صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن کے اندر ان کے الیکشن کرانا آئینی پابندی اور شرط ہے۔ تحریک انصاف اس کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وہ اس کے لئے باقاعدہ تحریک چلا رہی ہے، حتیٰ کہ عمران خان نے جیل بھرو تحریک جیسا کمزور کارڈ بھی کھیل دیا۔ معلوم نہیں کس اللہ کے بندے نے خان صاحب کو یہ مشورہ دیا۔ سمجھنا چاہیے تھا کہ اپنے مڈل کلاس کارکنوں اور اپنے خاص مزاج کے رہنمائوں پر اتنا دبائو نہیں ڈالا جاتا۔ ان کی جیل بھرو تحریک مذاق بنی ہوئی ہے۔ اگر سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت شروع نہ ہوتی تو میڈیا پر زیادہ بھد اڑتی۔ خیر تحریک انصاف نے صوبائی اسمبلیوں کے بروقت الیکشن کے لئے اپنا سب کچھ دائو پرتو لگایا ہے۔
پی ڈی ایم جس میں ن لیگ، پیپلزپارٹی، جے یوآئی، اے این پی، آفتاب شیرپائو گروپ وغیرہ شامل ہیں، یہ سب سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ الیکشن نہ ہوں۔ پی ڈی ایم میں شامل بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا ذکر نہیں کیا کہ کے پی اور پنجاب کے صوبائی الیکشن میں ان کا کوئی کردار نہیں۔
پی ڈی ایم کو غالباً خطرہ ہے کہ الیکشن میں عوام ان سے انتقام لے لیں گے اور زرداری صاحب کی بات پوری ہوگی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ چلیں یہ بات بھی سمجھ آتی ہے۔ ظاہر ہے جنہیں بدترین اور ذلت آمیز شکست کا خطرہ ہے، وہ الیکشن سے بھاگیں گے۔ ووٹر سے ڈریں گے کہ مینڈیٹ ان کے خلاف ہی آنا ہے۔
ویسے بھی سترہ جولائی کو پنجاب میں بیس صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات، سولہ اکتوبر کو ملک بھر میں آٹھ نو حلقوں کے الیکشن، بعد میں کرم ایجنسی کا ضمنی الیکشن اور اب دو دن قبل راجن پور کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد پی ڈی ایم کا ووٹر سے ڈرنا، کنی کترانا بنتا ہے۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ الیکشن کو جس قدر ہوسکے دور کیا جائے۔ وہ تو اب اس چکر میں ہیں کہ کسی قانونی "جگاڑ "کا سہارا لے کر قومی اسمبلی کی مدت بڑھائی جائے اور ووٹر سے مزید چند ماہ کا فاصلہ کر لیں۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک کی اہم قومی سیاسی پارٹی ہونے کی دعوے دار جماعت اسلامی اس سب کچھ میں کہاں کھڑی ہے؟ امیر جماعت کا کوئی نہ کوئی بیان روز چھپا ہوتا ہے، معلوم نہیں اسے کوئی پڑھتا بھی ہے یا نہیں؟ فصاحت وبلاغت کا مرقع ہوتا ہے۔ نت نئے استعارے، مثالیں، تشبیہات، افسوس کہ سب غیر عملی، خالص اکیڈمک باتیں جن سے عوام کو کوئی سروکار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم الیکشن سے بھاگ رہی ہے تو اس کی وجہ ہے، وہ حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تادیر یہ لذتیں حاصل رہیں، خطرہ ہے کہ الیکشن کے نتیجے میں سب کچھ چھن جائے گا۔ ان کی چیخ پکار قابل فہم ہے۔ جماعت اسلامی کو اس وقت بے عملی سے کیا حاصل ہو رہا ہے؟ میں تو نہیں جانتا، قارئین جانتے ہوں تو ضرور اپ ڈیٹ کریں۔
