مینار پاکستان گرائونڈ میں ہونے والا علامہ خادم حسین رضوی کا جنازہ افراد کی شرکت کے حوالے سے ایک غیر معمولی، تاریخ ساز اجتماع تھا۔ پاکستان کی تاریخ کے چند یادگار جنازوں میں سے ایک۔ لاہور کی تاریخ میں جنازے کے دو چار بہت بڑے اجتماع ہوئے ہیں، علامہ خادم رضوی کا جنازہ ان سے زیادہ نہیں تو، ان میں سے ایک ضرور ہے۔ تقسیم سے پہلے غازی علم الد ین شہید کا جنازہ تاریخ ساز تھا، ویسے اجتماع کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ عاشق رسول ﷺ کے آخری سفر کے لئے خلق خدا امڈآئی تھی۔ علامہ اقبال کا جنازہ بھی لاہور کے بہت بڑے جنازوں میں شمار ہوتا ہے۔ شاعر مشرق درویش صفت انسان تھے، عشق رسول ﷺ ان کی رگ رگ میں سمایا تھا۔ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر سن کر گویا پورا لاہور جنازے میں شریک ہوا۔
تقسیم کے بعد لاہور میں جنازوں کے بعض بڑے اجتماع ہوئے، اتفاق سے بیشتر عالم دین تھے۔ سید مودودی کا جنازہ قذافی سٹیڈیم میں ہوا، کہتے ہیں کہ اس وقت کے حساب سے بہت بڑا اجتماع تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی نماز جنازہ باغ جناح لاہور میں پڑھائی گئی، اس میں شریک ہوا تھا۔ حیرت ہوئی کہ معلوم نہیں کہاں کہاں سے لوگ دیوانہ وار چلے آ رہے تھے، نمازپڑھانے میں تاخیر کی جاتی رہی کہ دور دور تک لوگوں کی قطاریں تھیں جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لیتی تھیں۔ اس دن عجیب نظارہ دیکھا، اگر خود شریک نہ ہوتا تو یقین نہ آتا۔ ڈاکٹر اسرار صاحب نے زندگی بھر قرآن کی خدمت کی، فہم قرآن کے لئے خود کو وقف کئے رکھا، خلق خدا نے اس ایثار اور اخلاص کا پاس رکھا۔ ہمارے ایڈیٹر ارشاد احمدعارف صاحب بتا رہے تھے کہ مولانا شاہ احمد نورانی کا کراچی میں جنازہ بھی غیر معمولی تھا، حالانکہ مولانا کو آخری دنوں میں مہاجر عصبیت کے باعث ایم کیو ایم کے مقابلے میں بمشکل چند ہزار ووٹ ملتے تھے، مگر ان کے آخری سفر میں لاکھوں شریک ہوئے۔
پچھلے چند برسوں سے مجھے تنگ جگہوں یاجم غفیر میں دم گھٹنے کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے، نفسیات میں اسے کلسٹرو فوبیا کہتے ہیں۔ ہجوم میں پھنس جانے کے خدشہ سے جنازے میں شریک تو نہیں ہوسکا، مگر وہاں جانے والے بعض دوستوں سے بات ہوئی۔ سب حیران تھے کہ عوام کا ایسا سیلاب جانے کہاں سے امنڈ آیا۔ بڑے اجتماع کی توقع تو تھی، مگر اتنا بڑا اجتماع شائد کم لوگوں نے سوچا ہو۔ داتا دربار سے مینار پاکستان تک اچھا خاصا فاصلہ ہے، یہ راستہ لوگوں سے لبالب تھا، دوسری طرف سرکلر روڈ پر میلوں دور تک شرکا موجود تھے۔ عوام کا سیلاب تھا جو خود کو دربار نبوی ﷺ کا چوکیدار کہلانے والے درویش کے آخری سفر میں شریک ہونے پہنچا۔ چند سال پہلے پنڈی میں ممتاز قادری کے جنازہ میں بھی ایسی ہی کیفیت دیکھی گئی، وہ بھی ایک حیران کن اجتماع تھا۔ علامہ خادم رضوی کے جنازے کی خبربناتے ہوئے بعض غیرملکی اور ملکی ویب سائٹس نے ہزاروں افراد کی شرکت کا ذکر کیا۔ یہ جھوٹ اوربددیانتی ہے۔ اصل تعداد اس سے سو گنا زیادہ ہے۔ ہمارے دوست پیر ضیا الحق نقشبندی شریک تھے، ان کے خیال میں پندرہ بیس لاکھ لوگ تھے، اتنے نہ سہی تو دس لاکھ کے لگ بھگ تو ضرور ہوں گے۔ دس بارہ لاکھ کے اجتماع کو ہزاروں کہنا زیادتی اور تعصب ہے۔
