انتخابات میں مشکل سے چوبیس پچیس دن رہ گئے، اس میں بھی انتخابی مہم دو دن پہلے ختم ہوجاتی ہے، یعنی سیاسی جماعتوں کے پاس کئی سو نشستوں پر مشتمل عام انتخابات کے لئے مشکل سے تین ہفتے ہی رہ گئے ہیں۔ انتخابی مہم مگر نہایت ٹھنڈی ٹھار چل رہی ہے، جلسوں کا سلسلہ شروع تو ہوگیا، مگر ابھی رنگ نہیں جم پایا۔ سیاسی قائدین ابھی تک ٹکٹوں کے مسائل اور ان کے آفٹر شاکس سے نہیں نکل پائے۔
عمران خان چونکہ سیاستدانوں والی روایتی مصلحت پسندی اور ہوشیاری کے حامل نہیں، اخبارنویسوں سے بات کرتے ہوئے وہ پھٹ پڑے اور بے اختیار کہا کہ ٹکٹوں والا معاملہ طے ہوجائے تو میں اللہ کا شکر ادا کروں گا کہ اس مسئلے سے جان چھوٹی۔ عمران خان کو اس قسم کے دبائو اور اعصابی تنائو کا زندگی میں پہلی بار سامنا پڑا۔ ان کی جماعت کو اس قدر سیاسی اہمیت بھی پہلے کبھی نہیں مل پائی۔ بڑی سیاسی جماعتیں ایسے دبائو کی عادی ہیں اور ان کے قائدین کے اعصاب شاک پروف ہوچکے ہیں، اس بارمگر مسلم لیگ ن کی قیادت بھی مسائل کا شکار رہی اور اندرونی اختلافات کی جھلک باہر تک نظر آئی۔ ایک بڑی وجہ تو میڈیا کی غیر معمولی فعالیت ہے، جو معمولی واقعات کو بہت بڑا بنا دیتا ہے۔ ویسے بھی سوشل میڈیا کی صورت میں ہر کسی کو ایک طرح کا" ہائیڈ پارک" دستیاب ہے، جہاں وہ دل کی بھڑاس نکال سکتے ہیں۔
میڈیا کو کوئی نہ کوئی ایشو چاہیے اورامیدواروں نے چینلز کی اس بڑھتی پیاس کو بھانپ کر مختلف جگہوں پر احتجاجی کیمپ اور دھرنے لگاکر خوب رونق لگائی۔ عمران خان دھرنا سیاست کے بانی اور امام ہیں، ان کے اپنے کارکنوں اور مقامی سطح کے رہنمائوں نے یہی تکنیک ان پر آزما ڈالی۔ خان صاحب کا گھر سے باہر نکلنا مشکل ہوگیا۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ اس بار پنجاب میں ہاٹ کیک کی طرح مقبول ہوا۔۔
عمران خان کے لئے تین طرح کے مسائل تھے۔ پنجاب کے متعددحلقوں میں پارٹی کے پرانے کارکن یا دوسری صف کے رہنمائوں نے پچھلا الیکشن لڑا اور تیس چالیس ہزار ووٹ لے کر وہ ہار گئے۔ ایسے پرانے ساتھیوں کے خلوص، کمٹمنٹ اور پارٹی کے لئے قربانی اپنی جگہ اہم تھی، مگر عمران خان کے لئے اس فیصلہ کن الیکشن میں ان پر دوبارہ بھروسہ کرنا آسان نہیں تھا کہ ان کی دوبارہ شکست گویا دیوار پر لکھی نظر آ رہی تھی۔ بعض مضبوط امیدوار جو ماضی میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کرتے رہے اور ایک یا زیادہ بار ارکان اسمبلی منتخب ہوئے، وہ بھی پی پی پی کی پنجاب میں تباہ حال سیاست دیکھ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔
پیپلزپارٹی کے جیالے اس پر تلملاتے ہیں، مگر یہ عملی سیاست میں عام بات ہے۔ نذرگوندل، فردوس عاشق اعوان وغیرہ پر کرپشن کے الزامات ہوں گے، مگر ندیم افضل چن تو صاف ستھرے سیاستدان ہیں، وہ بھی پی ٹی آئی کی طرف جانے پر مجبور ہوگئے۔ پی ٹی آئی میں الیکٹ ایبلز کا ایک جتھا آخری دنوں میں مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر شامل ہوا۔ ان میں سے کچھ نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا راستہ اختیار کیا اور بعض اس تکلف کے بغیر ہی سیدھے ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے آئے۔ پی ٹی آئی کے لئے فیصلہ قطعی آسان نہیں تھا۔ جو کارکن یا رہنماآٹھ دس برسوں یا پچھلے عام انتخابات سے پارٹی کا ساتھ نباہ رہے ہیں، انہیں صرف سیٹ جیتنے کے لئے ایک سائیڈ پر کرنا ظاہر ہے مشکل فیصلہ تھا۔