میرا پوائنٹ یہ ہے کہ جماعت اسلامی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں ایک سٹیک ہولڈر ہے، کے پی اسمبلی میں اس کے ارکان اسمبلی تھے، اسمبلی تحلیل ہوئی اور وہاں پر گورنر نے تحلیل کی سمری پر دستخط کئے، اس کے باوجود وہ الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن، نگران صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت بھی الیکشن نہ کرانے پر تلی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس نکتے پر اپنا موقف مضبوطی سے پیش کیوں نہیں کر رہی؟ کیا جماعت اسلامی نہیں چاہتی کہ کے پی اسمبلی کے الیکشن آئینی مدت کے اندر ہوں؟ پچھلے سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جماعت کی کارکردگی اچھی رہی، ممکن ہے وہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں اپنی نشستیں بڑھا لے۔ اسے اپنی سیاسی قوت بڑھانے میں کیوں دلچسپی نہیں؟ وہ کیوں نہیں چاہتی کہ آئینی مدت کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں؟
جماعت اسلامی اس مسئلے پر کہیں نظر ہی نہیں آرہی، کیوں؟ کیا جماعت نے طے کررکھا ہے کہ ہر اہم اور فیصلہ کن موڑ پر عجیب وغریب موقف اپنا کر عوام کی نظروں سے دور رہنا ہے؟ میں نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پوسٹ کی تو جماعت کے کئی وابستگان نے بڑے جوش وخروش سے مجھے امیر جماعت سراج الحق کے بیان کے کلپ اور سکرین شاٹس بھیجے۔ جن میں امیر جماعت نے فرمایا کہ ملک بھر میں ایک ہی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کرائے جائیں تاکہ خرچ بچ سکے اور سیاسی جماعتیں اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں۔
بیان پڑھ کر پھر وہی خیال آیا کہ جماعت اس زمانے سے بچھڑ چکی ہے، اسے معلوم ہی نہیں کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں؟ سوال یہ ہے کہ انہیں نظر نہیں آ رہا کہ ملک میں کیا چل رہا ہے؟ معلوم نہیں کہ اس وقت جس قسم کی انتہائی شدید پولرائزایشن چل رہی ہے، اس میں اتفاق رائے ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی کے سینئر تجربے کار لوگوں کو معلوم نہیں کہ پی ڈی ایم تو کسی بھی صورت میں الیکشن کرانے کے لئے تیار نہیں۔ وہ تو چاہتی ہے کہ کسی طرح قومی اسمبلی کی مدت میں چھ ماہ، سال کا اضافہ ہوجائے اور وہ الیکشن سے مزید ایک ڈیڈھ سال دور ہوجائے۔ ایسے میں جماعت کیا کرے گی؟
کیا جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ جب تک قومی اسمبلی کے الیکشن نہیں ہوتے، تب تک صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بھی نہیں ہونے چاہئیں؟ اگر ایسا ہے تو انہیں کھل کر یہ بات کہنی چاہیے۔ انہیں پھر یہ بھی بتانا چاہیے کہ نوے دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا الیکشن کرانے کی جو پابندی ہے، اس کا کیا بنے گا؟ کیا آئینی پابندی کی دھجیاں اڑا دی جائیں؟
اس سوال کا جواب بھی جماعت اسلامی پر دینا فرض ہے کہ اگر آئین کی دی گئی مدت کی خلاف ورزی صوبائی اسمبلیوں میں ہوگئی تو پی ڈی ایم قومی اسمبلی اور دیگر دو صوبائی اسمبلیوں میں ایسا کیوں نہیں کرے گی؟ کیا ایک بار کی آئینی خلاف ورزی مستقبل کی دیگر خلاف ورزیوں کی نظیر نہیں بن جائے گی؟ تب جماعت کیا کرے گی؟ ایک اورکتابی قسم کا مثبت بیان جاری کرے گی؟ ضمنی سوال پھر وہی کہ اس موقف کا جماعت اسلامی کو کیا فائدہ ہوگا؟ پی ڈی ایم تو حکومت میں ہے۔ جماعت تو نہ حکومت کا حصہ اور نہ اپوزیشن میں شامل، وہ تو معلق پوزیشن میں ہے۔
