ہمارے ہاں ایک پسندیدہ مشغلہ کسی بھی معاملے کے بارے میں سازشی تھیوری گھڑ لینا ہے۔ معلوم نہیں یہ ہر زوال زدہ قوم کے ساتھ ہوتا ہے یا مسلمانوں نے اس میں خصوصی مہارت حاصل کی ہے؟ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے بنانے والوں نے جو خواب دیکھے اور عوام کو دکھائے، بعد میں یہاں کے حکمران اور خود قوم بھی ویسی کارکردگی دکھا نہ پائی۔ زوال کا ایک سفر ہے جورکنے کا نام نہیں لے رہا۔ رخ بدلا جا سکتا ہے۔ ترقی کی شاہراہ پر جانا مشکل نہیں، مگر اس میں محنت زیادہ لگتی ہے۔ دل وجاں سے کام کرنا پڑے گا، اس لئے لوگوں کوآسان طریقہ یہی لگتا ہے کہ اپنی غلطیوں، کمزوریوں اور نالائقیوں کی ذمہ داری کسی باہر والے پر ڈال دی جائے۔ یہود وہنود کی سازشوں کوذمہ دار ٹھیرایا جائے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں نہیں ہوتی رہیں۔ دنیا میں ہر ایک کا کوئی نہ کوئی مخالف یا دشمن ہوتا ہی ہے، وہ اسے نقصان پہنچانے کے درپے رہے گا۔ ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ جو کام ہم ٹھیک کر سکتے تھے، وہ بھی نہیں کر پائے۔ اس کی ذمہ داری قبول کرنے اور آئندہ کے لئے اسے درست طریقے سے کرنے کے بجائے ہم غلطی ہی کسی اور کے سرتھوپ دیتے ہیں۔ پنجابی محاورے کے مطابق کھوتا ہی کھو(کنوئیں )میں ڈال دیتے ہیں۔ اب کورونا کے حوالے سے بھی یہی ہونے لگا ہے۔ پہلے سوشل میڈیا پریہ تھیوریز چلنے لگیں کہ یہ بائیولوجیکل وار ہے، امریکہ نے چین میں یہ وائرس ڈالے ہیں، پھر جوابی وار کے طور پر ایک حلقے نے نئی تھیوری گھڑی کہ نہیں یہ چین نے کام ڈالا ہے، یورپ اور امریکہ بحران میں آ گیا ہے جبکہ چین تو اس سے نکل چکا ہے۔ کسی نے ایک اسرائیلی مذہبی عالم کی بات پھیلادی جس نے کہا کہ ہم جس وقت کا انتظار کر رہے تھے، وہ آ گیا ہے۔ یہ خبریں بھی اب چلنے لگی ہیں کہ فلاں فلم میں اتنے سال پہلے کورونا کا نام آیا تھا، کسی نے لکھا کہ فلاں ناول میں اتنا عرصہ قبل کورونا جیسی بیماری کا حوالہ کیسے دیا گیا؟ بعض پوسٹیں دیکھیں جن میں اسی نوے سال پہلے حکیم اجمل خان کی لکھی کسی کتاب میں وبائی انفلوئنزا کے بارے میں صفحہ لکھا ہے، گویا حالیہ کورونا کی بات کی ہو۔
اگلے روز ایک سابق سفارت کار کی ویڈیو بھی "مارکیٹ "میں آگئی۔ ان بھائی صاحب نے نت نئے شگوفے چھوڑے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جو سائنس کے استاد تھے، انہوں نے نائن الیون اور اسامہ بن لادن پر ایک عجیب وغریب سازشی تھیوریز سے لتھڑی ہوئی کتاب لکھ ماری۔ بندہ پوچھے کہ جو آپ کا سبجیکٹ ہے، اس پرتو پہلے کچھ پڑھ لو، کچھ ریسرچ کر کے لکھو۔ اپنے موضوع کو چھوڑ کر دوسروں کے چھابے میں ہاتھ مارنے والے ایسا ہی فکری انتشار پھیلاتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایسے"عالم فاضل" لوگ اقوام متحدہ میں ہماری نمائندگی کرتے رہے۔ حضرت کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا، صرف پیٹنٹ نمبر گنوائے، جن کی کوئی حیثیت نہیں۔ اسی وجہ سے عالمی سطح پر اس ویڈیو کو معمولی سی اہمیت بھی نہیں ملی، ورنہ سنسنی تو ہر اخبار، چینل کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کا کالم اور ایشو پر لکھنا تھا۔ سوچا کہ گھروں تک محدود اپنے جیسے دنیا دار فلم بیں شائقین کے لئے کچھ فلموں، ڈراموں، نیٹ فلیکس سیزنز کی باتیں ہوں۔ اسے موخر کرتے ہیں، آج کی نشست کورونا سازشی تھیوریز کی نذر:
