ارادہ تھا کہ آج اپنی شوگر کہانی کا دوسرا حصہ لکھ ڈالوں گا، صبح خبر آئی کہ جوائے لینڈ فلم جس پر حکومت پاکستان نے پابندی لگا دی تھی، اس پر نظرثانی کے لئے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی ہے۔ اس خبر نے مجبور کیا کہ پہلے اس فلم پر لکھا جائے۔
جوائے لینڈ ایک پاکستانی ڈائریکٹر صائم صادق کی بنائی ہوئی پنجابی فلم ہے، انہی صاحب نے اس کی کہانی بھی لکھی ہے اور اس کی ایڈیٹنگ میں بھی شامل رہے ہیں۔ بیشتر فنکار پاکستانی ہیں۔ مرکزی کردار علی جونیجو نے ادا کیا دوسرا مرکزی کردار الینہ خان نامی ایک ٹرانس جینڈر نے ادا کیا ہے، جبکہ ٹی وی کی معروف اداکارہ ثانیہ سعید اور ثروت گیلانی کے بھی اہم کردار ہیں، راستی فاروق نے بھی اہم کام کیا۔
اس کے پروڈیوسروں کی اچھی خاصی طویل فہرست ہے۔ نودس لوگ ہیں۔ سرمد کھوسٹ، اپوروا گروچارن(یہ لانس اینجلس میں مقیم انڈین نژادامریکی پروڈیوسر ہیں)، ثناجعفری، اولیوررج، لارین مان، کیتھیرین برنسٹ، رمن بہرانی وغیرہ۔ عام طور پر کسی فلم کے پروڈیوسر اتنے لوگ نہیں ہوتے، سرمد کھوسٹ تو خیر پاکستانی اداکار اور ہدایت کار ہیں، منٹو فلم انہوں نے بنائی تھی، دیگر پروڈیوسرز میں سے بعض عالمی سطح پر اچھے خاصے معروف ہیں۔ حیران کن طور پر یہ سب معروف لوگ اس چھوٹی سی پاکستانی پنجابی فلم کے لئے اکھٹے ہوئے ہیں، جس کی زبان بھی وہ نہیں سمجھ سکتے۔ لگتا ہے ان سب نے "نیکی "کا کام سمجھ کر اس فلم میں حصہ ڈالا۔ خبروں کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے بھی اس فلم کے حوالے سے اپنا کردار ادا کیا۔ وہ ایگزیکٹو پروڈیوسر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔
یہ فلم پاکستان میں نومبر کے دوسرے عشرے میں سینما ہائوسز میں لگانی تھی۔ فلم کے خلاف احتجاج کی ایک لہر سوشل میڈیا پر اٹھی، تنقید ہوئی تو مرکزی سنسر بورڈ نے خلاف رائے دی اور حکومت نے پابندی لگا دی۔ گزشتہ روز خبر آئی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اس کا جائزہ لینے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی ہے۔ جب حکومت پابندی لگا چکی تھی تو پھر اس پر نظرثانی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ مختلف این جی اوز کے دبائو اور لبرل عناصر کی کمپین کے نتیجے میں اس فلم کو نمائش کی اجازت دینے کاراستہ نکالا جا رہا ہے۔
یہ فلم بنیادی طور پر ایک ایل جی بی ٹی پلس (LGBT+)فلم ہے۔ جو لوگ اس اصطلاح کو نہیں جانتے، وہ سمجھ لیں کہ اس سے مراد لیزبین، گے، بائی سیکوشیل، ٹرانس جینڈر ہے، اب اس ترکیب میں اضافہ ہوچکا ہے، Q سے مراد کوئیر(Queer)ہے۔ آسان لفظوں میں کوئیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنی جسمانی روپ سے مطمئن نہیں۔ قدرت نے انہیں مرد بنایا مگر خود کو عورت سمجھتے ہیں، اسی طرح کہیں پر عورت ہے مگر وہ خود کو مرد سمجھتی اور جسمانی طور پر بھی ویسا بننا چاہتی ہے۔ فلم کی جھلک، موضوع اور فنکاروں کے انٹرویوزسے صاف ظاہر ہے کہ زیادہ فوکس ایک ٹرانس جینڈر کی لو لائف اورسیکشوئل لائف پر ہی ہے۔