خادم رضوی درویش صفت انسان تھے۔ ان میں خوبیاں بھی بلا کی تھیں اوربشری خامیاں بھی۔ حافظ قرآن تھے، اپنی غیر معمولی یادداشت کی وجہ سے اقبال کا کلام ازبر تھا، جاننے والے کہتے تھے کہ فکر اقبال پر اس گرم گفتار درویش کی گہری نظر ہے۔ ایسی جو بڑے بڑے ماہرین اقبالیات کو بھی نصیب نہیں۔ رضوی صاحب اپنے طرز سیاست اور طرز گفتگو کے باعث متنازع رہے۔ ان کے لہجے کی سختی، ترشی سے کئی حلقے برہم تھے۔ اپنے مسلک میں بھی وہ متفقہ قائد کا درجہ نہیں رکھتے تھے۔ اس کے باوجود ان کے مخالفین اور ناقدین بھی یہ بات تسلیم کرتے کہ علامہ رضوی ایک سچے عاشق رسول ﷺ ہیں، ان کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے، مگر اخلاص شک وشبہ سے بالاتر ہے۔ علامہ خادم حسین رضوی کی موت کی خبر نے ملک بھر کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے لوگوں کو دلسوزی سے تعزیتی پوسٹیں کرتے دیکھا جوہمیشہ علامہ رضوی کی سیاست کے مخالف رہے۔ بے شمار ٹوئٹس اور تعزیتی پوسٹیں لکھی گئیں۔ اس اچانک خبر نے ان کے مخالفین کے بھی دل موم کر دئیے۔ افسوس کہ سوشل میڈیا کا ایک خاص مذہب بیزار حلقہ اپنی ناپسندیدہ روش پر قائم رہا۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ لبرل ازم یا سیکولرازم مرنے والوں کا مذاق اڑانا نہیں سکھاتا۔ دنیا بھر میں ایسا کرنابنیادی اخلاقیات کی نفی تصور ہوتا ہے۔
بڑا جنازہ ہونا کسی نیک آدمی کی لازمی دلیل نہیں۔ تاریخ اسلام ہمیں کئی عظیم الشان لوگوں کی خبر دیتی ہے، حکومتی جبر، فساد بلوے یا کسی اور بنا پر ان کے جنازے مختصر ہوئے۔ جنازہ میں تھوڑے لوگوں کا شریک ہونا مرحوم کی بخشش میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ فیصلہ اس ذات نے کرنا ہے، جس سے کچھ پوشیدہ نہیں، سب سے بہتر وہ ہی جانتا ہے۔ تاہم کسی شخص کے جنازے میں لاکھوں لوگوں کا والہانہ انداز میں شریک ہونا، مرحوم کے لئے رو رو کردل کی گہرائیوں سے دعائے مغفرت کرنا یقینی طور پر ایک قابل رشک بات ہے۔ ہر کوئی یہی چاہے گا۔ میرے جیسے گناہ گار تودل وجاں سے یہی خواہش رکھتے ہیں، رب کریم قبولیت بخشے۔
امام احمد بن حنبل ؒ کا واقعہ بہت مشہور ہے، بے شمار بار نقل ہوتا ہے، پھر بھی کہیں پڑھیں تو عجب کیفیت طاری ہوتی ہے۔ زندگی کا آخری حصہ انہوں نے بے پناہ حکومتی جبر اور سختی برداشت کی۔ ایسی کہ جو لوہے کو بھی پگھلا دے۔ امام نے بے پناہ استقامت اور صبر سے ہر مصیبت برداشت کی۔ کہتے ہیں کہ ایک بار جیل کے کسی سفاک سپاہی نے انہیں بے سروساماں اور تنہا رہ جانے کا طعنہ دیا۔ امام نے ایک خاص جذب کی حالت میں فرمایا: بیننا و بینکم یوم الجنائز (ہمارے اور تمہارے درمیان ہمارے جنازے فرق کریں گے۔ ) امام کے صاحبزادے عبداللہ بن احمد سے روایت ہے کہ میرے والد کہا کرتے تھے: قولو لاھل البدع، بیننا وبینکم یوم الجنائز( ان اہل بدعت (فتنہ خلق قرآن برپا کرنے والوں کی طرف اشارہ تھا)سے کہہ دو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ہمارے جنازے فرق کریں گے۔ ) اللہ نے اپنے سچے بندے کی بات یوں پوری کی کہ جب امام احمد بن حنبل کا انتقال ہوا تولاکھوں لوگ جنازے میں شریک ہوئے۔ اس دور کا ایک راوی کہتا ہے کہ عباسی خلیفہ کے سوا بغداد کے تمام مکیں حتیٰ کہ شاہی محل کے خادم تک جنازے میں افسردہ شریک ہوئے۔
علامہ خادم حسین رضوی کا امتیاز ان کا حب رسولﷺ تھا۔ وہ بڑے جذب اور والہانہ انداز سے آقاﷺ کا ذکر کرتے، آپ ﷺ کی غلامی پر فخر کرتے، بار بار کہتے کہ اگر ناموس رسالت ﷺ کے لئے کچھ نہ کیا تو کس منہ سے سرکار ﷺ کے سامنے پیش ہوں گا۔ لگتا ہے رب کریم نے ان کی یہ ادا قبول کر لی۔ انہیں وہ توقیر، عزت عطا کی جو بڑے بڑوں کو نصیب نہیں ہوتی۔ رب کریم علامہ خادم حسین رضوی کیخطائوں سے صرف نظر کریں اور انہیں جنت الفردوس عطا فرمائیں، آمین۔ ان کے صاحبزادے اور جانشین سعد رضوی کے بارے میں مثبت ہی کہا جا رہا ہے، وہ عالم دین اور معتدل انسان ہیں۔ امید کرنی چاہیے کہ" تحریک لبیک یا رسول اللہ" قومی دھارے سے دور جانے کے بجائے اس کا حصہ بن کر مثبت کردار ادا کرے گی۔