منگل کے روز سپریم کورٹ کی کارروائی کے حوالے سے ایک نوجوان صحافی اور سوشل میڈیا بلاگر شفقت کی تحریر پڑھی۔ انہوں نے لکھا "ایک سفید بالوں والے وکیل نے اٹھ کر سپریم کورٹ میں کہا کہ ہمیں نہیں سنا جا رہا، عدالت نے انہیں بلالیا، انہوں نے کہا کہ میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کر رہا ہوں اور ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ کیس لارجر بنچ سنے۔ عدالت نے کہا کہ آپ لارجر بنچ کے سامنے ہی کھڑے ہیں۔ (واضح رہے کہ پانچ رکنی یا اس سے زیادہ والا بنچ لارجر بنچ کہلاتا ہے)۔
وکیل صاحب نے کہا ہمارا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی روز ہوں تاکہ خرچ بچ سکے، سپریم کورٹ انتظار کرے اور ہائی کورٹس میں اس کیس کا فیصلہ ہوجانے دے۔ چیف جسٹس نے کہا، آپ دیر سے آئے ہیں، صبح آتے تو آپ کو شائد معلوم ہوجاتا کہ یہ کیس الیکشن کرانے کا ہے ہی نہیں، تاریخ نہ دینے کا ہے، اگر تاریخ دے دی جاتی تو ہم ازخود نوٹس ہی نہ دیتے، کیونکہ الیکشن کرانے کا تو لاہور ہائی کورٹ کہہ چکی ہے۔ "میں نے ایک دو کورٹ رپورٹروں سے کنفرم کیا تو ان کا تاثر بھی یہی تھا۔ ان کے مطابق کمرہ عدالت میں لوگ جماعت کی اس غیر سنجیدہ نمائندگی پر متاسف تھے۔
جماعت اسلامی کا مسئلہ شائد عمران خان بن چکے ہیں۔ کئی امور پر دونوں پارٹیوں کا موقف ایک جیسا ہے، مگر عمران خان تمام ترکریڈٹ لے جاتے ہیں۔ جیسے پانامہ کیس پر جماعت اسلامی پہلے سپریم کورٹ میں گئی، ان کا موقف زیادہ جاندار تھا کہ صرف نواز شریف نہیں بلکہ پاناما سکینڈل میں آنے والے تمام چار سو لوگوں کا احتساب ہو۔ پانامہ کیس کے تمام تر ثمرات مگر عمران خان سمیٹ گیا۔
جماعت کو اب بھی شائد یہی ڈر ہے کہ عمران خان کے کسی موقف کی تائید کی جائے تو انہیں خسارہ ہوگا۔ یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اصولی موقف کے ساتھ کھڑا نہ ہونے سے زیادہ ندامت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ با ت کہنے کا فائدہ ہی نہیں کہ ملک بھر میں الیکشن ایک ہی دن کرائے جائیں، یہ بات عملی طور پر اب ناممکن ہے۔ اب یا تو صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن پہلے ہوجائیں گے یا ان کے ساتھ قومی اسمبلی اور باقی دو اسمبلیوں کا الیکشن ہوگا، جو کہ بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس لئے جو آئینی پابندی ہے، اس کی خاطر تو لڑیں۔
صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن وسط اپریل سے پہلے ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس میں سے کسی ایک آپشن کو چننا پڑے گا۔ جماعت اسلامی اپنے آپ کو یکسو کرے۔ موقف جو مرضی لیں، مگر وہ غیر مبہم اورواضح ہو۔
میری ذاتی رائے میں جماعت کو انہیں اس وقت الیکشن کے حق میں کھڑا ہونا چاہیے، سیاسی، میڈیا اور سوشل میڈیا تینوں سطحوں پر۔ جماعت اسلامی کا تو سلوگن ہی یہی ہے کہ حل صرف جماعت اسلامی۔ وہ اپنے آپ کو تیسری آپشن بنا کر پیش تو کریں۔ کوشش تو کریں۔ لڑے بغیر ہی ہتھیارپھینک کر کونے میں بیٹھے دہی کھا ناانہیں جچ نہیں رہا۔