شیخ رشید احمد کے حوالے سے خاکسار کی یہ دیرینہ رائے ہے کہ ان کے بیشتر دعوے غلط اور بہت سی باتیں صرف پبلسٹی لینے کی خاطر ہوتی ہیں۔ بیشتر سیاستدانوں کی طرح شیخ صاحب میڈیا کوریج کے دیوانے ہیں، ہوشیارآدمی ہونے کے ناتے جلد اندازہ لگا لیا کہ نیوز چینلز کی دنیا میں تیز، کاٹ دار جملہ پھینکنے والے اور انتہائی پوزیشن لینے والے کو کوریج ملتی ہے۔ سوئپنگ سٹیٹمنٹ دینے اور مستقبل کی غلط سلط پیش گوئیاں کرنے کی وجہ سے کئی برسوں سے شیخ صاحب نیوزچینلز کے موسٹ وانٹیڈ گیسٹ ہیں۔ نوے کے عشرے میں ان کی خودنوشت" فرزند پاکستان" شائع ہوئی۔ یہ غالباً بہاولپور جیل میں اسیری کے زمانے میں لکھی۔ آج کل تو وہ اس کتاب کو چھپاتے ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں اس کا کوئی ایڈیشن نہیں چھاپا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں میاں نواز شریف کو اپنا عظیم قائد قرار دیا تھا۔ انہی شیخ صاحب نے یوم مئی اٹھائیس تکبیر کے حوالے سے دعویٰ کیا، " میاں نواز شریف صاحب کو ایٹمی دھماکہ کرنے کا کریڈٹ نہیں دینا چاہیے، یہ دھماکے میں (شیخ رشید)، گوہر ایوب اور راجہ ظفر الحق نے کرائے۔"
شیخ صاحب کے بیان کی کیا اہمیت ہے، اسے نظر انداز کر دینا چاہیے تھا مگر اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی۔ قومی اخبارات میں بھی اس پر لکھا جا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ کہ شدید نوعیت کی سیاسی تقسیم کے باعث اینٹی نواز شریف حلقے میاں صاحب کو کسی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ پچھلے چندبرسوں کے دوران یہ المیہ رونما ہوا ہے کہ سیاسی کارکن یا سیاست پر بات کرنے والے عام لوگ اپنی پسند نا پسند میں انتہا پر جا چکے ہیں۔ سیاسی مخالفت ان کے نزدیک مخالف کی دھجیاں اڑا دینا ہے۔ اپنے ناپسندیدہ سیاستدان کے لئے شیطان، غدار اعظم اور ملک بیچنے والا سے کم کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔
ایک زمانے میں یہی رویہ مسلم لیگی اور پیپلزپارٹی کے لوگ ایک دوسرے کے لئے اپناتے تھے۔ نوے کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ایسی بہت سی بحثیں سنیں۔ میں نے خود اپنے کانوں سے میاں نوازشریف کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہتے سنا۔ اس زمانے کے ہفت روزہ سیاسی جرائد بھی یہی نفرت انگیز زبان اور لب ولہجے کو لے کر چلتے تھے۔ دائیں بازو میں تکبیر جبکہ بائیں بازو میں زنجیر جیسے جریدے اس کی مثال ہیں۔ جنرل مشرف نے دونوں بڑی جماعتوں اور ان کے قائدین کو سیاست سے نکال باہر کیا تو پھردونوں کو غلطی کا احساس ہوا۔ مشترکہ دشمن نے انہیں اکٹھا ہونے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت پوزیشن ترک کرنے پر آمادہ کر دیا۔
