ہو۔ اپوزیشن کو اپنے طور پر پیسے جمع کرنے چاہئیں اور حکومتی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر یا الگ سے مستحق لوگوں کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔ میاں شہباز شریف پر خاص طور سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے جوبحران کے دنوں میں لندن سے پاکستان پہنچے ہیں۔ بدقسمتی سے ابھی تک شہباز شریف نے تمام تر تاثر یہی دیا ہے کہ وہ صرف سیاست سیاست کھیلنے پاکستان آئے ہیں۔ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا کہ یہ وہ خادم پنجاب ہیں جن کی مستعد اورانتہائی فعال شخصیت کو ہر جگہ سراہا جاتا تھا۔ وہ ہر روز ایک ایسا بیان داغ دیتے ہیں جس کا واحد مقصد کورونا وائرس کی تباہ کاری کی ذمہ داری عمران خان پر ڈالنا ہو۔ یہ روش درست نہیں۔ شہباز شریف دس سال تک پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے، ان کا صوبے میں گہرا اثرونفوذ ہے، پنجاب کے اہم خوشحال سیاسی گھرانے ان کے ساتھ ہیں، ایسے جو بلدیاتی انتخابات پر آٹھ دس کروڑ لگا دیتے ہیں۔ میاں صاحب بلدیاتی الیکشن کے ٹکٹ کو سماجی خدمت سے مشروط کر سکتے ہیں۔ ملک کے ٹاپ بزنس مینوں اور کاروباری طبقے کے ساتھ تاجر برادری بھی ن لیگ کا گڑھ رہی ہے۔ شہباز شریف صاحب اپنی جیب سے ایک دو کروڑ کے عطیہ کا اعلان کریں اور پھر اپنی پارٹی کے نمایاں رہنمائوں، اراکین اسمبلی سے دس دس بیس بیس لاکھ کے عطیات دینے کاکہیں۔ وہ اپنے تعلقات اور اثرورسوخ کو استعمال کریں تودو چار دنوں میں چالیس پچاس کروڑ بلکہ ارب سے زیادہ کے فنڈز جمع کر سکتے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب نے مطالبہ کیا ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ مفت کیا جائے۔ درست بات ہے، مگروہ جانتے ہیں کہ اس کی کٹ مہنگی ملتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ امدادی فنڈز جمع کر کے دو چار ہزار کٹس عطیہ کریں۔ لاہور کے دو معروف نجی /ٹرسٹ ہسپتال شریف خاندان کی ملکیت ہیں، وہاں معقول قسم کی لیبارٹریز ہیں۔ شہباز شریف ان ہسپتالوں کی لیبارٹری ہی میں کورونا کے مفت ٹیسٹ کرانے شروع کر دیں۔ چلیں اتنا ہی کر دیں کہ دو ہزار مریضون کے ٹیسٹ فری ہوں گے، ان کے لئے اسباب مہیاکر لیں۔ یہ وقت سیاست سیاست کھیلنے اور بلیم گیم کے بجائے عملی قدم اٹھانے کا ہے۔ اگر شہباز شریف صرف بیانات دینے آئے تو خواہ مخواہ کشٹ اٹھایا۔ یہ کام تو وہ لندن میں بیٹھے کر رہے تھے۔ یہاں پر ن لیگی رہنما خواجہ آصف وغیرہ بھی یہی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ چھوٹے میاں صاحب کی کمی محسوس نہیں ہونی تھی۔