یہ فیصلہ مگر عمران خان کو کرنا پڑا۔ اس میں غلطیاں بھی ہوئیں، سنگین غلطیاں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے دھڑا دھڑ الیکٹ ایبلز کو شروع ہی میں ٹکٹیں دیں اور یوں اپنا تاثر خراب کر لیا، انہیں اگر بعد میں ٹکٹیں دیتے اور شروع میں اپنے پرانے ساتھیوں کو اکاموڈیٹ کرتے تو شائد منفی تاثر نہ جاتا۔ تحریک انصاف میں گروپ بندی سے بھی نقصان ہوا۔ پنجاب کی پی ٹی آئی جہانگیر ترین اور شاہ محمود گروپ میں منقسم ہے۔ یہ تقسیم ٹکٹوں کے موقع پر بہت گہری اور واضح نظر آئی۔
مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے وفادار ساتھیوں کو ٹکٹ دلوانے کی سرتوڑ کوشش کی اور ایسا کرتے ہوئے پارٹی مفادات کا قطعی خیال نہیں رکھا۔ جہانگیر ترین گروپ کو پارٹی میں الیکٹ ایبلز لانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ تحریک انصاف کے یہ دونوں مرکزی قائدین ایک دوسرے کی کاٹ میں لگے رہے، نقصان دوسرے کا ہوا یا نہیں، پارٹی ضرور متاثر ہوئی۔ شاہ محمود قریشی قومی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ رہے ہیں، ایک سے زائد حلقوں پر وہ امیدوار ہیں۔ ان کی خواہش شائد یہی ہے کہ اگر وزیراعظم نہ بن پائیں تو کم از کم وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ اسے کائونٹر کرنے کے لئے جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے عبدالعلیم خان لاہور میں قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یار لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر پارٹی جیت گئی تو وزیراعلیٰ کا امیدوار یہ بن سکتے ہیں۔ ادھر اسحاق خاکوانی بھی وہاڑی سے اس بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ رہے ہیں، اس کے پس پردہ بھی شائد یہی خواہش کارفرما ہوگی۔
سیاسی جماعتوں میں گروپ ہوتے ہیں۔ ماضی میں جب پیپلزپارٹی پنجاب کی دوسری بڑی پارٹی تھی، اس زمانے میں اس کے اندر بھی مختلف گروپ تھے اور مسائل چلتے رہتے تھے۔ یہ سب گروپ اور رہنما مگر مرکزی قائدبے نظیر بھٹو کے کنٹرول اور قابو میں رہتے تھے، کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنی گروپنگ میں پارٹی کا بیڑا غرق کرے۔ مسلم لیگ ن میں بھی گروپنگ کسی حد تک رہی ہے، مگر میاں نواز شریف کے سامنے ہر ایک کی سرکشی اور ضد دم توڑ جاتی۔
عمران خان کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ان لیڈروں کو گروپ بنانے دئیے، ان کی حوصلہ شکنی کی اور نہ ہی معاملات براہ راست اپنے کنٹرول میں کئے۔ شائد وہ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ جتنی پرواز کر لیں، کہاں تک اڑ سکیں گے؟ یہ گروپنگ مگر پارٹی کے مجموعی مورال اور ساکھ پر برا اثر ڈالتی ہے۔ سکندر بوسن کے مقابلے میں ڈیہڑ صاحب نے جس طرح سے مہم چلائی، دھرنے دئیے اور ملتان سے بسیں بھر بھر کر لوگ اسلام آباد پہنچاتے رہے اور واضح طور پر انہیں شاہ محمود قریشی کی حمایت حاصل تھی، اس کے بعد انہیں ٹکٹ دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس حلقے سے پارٹی بے شک سکندر بوسن کو ٹکٹ نہ دیتی، مگر یوں بلیک میلنگ کا شکار بھی نہ ہوتی۔