پرویز مشرف کے سات آٹھ برسوں کے بعد زرداری اور پھر نواز شریف صاحب کے ادوار میں ایک نئے سیاسی عنصر نے جنم لیا۔ جو دونوں جماعتوں اور ان کے لیڈروں سے بیزار تھا۔ اس ووٹ بینک کو عمران خان نے اپنے ساتھ جوڑا اورپھر دھرنے کے دنوں میں مزیدجارحانہ، کاٹ دار بیانیہ عطا کیا۔ خان صاحب کے دھرنے کے دنوں کی بہت سی تقریریں افسوسناک اور قابل مذمت تھیں۔ پانامہ، پوسٹ پانامہ ادوار میں یہی سخت گیر لب ولہجہ غالب رہا۔ مسلم لیگ ن نے بھی ویسا بلکہ کئی بار اس سے بھی زیادہ سخت، جارحانہ رویہ اپنایا۔ پچھلے تین چار برسوں میں عمران خان کی ذات پر ہونے والے اکثر رکیک حملے مسلم لیگ ن کے میڈیا سیلز میں تخلیق اور ترتیب دئیے گئے۔ عمران خان کو زندگی بھر قومی اور عالمی میڈیا عمران خان کہتا رہا، اچانک سے انہیں عمران نیازی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ حکمت عملی مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل نے تخلیق کی۔ میڈیا کے کئی بڑے نام اس سیل کا حصہ رہے۔ مقصد تھا کہ عمران نیازی کے نام سے توجہ سقوط ڈھاکہ کے وقت وہاں موجود فوج کے سربراہ جنرل نیازی کی طرف چلی جائے۔ شکست خوردہ جنرل نیازی ہماری تاریخ کا بدنام حوالہ ہیں۔ عمران خان سے ناراض مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھی بھی اس پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنے۔ گھٹیا الزامات کی اس جنگ میں انہوں نے اپنے مولویانہ ذہن کو استعمال کیا اور فتوے بازی کاعنصر شامل کر دیا۔ ن لیگ والے عمران مخالفت میں بہت آگے گئے، مگر یہودی ایجنٹ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ"سعادت" مولانا فضل الرحمن کے حصے میں آئی۔ آج کا منظرنامہ سب کے سامنے ہے۔ بعض دوست اس کا ذمہ دار عمران خان اور ان کے" پوسٹ ٹرتھ" کو سمجھتے ہیں۔ یہ مکمل سچ نہیں، مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادیوں نے بھی یہ" ثواب" جی بھر کر کمایا ہے۔ ایک طوفان بدتمیزی ہے، جس کا نشانہ ہر کوئی بن رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی دھماکے کرنا میاں نواز شریف ہی کا کریڈٹ ہے۔ وہ ایک طاقتور وزیراعظم تھے، جسے ہیوی مینڈیٹ حاصل رہا۔ شیخ رشید، گوہر ایوب اور راجہ ظفر الحق کی کیا حیثیت تھی کہ وہ میاں صاحب سے فیصلے کرا سکتے؟ ان دنوں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کچھ لوگ دھماکے نہ کرنے کے حامی تھے۔ اس رائے کو غیر حب الوطنی نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے اپنے دلائل تھے کہ ایٹمی قوت تو ہم ہیں، دھماکے کریں یا نہ کریں یہ صورت برقرار رہے گی، جبکہ دھماکے کرنے کی صورت میں پابندیاں لگ جائیں گی۔ جو لوگ دھماکے کرنے کے حق میں تھے، ان کی دلیل تھی کہ اگر اب دھماکے نہ کئے گئے تو مستقبل میں پاکستان پر عالمی دبائو اس قدر بڑھ جائے گا کہ شائد ہم سے سب کچھ چھن جائے۔ قوم اور فوج کا مورال بڑھانا بھی ان کے پیش نظر تھا۔ آج ہم ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو دھماکے کرنے کی رائے زیادہ صائب اور درست لگتی ہے۔ پابندیاں لگیں، پھر حالات بدلنے سے ہٹ گئیں، پاکستان مگر آج بھی موثر ایٹمی طاقت ہے۔