کورونا وائرس لیبارٹری میں بنایا گیا
یہ سازشی تھیوری کئی حلقوں نے اڑائی، ان میں بعض ویسٹرن یوٹیوبر اور بلاگر بھی شامل تھے۔ سازشی نظریات کی مارکیٹ اچانک سے گرم ہونے کی ایک بڑی وجہ یوٹیوب اور فیس بک پیجز کا دھندا بھی ہے۔ یوٹیوب چینلز پر ہر چند سو یا ایک ہزاروزٹ کرنے والوں کو یوٹیوب کی طرف سے ایک ڈالر ملتا ہے، یعنی ایک پاکستانی یوٹیوب چینل (جو مونوٹائز ہوچکا ہو)، اس کی ویڈیو کو ایک لاکھ لوگوں نے دیکھا تو اس نے یوٹیوب سے ایک سو ڈالر اینٹھ لئے۔ اوورسیز وزیٹرز کی صورت میں یہ آمدنی بڑھ بھی جاتی ہے۔ یوٹیوب اس لئے پیسے دیتی ہے کہ وہ ان ویڈیوز پر چلنے والے اشتہارات سے کہیں زیادہ کمائی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے یوٹیوب پر خواہ مخواہ کے تنازعات اور بے بنیاد سنسنی خیز خبروں پر مبنی فیک ویڈیوزعام ملتی ہیں۔ وجہ صرف ریٹنگ لینا ہے۔ ہمارے بعض سابق کرکٹرز اچانک گرماگرم بیان داغ دیتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ریٹنگ کا ایشو ہے۔ شعیب اختر کی تندوتیزتبصرے والی ویڈیو ایک ملین دیکھی جائے تولاکھوں ان کے بینک اکائونٹ میں جائیں گے، ایسے میں پھرنرم یا معتدل لہجے میں بات کون کرے گا؟ یہ باتیں یوٹیوب پر جانے والوں کو سمجھنے اور جاننے کی ضرورت ہے۔ شروع میں یہ بھی کہا گیا کہ چینی شہر وہان کی کسی لیبارٹری سے وائرس حادثاتی طور پر باہر آگیا، جس سے تباہی پھیلی۔ ایسا اس لئے کہا گیا کہ جراسک پارک سے لے کئی وبائی امراض پر بنی کئی مشہور فلموں کی کہانی یہی ہے۔ فرینکسٹائن جیسے ناولوں میں بھی سائنس دان عفریت یا مونسٹر تخلیق کرتا ہے، جو بعد میں اسے ہی مار ڈالتا ہے۔ حالیہ کورونا وائرس کے بعد سائنس دان اس پہلو پر بھی ریسرچ کرتے رہے، وائرس کے نمونوں پر تجربات کرنے کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ لیبارٹری میں نہیں بنایا گیا بلکہ قدرتی عوامل کے نتیجے میں بناہے۔ پوری رپورٹ کالم میں نقل نہیں کی جاسکتی، مگر بے شمار جگہ پڑی ہے۔ جسے دلچسپی ہو وہ گوگل کر کے تفصیل پڑھ لے۔
امریکہ نے چین کے خلاف سازش کی یہ بات ایک چینی اہلکار نے ٹوئیٹ ضرور کی، مگر بعد میں اسے ہٹا دیا۔ لگتا ہے کہ چین میں بھی ہمارے شیخ رشید جیسے بادشاہ لوگ موجود ہیں، بغیر ثبوت، دلیل کے جو من میں آیا کہہ ڈالا، پھر شرمندہ ہونا پڑا۔ اگر چین کے پاس ثبوت ہوتے کہ یہ امریکہ نے سازش کی ہے تو اس کے پاس سنہری موقعہ تھا کہ دنیا بھر میں امریکہ کو بدنام کیا جائے۔ اٹلی، سپین، انگلینڈ، فرانس اور دیگر یورپی ممالک جس مصیبت میں پھنسے ہیں، انہیں پتہ چل جائے کہ یہ فتنہ امریکیوں نے پیدا کیا تو امریکہ کے خلاف کس قدر شدید عوامی ردعمل ہوگا؟ چین کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے اشارتاً بھی ایسی بات نہیں کی۔ اس کے برعکس چین امریکہ کی مدد کے لئے ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھیج رہا ہے۔ یاد رکھیں کہ جس کے خلاف سازش ہو، وہ لازمی چیخے گا۔ یہ کیسی سازش ہے کہ چینیوں سے زیادہ پاکستانی اس کا بھانڈا پھوڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ کورونا کا نام کئی سال پرانی کتاب میں کیوں آیا؟
