آج کل ہر اس شخص سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آپ نے عمران خان کی حمایت کیوں کی تھی؟ پچھلے دو برسو ں میں تحریک انصاف اور اس کے قائد نے اس برے طریقے سے اپنے ووٹرز، کارکنوں، حامیوں اور حسن ظن رکھنے والوں کو مایوس کیا، جس کی پاکستانی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ بھٹو صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے حامیوں کے ایک حلقے کو مایوس کیا۔ بات درست ہے، مگر بھٹو صاحب نے بہت کچھ ایسا بھی کیا جو ان کے حامی چاہتے تھے۔ 1977ء کے انتخابات میں انہوں نے دھاندلی کی، مگر یہ اپوزیشن کے اتحاد پی این اے کے قائدین بھی تسلیم کرتے تھے کہ پیپلزپارٹی نے الیکشن جیت جانا تھا، دو تہائی اکثریت انہیں نہ مل پاتی۔ دوسرے لفظوں میں بھٹو صاحب اپنے زوال تک اپنے ووٹ بینک کے بڑے حصے کو ساتھ رکھنے میں کامیاب رہے۔ ان کی اسیری کے خلاف بڑی احتجاجی تحریک نہ چل پائی، اس کے الگ اسباب ہیں۔
بھٹو صاحب کے برعکس عمران خان نے صرف دو برسوں میں نہایت تیزی کے ساتھ اپنے اثاثے برباد کئے ہیں۔ دیانت داری کے ساتھ رائے دی جائے تو یہ حقیقت ہے کہ آج نئے انتخابات ہوں توعمران خان تمام تر "سرپرستی"کے باوجود جولائی 2018ء کے انتخابات سے نصف نشستیں بھی نہیں جیت پائیں گے۔ ان کے "حامی "کوشش کے باوجود نہیں جتوا پائیں گے، اس کے لئے انہیں بہت بڑے پیمانے پر دھاندلی کرانا پڑ جائے گی، ایسی رگنگ جو کسی کے لئے قابل قبول نہ ہو سکے۔ پنجاب میں تو خیر مسلم لیگ ن کو توڑنا اور شکست دینا کبھی آسان نہیں تھا، حالیہ الیکشن میں جنوبی پنجاب نے عمران خان کا ساتھ دیا اور پنڈی ڈویژن (اپر پنجاب)میں انہوں نے میدان مارا، جبکہ فیصل آباد کے سوا سنٹرل پنجاب میں مجموعی طور پر ناکامی ہوئی۔ اس بار یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ فیصل آباد میں نتیجہ الٹ آئے گا، یعنی نوے فیصد نشستیں جیتنے کے بجائے نوے فیصد ہار جانا۔ جنوبی پنجاب کے ساتھ آصف زرداری اور شریف برادران نے وفا نہیں کی۔ عمران خان نے بھی مایوس کیا۔ وہاں سے جو نتیجہ آئے گا، اس کا انہیں اندازہ تک نہیں۔ عمران خان کا زوال اتنی تیزی سے کیوں ہوا، اس پر کسی اور دن بات کریں گے۔ آج تواس طعنہ کا جواب دینا ہے جو ہر روز نظریاتی سوچ رکھنے والے انصافین کو سننا اور سہنا پڑ رہا ہے۔
سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طعنہ دینے والے کون لوگ ہیں؟ ہمارے ہاں عام رواج ہے کہ لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں سے چیونگم کی طرح چمٹے رہتے ہیں، اپنی رائے تبدیل کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے بزرگوں، والدین کی وجہ سے کسی جماعت کے حامی ہیں۔ پیپلزپارٹی میں یہ عنصر زیادہ ہے۔ ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جوزرداری صاحب کو سخت ناپسند کرتے ہیں، مگر آج بھی پیپلزپارٹی کے ووٹر رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ایک ساتھی صحافی نے ووٹ ڈالنے کے سوال پر ترنت جواب دیا تھا کہ ہمارا ووٹ تو قبروں کا ہے، ہم تو بھٹو کی قبر کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ سندھ کے کئی دوست بھی یہی جواب دیتے ہیں کہ ہمارا ووٹ تو شہید رانی کی قبر کا ہے، جس شخص کے پاس تیر کا نشان ہوگا، اسے ڈال دیں گے۔ مسلم لیگی ووٹرز میں بھی ایک حلقہ ایسا رہا ہے، گو ان کے جذبات اتنے شدید نہیں۔ اپنے گھرانے یا خاندان کی روایت کے مطابق سیاسی چوائس رکھنا نظریاتی یا مذہبی سیاسی جماعتوں میں بھی عام ہے۔ (سندھی، بلوچ، پشتون، سرائیکی) قوم پرست جماعتوں میں یہ عام کلچر ہے۔ نوجوانوں کا بڑا حصہ اپنے باپ دادا کی میراث سمجھ کر کسی مخصوص جماعت کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ لیڈر پسند نہ بھی ہو تواس پر تنقید کی جرات نہیں ہوتی۔ جے یوآئی ف کے تو شائد صد فی صد حامی اسی مسلکی، موروثی فکر کے تابع ہیں۔ دیگر مسالک کی سیاسی جماعتیں اتنی کمزورہوچکی ہیں کہ ان کا حوالہ دینا بھی وقت کا ضیاع لگتا ہے، ورنہ حال ویسا ہی ہے۔ اپنے باپ دادا کے مسلک سے بغاوت کی کسی میں جرات ہے اور نہ ہی اتنی ہمت کہ اکابرین کی نالائق سیاسی اولاد پر تنقید کر سکیں۔ سیاسی حمایت کرنے یاتبدیل کرنے کا ایک اور بڑا سبب مقامی دھڑے کی سیاست ہے۔ دیہات اور قصبات میں یہ عام رواج ہے۔ وہاں سیاست مختلف برادریوں کے گرد گھومتی ہے یا پھر مقامی شخصیات اثرانداز ہوتی ہیں۔ کسی جگہ ارائیں اور راجپوت ووٹرز زیادہ ہیں تو مقابلہ ان برادریوں میں ہوگا، کہیں یہ جٹ، راجپوت ٹکر ہوگی، کہیں کچھ اور تناسب بنے گا۔ ایک برادری کے امیدوار کو پرکشش ٹکٹ مل گیا، دوسرا لامحالہ اس کی مخالف جماعت کا ٹکٹ لے گا۔ یہ ہمارے سیاسی کلچر کابدنما حصہ ہے۔
اب ان جیسے لوگ جو بیچارے اپنی آزادانہ مرضی سے ووٹ بھی نہ دے سکیں، اپنی پسند کی سیاسی جماعت کا بھی انتخاب نہ کر سکیں، انہیں کسی سے سوال پوچھنے کا کوئی حق نہیں؟ وہ کسی کے آزادانہ انتخاب پر کیسے تنقید کر سکتے ہیں؟ جس نے کبھی زرداری صاحب کی کرپشن داستانوں پر سوال نہیں اٹھایا، جسے یہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ شخص جسے بی بی نے ملک سے باہر رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا، جسے کراچی دھماکہ کے بعد بھی پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی، وہ جو ستائیس دسمبر کی دوپہر تک پیپلزپارٹی میں سب سے ناپسندیدہ شخص تھا، شام کو ہونے والے حادثے کے بعداچانک پیپلزپارٹی کا مالک کیسے بن گیا؟ جو لوگ ایک مشکوک، مجہول سی وصیت کے بدلے بھیڑ بکریوں کی طرح پارٹی کے سب سے بڑے ولن کے آگے سرنگوں ہوگئے، وہ کس منہ سے کسی دوسرے پر سوال اٹھا سکتے ہیں؟ اسی طرح جس شخص نے پاکستان کے سیاسی کلچر کو کرپٹ کیا، صحافیوں میں لفافہ بانٹنے کی روایت ڈالی، جس نے مسلم لیگی حکومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والے ڈکٹیٹر کے ساتھ فوری ہاتھ ملا لیا اور اپنی جماعت مسلم لیگ کے جونیجو جیسے شریف النفس قائد کو دھوکا دیا۔ جس کی کرپشن کے قصے لاہور کی گلیوں، بازاروں میں زبان زدِعام ہیں۔ ن لیگ کے اپنے چہیتے، قریبی صحافی چسکے لے کر جس کے ہوشرباواقعات سناتے ہیں، اس شخص کو لیڈر ماننے والے کیسے سر اٹھا کر چل سکتے ہیں؟ جس کسی نے پاناما کے حقائق جھٹلا دئیے، قطری خط جیسے بچگانہ فراڈ پر یقین کیا، ? کیا وہ بھی کسی شریف، کھرے شخص پر طعن کر سکتا ہے؟ مولانا فضل الرحمن کی کہہ مکرنیوں، شاطرانہ چالوں اور بے اصولی سیاست کو شیرِمادر سمجھ کر پی جانے والے حامی، سوال پوچھنے کی جرات نہ رکھنے والے کارکن بھی کسی کا محاسبہ کر سکتے ہیں؟ جسے یہ پوچھنے کی جرات نہ ہوئی کہ اے این پی کی قیادت کا پٹہ یعنی ملکیتی کاغذات کیا صرف باچا خان کا خاندان اپنے نام لکھوا کر آیاہے؟ جو یہ نہ کہہ سکے کہ اس پارٹی کے لیے کیا کسی اور رہنما نے کبھی قربانی نہیں دی؟ جو کارکن، حامی یہ بنیادی سوال بھی نہ پوچھ سکیں، انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے پر طعن کر سکیں۔
اس لئے کہ عمران خان کی حمایت کرنے والوں نے کسی خاص برادری، مسلک، قومیت یا موروثی بنیاد پر اسے ووٹ نہیں ڈالا۔ اسے اس لئے ووٹ نہیں ڈالا کہ ہمارے باپ دادا اس پارٹی کے حامی رہے، اس کا فلاں مسلک ہے، کوئی خاص برادری ہے، فلاں زبان بولتا ہے یااقتدار میں آنے کے بعد ہمارے مدرسوں کا تحفظ کرے گا۔ نہیں، ایسا قطعی نہیں ہوا۔ عمران خان کے بیشتر حامیوں نے اسے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا۔ اس لئے ووٹ دیا کہ ملک کی تمام بڑی، قابل ذکر جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار تھیں۔ جو کرپشن کو ملک کا مسئلہ سمجھتی ہی نہیں تھیں۔ کرپشن، احتساب اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بات کا مذاق اڑاتی تھیں۔ عمران خان کو دیگر جماعتوں کی نااہلی، ناکامی اور بے شرمی کی حد تک بے حس سیاست کی وجہ سے ووٹ ملے۔ عمران خان کو ووٹ ڈالنے والوں کو سر اٹھا کر چلنا چاہیے کہ انہوں نے ایک اچھے کاز کے لئے ووٹ ڈالا۔ گلے سڑے نظام کو بدلنے کے لئے آگے بڑھے۔ بدبو دار، کرپٹ روایتی سیاست کو مسترد کیا۔ انہیں عمران خان کی انتخابی سیاست پر بھی اعتراضا ت تھے۔ جس طرح اس نے الیکٹ ایبلز کو ساتھ ملایا، مقتدر قوتوں کا سہارا لیا، اے ٹی ایم مشینوں پر انحصار کیا? یہ قابل اعتراض نکات تھے، مگر مقابلے میں سو فی صد سمجھوتا، سو فی صد اے ٹی ایم مشینیں اورمقتدر قوتوں کے ایجنٹ بنے رہنے کی طویل ہسٹری موجود تھی۔ عمران خان کو اس کی اپنی وجہ سے کم اور مخالفوں کے زیادہ برے ہونے کی وجہ سے ووٹ ملے۔
عمران خان کو وو ٹ ڈالنے والے اس لحاظ سے قابل افتخار، دوسروں سے بہتر ہیں کہ انہوں نے دستیاب آپشنز میں سے جو بہتر نظر آ رہا تھا، اس کا انتخاب کیا۔ یہ مگر ووٹ ڈالنا تھا، اپنا ایمان، عقیدہ فروخت کرنا نہیں۔ یہ بیعت کرنا ہرگز نہیں تھا۔ اسی لئے عمران خان کی ناقص کارکردگی پر، غلط فیصلوں پر، ناقص ٹیم پر تنقید ہو رہی ہے۔ عمران خان کو ووٹ ڈالنا درست فیصلہ تھا، اس کی غلطیوں پر خاموش رہنا درست نہیں۔ وہ سیاسی آپشن تھا، اسے ووٹ ڈالا گیا۔ ناکامی پر سیاسی حمایت بھی نہیں ہوگی۔ آخری تجزیے میں اہم بات تبدیلی کی خواہش ہے۔ اچھے اور برے میں امتیاز کرنا ہے، غلط کو غلط اور درست کو درست کہنا ہے۔ جو ایسا کررہا ہے، اسے چاہے کہ وہ سر اٹھا کر چلے۔ نظریں جھکانا، پشیماں ہونا اس کے نہیں، ان شااللہ دوسروں کے حصے میں آئے گا۔