عمران خان نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو ملتان میں پارٹی ٹوٹ جاتی۔ کیسے اور کیوں ٹوٹ جاتی؟ کسی لیڈر کو اتنا طاقتور کیوں ہونے دیا کہ وہ پارٹی توڑ سکے؟ مسلم لیگ ن والے پرانے اور تجربہ کار لوگ ہیں۔ دو بڑے مسائل البتہ انہیں بھی درپیش رہے۔ ایک تو پارٹی میں نواز شریف اور شہباز شریف گروپ بھی واضح ہوا۔ نواز شریف صاحب پہلے اپنے کیسز میں الجھے رہے پھر ٹکٹوں کے فیصلہ کن مرحلے پر وہ باہر چلے گئے۔
شہباز شریف صاحب نے زیادہ تر فیصلے کئے اورخود ن لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق انہوں نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو نوازا اور بڑے میاں صاحب سے قریب حلقے کو سائیڈ پر رکھا۔ اس کا ردعمل کہیں کہیں سامنے آیا اور شائد الیکشن کے بعد زیادہ کھل کر آئے۔ زعیم قادری نے کھل کر پریس کانفرنس کرڈالی، بعض اور جگہوں پر بھی احتجاج ہوا، کئی امیدوار آزاد کھڑے ہوگئے۔ ڈیرہ غازی خان سے حافظ عبدالکریم نے پچھلی بار نشست جیتی تھی۔ میاں شہباز شریف نے سردار جمال لغاری، اویس لغاری سے اتنی قربت اختیار کی کہ حافظ عبدالکریم کو بالکل کارنر کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حافظ عبدالکریم ن لیگ چھوڑ کر الگ ہوگئے اور اب ان کا صاحبزادہ اسامہ آزاد الیکشن لڑ رہا ہے۔
ن لیگ کو دوسرا بڑا دھچکا جنوبی پنجاب میں پہنچا۔ پہلے تو وہاں بہت سی اہم شخصیات پارٹی چھوڑ کر چلی گئیں۔ بعد میں کئی اہم امیدواروں جیسے مظفر گڑھ میں سلطان ہنجرا، ڈی جی خان میں امجد فاروق کھوسہ، راجن پور میں حفیظ دریشک اور شیر علی گورچانی نے ن لیگ کا ٹکٹ آخری دن واپس کرکے آزاد لڑنے کافیصلہ کیا۔ اب اتنا وقت نہیں کہ ن لیگ کوئی اور امیدوار چن سکے، جھنگ میں بھی ان کے ساتھ ایسا ہوا اور کئی نشستوں پر ان کا امیدوار ہی نہیں۔ یہ بڑا دھچکا ہے کہ پارٹی کا امیدوار ہی "دوڑ" جائے اور متبادل انتظام موجود نہیں۔ اندازے کی ایسی بڑی غلطی میاں نواز شریف کے دور میں کبھی نہیں ہوئی، یہ شہباز شریف کی مسلم لیگ کے حصے میں آئی ہے۔ اس بار آزاد امیدواروں کا صوبے بھر میں ایک گروپ جیپ کے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن لڑ رہا ہے۔
چودھری نثار علی خان نے بھی یہی نشان لیا ہے۔ ادھر راجن پور، ڈی جی خان میں ن لیگ کے بھاگے ہوئے سابق ارکان اسمبلی، اوکاڑہ میں پی ٹی آئی کے باغی شفقت ربیرہ، وہاڑی میں نذیر جٹ کی صاحبزادی عائشہ نذیر جٹ وغیرہ نے بھی یہی نشان لیا ہے۔ معلوم نہیں یہ نئی کنگز پارٹی کی ابتدا ہے یا پھر ان مضبوط آزاد امیدواروں کی الیکشن کے بعد اچھی بارگینگ کے لئے بنایا گیا پلیٹ فارم؟
تین ہفتے باقی ہیں، دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اندرونی جھگڑوں اور ناراض امیدواروں کو بٹھانے کے جھنجھٹ سے نکل سکیں، تب بھرپور انتخابی مہم شروع ہوسکے گی۔ اتنے کم وقت میں مگر کیا ہوسکے گا؟ یہ واحد الیکشن ہیں، جو ہونے تو جار ہے ہیں، مگر یقین شائد امیدواروں کو بھی نہیں آ رہا۔