مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کی زندگی میں صر ف ایک دلچسپی ہوتی ہے یا جو صرف ایک ہی مضمون یا موضوع کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ یہ کسی محقق کے لئے شائد اچھی بات ہو کہ ایک ہی مضمون میں سینکڑوں، ہزاروں گھنٹے گزارنے والے لوگ اس میں غیر معمولی مہارت حاصل کر لیتے ہیں، اگرچہ وہ محقق جس کا علم وسیع ہو اور اپنے خاص شعبہ کے علاوہ بھی کچھ دوسرے مضامین کے بارے میں عمومی علم ہو، وہ زیادہ بہتر علمی کام کر سکتا ہے۔ میری اپنی دلچسپی کئی موضوعات میں رہتی ہے۔ ادب خاص کر فکشن میری دلچسپی کا موضوع ہے۔ کہانی ہر فارمیٹ میں اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ناول سے خاص دلچسپی ہے، اردو میں شائع ہونے والے ہر قابل ذکر ناول کو پڑھنے کی کوشش کی۔ اب زیادہ وقت نہیں ملتا، اس لئے غیرملکی ادب کو اردو تراجم کے ذریعے پڑھ لیتے ہیں۔ اردو ترجمہ کا معیار زیادہ اچھا نہیں، اکا دکا ہی اچھے مترجم موجود ہیں، تاہم اصل تخلیق کا کچھ نہ کچھ حصہ پہنچ ہی جاتا ہے۔ مشہور ناولوں پر بننے والی فلمیں بھی دیکھ لیتا ہوں کہ یہ شارٹ کٹ ہے۔
نامور روسی ادیب ٹالسٹائی کے شاہکار ناول وار اینڈ پیس(جنگ اور امن) پر روسیوں نے چھ گھنٹے کی ایک فلم بنا رکھی ہے، اسے دیکھنے کے لئے وقت نہیں مل پا رہا، ایسا وقت جس میں مکمل یکسوئی ہو، کوئی مداخلت نہ کرے۔ اللہ نے چاہا تو کبھی نہ کبھی اس کی باری آ جائے گی۔ وار اینڈ پیس ناول دو تین بار پڑھا ہے۔ اسے پڑھناوسیع وعریض سمندروں کے سفر کے مترادف ہے۔ اردو میں اس کا شاندار ترجمہ شاہد حمید مرحوم نے کیا۔ دو جلدوں میں شائع ہوا، آج کل آئوٹ آف پرنٹ ہے۔ افسوس کہ ریڈنگ، لاہوروالوں کے پاس کئی برسوں سے مسودہ پڑا ہے، انہیں چھاپنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔ اس کا ایک آدھ ترجمہ اور بھی ہوا، مگر وہ اصلاً شاہد حمید صاحب کے ترجمہ کی تسہیل ہی ہے۔ دوستئوفسکی کا شاہکار ناول برادرز کرامازوف (کراما زوف برادران)کا ترجمہ بھی شاہد حمید صاحب نے کیا تھا۔ وہ بھی آئوٹ آف پرنٹ ہے۔ کوئی پبلشر اس ضخیم ناول کو چھاپنے کی جرات نہیں کر رہاکہ قارئین کی ناقدری کے باعث فروخت نہیں ہوسکے گا۔ پہلی بار اشفاق احمد صاحب نے ان ناولوں کی طرف متوجہ کیا تھا۔ ان سے پسندیدہ ناولوں کا پوچھا تو "وار اینڈ پیس "اور "برادرز کرامازوف" کا نام لیا۔
تاریخ سے باقاعدہ قسم کی دلچسپی رہی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے کوشش کی کہ تاریخ کے ا صل ماخذ والی کتابیں پڑھی جائیں۔ تصوف سے بھی دلچسپی ہے، اگرچہ عملی طور پر صوفی بننے کی ہمت نہیں۔ زمانہ طالب علمی میں دست شناسی سیکھنے کی کوشش کی، جو کچھ میسر ہوسکا، پڑھ ڈالا۔ اس زمانے میں ہاتھ دیکھنے کا جنون تھا، پھریہ شوق سرد پڑ گیاکہ اس کی محدودات (Limitations)کا اندازہ ہوگیا۔ مسٹری علوم کی طرف جانے کی کوشش نہیں کی، بس اس اندھیرے کنوئیں کے اوپر ہی سے جھانک کر پیچھے ہٹ گئے۔ فلسفہ البتہ ایک ایسا موضوع ہے جو خاصا سرکھپانے کے باوجود پلے نہیں پڑ سکا۔ آخر یہی سوچا کہ انگریز ایسے تو نہیں کہہ گئے اٹس ناٹ مائی کپ آف ٹی۔ فلسفہ بھی ہماری حصے کا معاملہ نہیں۔ نفسیات سے تھوڑی بہت دلچسپی رہی، اگر گھر والے سائنس کا طالب علم بنانے کے بجائے اپنی مرضی سے مضامین رکھنے دیتے تو نفسیات بطور مضمون ضرورپڑھتا، تب شائد انگریزی لٹریچر کا مضمون بھی منتخب کرتا۔