یہ بات بار بار کہی جا رہی ہے کہ بیس سال پہلے فلاں ناول میں کورونا کا نام لکھا گیا، فلاں فلاں کورین یا کسی دوسرے ملک کی فلم میں یہ کہا گیا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی لوگو! کورونا مختلف وائرس کا گروپ ہے جو ممالیہ (دودھ پلانے والے جانداروں )اور پرندوں میں بیماری پیدا کرتے ہیں۔ انسانوں میں زیادہ تر نظام تنفس (سانس لینے کا سسٹم)متاثر ہوتا ہے جبکہ گائے اور سور میں اس سے ڈائریا پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں اس سے پہلے کئی قسم کے کورونا وائرس آ چکے ہیں۔ سائنس دانوں نے سات نمایاں قسمیں دریافت کی ہیں، ان میں سے چار مہلک نہیں، جبکہ تین خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔ آج سے اٹھارہ سال پہلے سارس (SARS-CoV) کے نام سے ایک مہلک کورونا وائرس آیا تھا، جس نے دنیا بھر میں سنسنی پھیلائی تھی، اس سے2002-2004 کے دوران لگ بھگ پونے آٹھ سو لوگ ہلاک ہوئے۔ آٹھ سال پہلے2012ء میں ایک اورکورونا وائرس آیا، اسے مڈل ایسٹ ریسپریٹری سنڈروم(MERS-CoV) کہتے ہیں، اس سے چار سو کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔ تین سال بعدجنوبی کوریا میں اس کا دوبارہ حملہ ہوا، چھتیس افراد جانبر نہ ہوسکے۔ 2018ء میں عرب ممالک میں اس کا حملہ دیکھا گیا، خوش قسمتی سے یہ عالمی وبا نہ بن سکا، تاہم اکتالیس افراد جان ہار بیٹھے۔ حالیہ حملہ دراصل کورونا وائرس کی نئی شکل کا ہے جسے COVID-19 یاSARS-CoV-2 کا نام دیا گیا ہے۔ ویسے تو اس سے ملتے جلتے انفلوئنز صدیوں سے آتے رہے ہیں، ان میں سے بعض جیسے ہسپانوی انفلوئنزا لاکھوں اموات کا باعث بنا۔ اس لئے کسی پرانی کتاب، ناول یا فلم میں کورونا کا نام آنا فطری اور قابل فہم ہے۔ حکیم اجمل خان یا کسی دوسری پرانی طب کی کتاب میں بھی اسی وجہ سے اس سے ملتی جلتی علامات ملیں گی۔ تھوڑی مزید تحقیق کی جائے تو ممکن ہے کسی پرانے یونانی حکیم کی کتاب میں بھی اسی طرح کی بیماری کا سراغ مل جائے۔ حالیہ وبائی حملہ نئے کورونا کا ہے، یہ زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔ سائنس دان اس پر مسلسل ریسرچ کرر ہے ہیں، اس کا علاج، ویکسین وغیرہ بھی ایجاد ہو ہی جائے گی۔ اس طرح کے امراض میں اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پیشنٹ زیرو یعنی پہلے مریض کا سراغ نہیں ملتا۔ اکثر وہ بغیر تشخیص ہوئے ہی مر جاتا ہے۔ پہلے مریض کا علم ہوجائے، تب یہ پتہ چلانا آسان ہوتا ہے کہ اسے کہاں سے یہ وائرس چمٹا؟ کون سی ایسی غذا کھائی یا کسی خاص جگہ گیا، کوئی بیماری بگڑ گئی وغیرہ وغیرہ۔ صاحبو! خلاصہ یہی ہے کہ سازشیں ہوتی رہتی ہیں، مگر ہر معاملے میں سازش نہ ڈھونڈ لیا کرو۔ یوں سازش سازش کھیلتے رہے تو پھر مستقبل میں کسی حقیقی سازش کی بات کوبھی مذاق میں اڑا دیا جائے گا۔