وقت ہی سب سے بہتر فیصلہ کرتا ہے۔ وقت کا فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں گیا۔ انہوں نے درست وقت پر درست فیصلہ کیا اور قومی تاریخ میں اپنا نام ممتاز کرا لیا۔ یہ درست ہے کہ مجید نظامی مرحوم دھماکے کرنے کے زبردست حامی تھے، اپنے اخبار کے ذریعے انہوں نے بھرپور مہم بھی چلائی۔ کابینہ کے بہت سے ارکان نے دل وجاں سے حمایت کی۔ فوج بھی سپورٹ کر رہی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ پاپولر فیصلہ تھا، ایسا جس کی زبردست عوامی پزیرائی ہونا یقینی تھا۔ اس کے باوجود اگر میاں نواز شریف چاہتے اور ڈٹ جاتے تو دھماکے نہیں ہوسکتے تھے۔ میاں نواز شریف ایسا ماضی میں کر چکے تھے۔ پہلی خلیجی جنگ میں پاکستانی عوام کی غیر معمولی اکثریت(نوے پچانوے فیصد کے لگ بھگ)عراقی صدر صدام حسین کے ساتھ تھی، آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کھل کرصدام کی حمایت میں عاقبت نااندیشانہ بیانات دے رہے تھے۔ میاں نواز شریف نے اس وقت ایک غیر مقبول مگر ملک کے لئے درست فیصلہ کیا۔ عوامی دبائو، میڈیا میں لکھی جانے والی بہت سی تحریروں اور فوجی سربراہ کی رائے کو انہوں نے رد کیا اور صدام کے بجائے سعودی عرب، کویت وغیرہ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ وقت نے اس فیصلے کو درست ثابت کر دیا۔ اسی طرح ایٹمی دھماکہ کرنے والا فیصلہ درست نکلا۔
ایٹم بم بنانا دراصل پوری پاکستانی قوم کی کامیابی اور اجتماعی قومی دانش کا مظہر ہے۔ بھٹو صاحب کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انہوں نے پروگرام کی ابتدا کی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو واپس جانے سے روکا، انہیں یہ ذمہ داری سونپی۔ یہ بھٹو کا حق ہے، انہیں ملناچاہیے۔ اسی طرح جنرل ضیاالحق کو ایٹم بم بنانے کا اصل کریڈٹ ملنا چاہیے۔ اگر ضیاء نہ ہوتے تو پاکستان کبھی ایٹم بم نہیں بنا سکتا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو فری ہینڈ دیا، دل کھول کر فنڈز دئیے، تمام تر عالمی دبائو برداشت کیا اور افغان جنگ کی سپورٹ کے بدلے ایٹمی پروگرام کے تسلسل کو یقینی بنایا۔ ضیا کی وجہ سے سی آئی اے نے ایٹمی پروگرام سے اپنی آنکھیں بند رکھیں، ورنہ پاکستان پر بہت سی پابندیاں لگ سکتی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے میزائل پروگرام کو آگے بڑھایا۔ یہ ان کا کریڈٹ ہے، جو ضروردینا چاہیے۔ شمالی کوریا وہ گئیں اور پاکستان کو وہ کچھ حاصل ہوا، جس کی تفصیل کبھی بیان نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ نواز شریف صاحب کو ملا۔ ایٹم بم بنانے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کردار بھی کلیدی ہے۔ وہ اور ان کی ٹیم نے یہ معجزہ تخلیق کیا۔ اس پروگرام میں کام کرنے والے سائنس دان، انجینئر اور فنی ماہرین میں سے بہت سوں کے نام کبھی قوم نہیں جان سکی۔ یہ unsung ہیروز ہیں، جن کے کبھی گیت نہیں گائے گئے، بہت سوں کو ایوارڈ بھی نہیں ملا۔ اللہ کے ہاں ان سب کا اجر محفوظ ہے۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک کو انہوں نے ایٹمی قوت بنایا۔ سیاسی مخالفت یا پسند ناپسند اپنی جگہ مگر دیانت داری کا تقاضا ہے کہ ہم ہر ایک کو اس کا جائز حق دیں۔