والدہ کی علالت کے باعث طب کے بارے میں جاننے کی خواہش پیدا ہوئی۔ انہیں ڈیمنشیا کا عارضہ لاحق تھا، اس کے بارے میں خاصا کچھ پڑھا۔ والد مرحوم کا انتقال اس سے خاصا پہلے دل کے دورے سے ہوا۔ تب یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ اس وقت دل کی بیماریوں کے حوالے سے مجھے اتنی معلومات ہوتیں، جتنی آج ہیں تو شائد ہم بہتر طریقے سے ان کی نگہداشت کر پاتے۔ والد شوگر اور انجائنا کے مریض تھے، مگر ان کا لائف سٹائل اور کھانے پینے کی عادتیں خوفناک حد تک صحت دشمن تھیں۔ ہمارے ہاں عام طور سے ایک قول دہرایا جاتا ہے کہ ہر ایک نے ایک دن مر جانا ہے، اس لئے اپنی مرضی کا کھانا پینا رکھا جائے، احتیاط کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کا نتیجہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیا۔ ہم نے خود بھی وہی غلطیاں کیں اور پھر بلڈپریشر، شوگر کے مریض بن گئے۔ ان بیماریوں کے بارے میں جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی تو کئی مغربی ویب سائٹس کھنگال ڈالیں۔ ذیابیطس یا شوگر کے بارے میں جاننے کے لئے امریکی ڈایابیٹک ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ (diabetes.org)اہم ہے، اسی طرح عمومی طور پر صحت کے بارے میں جاننے کے لئے میو کلینک (mayoclinic.org)بہترین ویب سائٹ ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو آپ کی زندگی بدل کر رکھ دے۔
سیاست اور کرنٹ افیئرز پر ہم لکھتے ہیں، اس حوالے سے خاصا کچھ پڑھنے، جاننے اور سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں پاور پالیٹیکس پر غور کرنے کی عادت ڈالی۔ عالمی قوتیں کیسے کام کرتی اور کس طرح ملک کے اندر طاقتور حلقے، مختلف قوتیں اور مافیاز سرگرم رہتے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے حوالے سے مغرب میں خاصا کچھ تحریری اور دستاویزی مواد میسر ہے۔ ہمارے ہاں تو صرف بریگیڈئر آئی اے ترمذی کی کتاب ہی دستیاب ہے، اس کے بارے میں بھی کہاجاتا ہے کہ خاصا مبالغہ آمیز چیزیں شامل کی گئیں۔
خفیہ اداروں کے لوگ گمنام ہیروہوتے ہیں، ان کا کام، ان کی قربانیاں اور جان کی بازی لگانے کے واقعات سامنے نہیں آ تے۔ اس کا اندازہ ہے کہ بہت کچھ سامنے لانا ممکن بھی نہیں۔ پاکستان نے کیسے ایٹم بم بنایا، یہ ہم آج بھی کھل کر نہیں بتا سکتے۔ اسی طرح پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکی دبائو کو کس طرح ہینڈل کیا اور اپنے مفادات پر حرف نہ آنے دیا، اس کی تفصیل بھی شائد ابھی دینا ممکن نہ ہو۔ اس کے باوجود خاصا کچھ ایسا سامنے آ سکتا ہے جو عوام کے لئے دلچسپی کا حامل ہو اور ان کا مورال بھی بلند کرنے کا باعث بنے۔ خفیہ اداروں سے ریٹائر ہونے والوں کو ایک خاص عرصہ (پانچ، دس یا پندرہ برس)بعد کتاب لکھنے کی اجازت ملنی چاہیے۔