فلم میں ایک روایتی گھرانہ دکھایا، جس کا سربراہ ایک معذور مگر سخت گیر رجعت پسند والد رانا امان اللہ ہے۔ عثمان پیرزادہ کے بھائی سلمان پیرزادہ نے یہ کردار ادا کیا۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے بیٹے جلد اسے پوتے کا تحفہ دیں۔ رانا امان کا چھوٹا بیٹا حیدر (اداکارعلی جونیجو)شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک ٹرانس جینڈر (خواجہ سرا ڈانسر)پر عاشق ہوجاتا ہے۔ یوں فلم اس ٹرانس جینڈر(الینہ خان)کے مسائل، اس کی لو لائف اور ہیرو کے ساتھ اس کے(فزیکل) رومانس کے گرد گھومتی ہے۔ کہانی میں دیگر خواجہ سرائوں کے کردار، ان کی آپس کی لڑائیاں، چشمک وغیرہ بھی دکھائی گئی۔ کانز فلم فیسٹول میں اسے کوئیر پام ایوارڈ ملا ہے۔ یہ ایوارڈہم جنس پرستی/مخنث/ٹرانس جینڈرموضوعات پر فلموں کودیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا دیا جانا بذات خود اس کا ثبوت ہے کہ یہ ایل جی بی ٹی فلم ہے اور یہ مین سٹریم موضوع کی فلم نہیں۔
میرے خیال میں فلم جوائے لینڈ کی پاکستانی سینما ہائوسز میں نمائش پر پابندی لگنی چاہیے۔ یہ فلم اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کی بنا پر ایسی نہیں کہ اسے سینمائوں میں لگایا جائے۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔
یہ فلم اور اس کا موضوع پاکستانی سماج کے بنیادی فیبرک کے خلاف ہے۔ ہمارا سماج ایک مشرقی اسلامی (Eastern Islamic)مزاج رکھتا ہے۔ اس کے کچھ تقاضے ہیں۔ یہاں بعض چیزیں معروف ہیں، عرب جسے عرف کہتے ہیں۔ اسلام، مشرقی تہذیب، شرم وحیا، تحفظ فروج (عصمت کی حفاظت)ہماری تہذیب کے بنیادی اجزا ہیں۔ حیا ویسے بھی حدیث مبارکہ کے مطابق اسلامی تہذیب کا جوہر ہے۔
ہمارے ہاں ہم جنس پرستی سخت غیر اخلاقی بات سمجھی جاتی ہے اور قانونی طور پر جرم ہے۔ مغربی تہذیب اور اب بھارتی تہذیب میں ہم جنس پرستی، اپنی مرضی سے جسمانی تعلق قائم رکھنا، ماورائے شادی جسمانی تعلق، کسی قانونی بندھن کے بغیر اکھٹا رہنا(Live in Relation)عام ہے۔ وہاں قانون سازی کے بعد یہ سب فطری اور نارمل چیزیں بنا دی گئی ہیں۔ بھارت میں چند سال پہلے تک ہم جنس پرستی پر سزا تھی، اب وہاں قانون بدل گیا ہے، کوئی پابندی نہیں رہی۔ پاکستان میں ایسا نہیں۔ ہمارا مذہب اس حوالے سے بہت واضح اور غیر مبہم ہے، یہ سب غیر فطری اور گناہ کبیرہ کے درجے میں ہیں۔ ہمارے سماج میں اس کے لئے سخت مزاحمت موجود ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمارا معاشرہ فرشتوں کا ہے، بہرحال یہاں انسان رہتے ہیں۔ گناہ بھی ہوتے ہیں، قوانین کی خلاف ورزی بھی، مگر یہ حدود وقیود برقرار ہیں اور انہیں رہنا چاہیے۔ اگر ختم ہوئیں تو یہ برائیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ سماج میں یہ رکاوٹ یا بیرئر کا کام دے رہی ہیں۔ ہمارے ہاں غیر فطری تعلق قائم ہونے کے بعض واقعات ہوتے ہیں، مگر ان کی نوعیت مختلف ہے، یہ مغرب کے "گے کلچر"جیسی ہرگز نہیں۔ سماج مجموعی طور پر اسے غلط سمجھتا ہے۔
پاکستان ایک بڑی آبادی والا ملک ہے۔ اتنے بڑے ملک میں ٹرانس جینڈر، خواجہ سرا وغیرہ بمشکل چند ہزار ہوں گے، یہ ایک فی صد بھی نہیں بنتا۔ اس لئے ٹرانس جینڈر رائٹس اور ایشو ز وغیرہ محض این جی اوز کا ایجنڈہ اور فارن فنڈنگ جسٹی فائی کرنے کا ایک طریقہ ہی ہے۔ لوگوں کے بڑے مسائل دوسرے ہیں، مگر چونکہ ان کے لئے فارن فنڈنگ میسر نہیں، اس لئے ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ذہین دماغ ادھرآنے کی زحمت نہیں کرتے۔ جیسے یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ کئی ملین بلکہ کروڑوں میں بچے ناکافی غذا ملنے کے باعث دماغی طور پر کمزور اور سلو ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے ایشو پر کبھی کوئی ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھیں گے، حالانکہ اس پر آگہی بڑھانے سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔
ہمارے ہاں خواجہ سرائوں کے لئے جینوئن ہمدردی پیدا ہوچکی ہے۔ الخدمت، اخوت، غزالی ٹرسٹ سکول جیسی معروف سماجی تنظیمیں جن کی قیادت مذہبی لوگ ہی کر رہے ہیں، وہ خواجہ سرائوں کے لئے کئی پراجیکٹ شروع کر چکے ہیں۔ ان کے لئے قانون سازی ہوئی ہے۔ افسوس کہ مغربی سٹائل کی ٹرانس جینڈر موومنٹ والے اپنے الٹرا لبرل ایجنڈے کے باعث حقیقی خواجہ سرا کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ جوائے لینڈ جیسی فلم نام نہاد ٹرانس جینڈرزکی سوچ کی نمائندہ ہے جو اپنی جنسی خواہشات سے مغلوب ہو کر سب کچھ تلپٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ویسے بھی جوائے لینڈ ایک آف بیٹ (Off Beat)فلم ہے، اس کا موضوع اور ٹریٹمنٹ مین سٹریم نہیں اور نہ ہی یہ عام فلم بینوں کے لئے ہے۔ قوی امکانات ہیں کہ سینماہائوسز میں اس کی نمائش شدیدعوامی ردعمل کا باعث بنے۔ ایسی کلٹ فلمیں محدود حلقے کے لئے ہوتی ہیں، دلچسپی رکھنے والے اسے اوٹی ٹی فورم پر یا یوٹیوب وغیرہ کے ذریعے دیکھ لیں گے۔ انہیں سینما ہائوس میں لگانے کی اجازت دینا LGBTکے پورے تصور اور" کوئیر" موضوعات کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
جوائے لینڈ جیسی فلمیں دراصل سماج میں موجود بیرئر توڑنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ سینما میں نمائش اس موضوع کو نارمل اور عام بنانے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔ فلم دیکھنے والے جانتے ہیں کہ اسی انداز میں برسوں پہلے بھارت میں ایک فلم فائر بنائی گئی، شبانہ اعظمی نے اس میں کام کیا۔ پھر مشہور پروڈیوسر کرن جوہر نے جو خود مبینہ طور پر "گے "ہے، اس نے ان موضوعات پر کئی فلمیں بنائیں، ٹی وی ڈرامے بھی۔ بھارتی سماج میں بیرئر ٹوٹتے گئے، حتیٰ کہ آج وہاں یہ سب نارمل، عام اور قانونی طور پر جائز ہوچکا ہے۔
ہر وہ شخص جو پاکستان میں LGBTاور ٹرانس جینڈرز کے بڑھتے رجحان کے آگے بند باندھنا چاہتا ہے۔ وہ سماج میں موجود بیرئرز برقرار رکھنے کا خواہش مند ہے، اسے جوائے لینڈ کی نمائش کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو عوامی جذبات اور عوامی ردعمل کا اندازہ لگاکر پابندی برقرار رکھنی چاہیے۔ مسلم لیگ ن میں موجود لبرل کیمپ پچھلے چند برسوں میں زیادہ طاقتور ہوا ہے، ن لیگ کو مگر ووٹ عوام سے لینے ہیں، ان لبرلز سے نہیں۔ اپنی سیاست کو اپنے ہاتھوں دفن نہ کریں۔
تحریک انصاف کو بھی عوامی جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ عمران خان جس ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، اس میں جوائے لینڈ جیسی ایل جی بی ٹی /کوئیر فلموں کی کوئی گنجائش نہیں۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق خان نے پہلے بھی بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی، انہیں پھر متحرک ہونا پڑے گا۔ ویسے یہ کسی ایک جماعت کا نہیں، ہم عوام کا مشترکہ مسئلہ ہے، اس کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