امریکہ میں سی آئی اے کے کئی سابق سربراہوں نے کتابیں لکھی ہیں۔ خاصا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ امریکی کلاسیفائیڈ دستاویزات تیس برس کے بعد سامنے آ جاتی ہیں، ان کا مطالعہ بہت کچھ سمجھاتا ہے۔ را کے ایک سابق سربراہ کی کتاب میرے پاس ہے، ابھی پڑھ نہیں سکا۔ را کے بارے میں جاننے کی خواہش ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے حوالے سے بھی کچھ مواد سامنے آ چکا ہے۔ نیٹ فلیکس پر ایک دلچسپ دستاویزی فلم سیریز بھی موجود ہے، جس میں موساد کے لئے ریکروٹنگ اور اس کے مختلف آپریشنز کی تفصیل ملتی ہے۔ ایک دوست کے کہنے پر اسرائیل میں بنی ہوئی ایکشن سیریز فائودہ یا فوضہ (Fauda) دیکھی۔ اس میں فکشن ہی ہوگا، مگر اسرائیلی مائنڈ سیٹ کے بارے میں علم ہوتاہے۔ یہ ایک دلچسپ سیریزہے جس میں اسرائیلی ایجنٹ فلسطینی علاقوں میں کام کرتے ہیں۔ وہ بہت اچھی عربی بولتے اور اپنے حلیہ سے فلسطینی عرب ہی لگتے ہیں۔ عام طور پر ایسی فلمیں یا ڈرامہ سیریز یک طرفہ مواد دیتی ہیں، دشمن کو نالائق اور حقیر دکھایا جبکہ اپنی عظمت کے گیت گائے جاتے ہیں۔ فائودہ یا فوضہ قدرے مناسب ہے، اس میں حماس کے جنگجوئوں کو بھی سمارٹ دکھایاگیا، وہ کس طرح چالیں چلتے اور اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اگرچہ کم وبیش ہر کیس میں فاتح اسرائیلی ایجنٹ ہی ٹھیرتے ہیں۔ خیر اتنا حق تو ہمیں انہیں دینا چاہیے۔ کروڑوں ڈالر لگا کر ڈرامے بنائیں اور پھر خود کو بہتر بھی ثابت نہ کریں، یہ تو زیادتی ہے۔
موساد کے آپریشن کے حوالے سے ایک اہم واقعہ میونخ اولمپک (1972)کے دوران ہوا۔ اس میں ایک فلسطینی عسکریت پسند تنظیم بلیک ستمبر کے جنگجوئوں نے اولمپک ویلج میں گھس کر کئی اسرائیلی ایتھلیٹ اور کوچز کو یرغمال بنالیا۔ انہیں چھڑوانے کے آپریشن میں مغوی ہلاک ہوگئے۔ اس پر فلم بھی بنی ہے۔ موساد نے اس کے بعد بلیک ستمبر کے لوگوں کے خلاف آپریشن کیا۔ ایک خفیہ یونٹ اس کام کے لئے مختص کیا گیا، اس نے کئی مہینوں، برسوں تک ان کا تعاقب کیا اور یورپ کے مختلف شہروں میں انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعد میں خود موساد نے یہ سٹوریزمیڈیا میں لیک کرائیں۔ مقصد شائد یہ بتانا تھا کہ اسرائیلی اپنے دشمنوں کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے اور اس مقصد کے لئے کسی بھی انتہا تک جا سکتے ہیں۔ اس پر بھی ایک دستاویزی فلم سیریزبھی بنی ہے۔ ہمارے بلاگر دوست وسی بابا نے آج کل اپنے فارن میڈیا کے مطالعے میں اسرائیلی اخبارات کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مختلف ایشوز کو اسرائیلی کس انداز میں دیکھتے اور تفہیم کرتے ہیں، یہ دلچسپ کیس سٹڈی ہے۔ اسرائیلی اخبارات، فلموں اور ڈراموں سے ان کے سوچنے، سمجھنے کے انداز کا بھی کچھ حد تک اندازہ ہوجاتا ہے۔ اردو کی معروف ناول نگار نمرہ احمد نے اپنے مشہور ناول "حالِم "میں ایک فقرہ بار بار استعمال کیا ہے، "جو آپ جانتے ہیں، وہ آپ کو بچائے گا۔"
اسرائیل کے دشمن ہوں یا اس سے دوستی کے خواہاں ممالک، ان سب کو اسرائیلی مائنڈ سیٹ کو ضرور جاننا اور سمجھنا چاہیے۔ زندگی کی دوڑ میں، نشیب وفراز کے سفر میں جو آپ جانتے ہیں، وہی آپ کو بچاتا ہے۔