Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Imran Khan Ki Kamyabi Populism Ki Wajah Se Thi?

Kya Imran Khan Ki Kamyabi Populism Ki Wajah Se Thi?

عمران خان کو وزیراعظم بنے پونے دو سال ہوچکے ہیں، مگر ان کی سیاسی کامیابی آج بھی تجزیہ نگاروں کو تجزیہ کرنے پر اکساتی ہے۔ ہمارے دانشور دوستوں کے خیال میں عمران خان نے پاپولزم(Populism) کو استعمال کر کے یہ کامیابی استعمال کی، اس حوالے سے پوسٹ ٹروتھ (Post Truth)کی ترکیب بھی برتی جاتی ہے۔ پاپولزم سے مراد ایسی سیاست ہے جس میں عوام یا کسی عوامی گروہ کی محرومیوں یا شکایات کو جارحانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے سیاسی کامیابی حاصل کی جاتی ہے، پاپولسٹ سیاستدان کئی بار اس طبقے سے تعلق نہیں رکھتا، مگر وہ اس طبقے کا نمائندہ بن جاتا ہے۔ پوسٹ ٹرتھ بنیادی طور پر منفی اصطلاح ہے۔ کسی خاص بیانئے یا نعروں کو یوں استعمال کرناکہ وہ سچ نہ ہوتے ہوئے بھی سچ لگیں، پوسٹ ٹرتھ میں سازشی تھیوریز بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ مقصد صرف الیکشن جیتنا ہوتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں دنیا بھر میں پاپولزم کی ایک لہر آئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں صدارتی الیکشن جیتا تو انہیں پاپولزم لیڈر کہا گیا۔ بھارت میں نریندر مودی کی جیت اوربرطانیہ میں بورس جانسن کی کامیابی کو بھی پاپولزم کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ مودی نے اینٹی مسلم، شدت پسندانہ ہندو سوچ کوہوا دی جبکہ بورس جانسن نے برطانوی عوام کو بریگزٹ کی صورت میں سنہرے خواب دکھائے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں عمران خان کی جیت میں بھی یہی عوامل کارفرما ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو عمران خان کی کامیابی کو کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے سے منسلک کرتے ہیں، ان کے خیال میں کرکٹر عمران خان کی نوجوانوں میں مقبولیت سے انہیں سیاست میں فائدہ پہنچا۔

ہمارے خیال میں یہ تینوں فکری مغالطے ہیں۔ پاپولزم یا پاپولسٹ ٹرینڈ دنیا میں موجود ہیں، پاکستانی تاریخ میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ جو شخص ہمیں پسند نہیں، ہم اسے اس خانے میں ڈال دیں۔ یہ تجزیہ کی خامی اورضرورت سے زیادہ سادہ لوحی( اوور سمپلی فکیشن )ہوگی۔ ویسے تو ٹرمپ کی کامیابی کو بھی صرف پاپولزم نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کی ڈرامائی کامیابی کے پیچھے بہت سے فیکٹرز کام کر رہے ہوتے ہیں، بعض اوقات کئی زیریں لہریں چل رہی ہوتی ہیں، مبصرین ان کا ادراک نہیں کر پاتے۔ ٹرمپ کی کامیابی کے پیچھے ایک فیکٹر ڈیموکریٹ لیڈروں کو امریکی عوام کو مطمئن نہ کرنا ہیاوباما اور ہیلری کلنٹن کی نچلے طبقات کے دلوں کو نہ چھونے والی پالیسیوں کی وجہ سے خلا پیدا ہوا، ٹرمپ نے اس خلا میں قدم رکھااور میدان مار لیا۔ ٹرمپ نے ان عام امریکیوں کے جذبات کا درست اندازہ لگایا، جنہیں دنیا بھرمیں امریکی کامیابیوں سے زیادہ اپنی ملازمتوں اور بہتر معیشت سے غرض تھا۔ نریندر مودی کو میں سخت ناپسند کرتا ہوں، مگر اس کی کامیابی میں بھی کئی اہم فیکٹر شامل تھے۔ گجرات میں مودی کی گڈ گورننس نے اس کا امیج بنایا۔ کانگریس کی ناکام، نکمی پالیسیوں نے بی جے پی کی کامیابی کی راہ ہموار کی، کارپوریٹ ورلڈ کی بھرپور سپورٹ نے معاملہ مزید آسان کر دیا۔ مودی کی جیت دراصل راہول گاندھی کی شکست ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ راہول کی شکست ہی سے مودی کی جیت کا راستہ نکلا۔ یہ صرف پاپولزم نہیں تھا۔ جگہ کی کمی ہے، ورنہ برطانوی سیاست پر بھی بات کرتا۔

پاکستانی سیاست میں پاپولزم نیا نہیں۔ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان میں اسی بنیاد پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بھٹو صاحب کی کامیابی میں بھی روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے کا بڑا کردار تھا۔ انہوں نے نچلے طبقے کی محرومیوں کو استعمال کیا۔ ملیں مزدوروں کو دینے، زمینیں مزارعوں میں بانٹ دینے کے نعرے لگائے اور مغربی پاکستان میں جیت گئے۔ مختلف اوقات میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی پاپولسٹ نعرے استعمال کرتے رہے۔ جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ کیا تھا؟ میاں نواز شریف نے بی بی کے خلاف کامیابی نظریے کی بنیاد پر نہیں حاصل کی۔ وہ پنجاب کی عصبیت کو استعمال کرتے رہے، بی بی کو سیکورٹی رسک قرار دیا، ان کا مذہب مخالف امیج بنایا۔ الطاف حسین پاپولسٹ تھے، لسانی سیاست کر کے لیڈر بنے۔ بی بی دنیا سے چلی گئی ہیں، ان کی موت کا دلی دکھ ہے۔ ان کی آخری تقریر والی خوش وخرم، دمکتی، مسکراتی تصویر بھلانا آسان نہیں۔ بی بی کی سیاست کا اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ جب بھی ضرورت پڑی، انہوں نے بلاججھک سندھ کارڈ استعمال کیا۔

عمران خان کے حوالے سے ایک گھسا پٹا مغالطہ تواب ختم ہوجانا چاہیے کہ ان کے ورلڈ کپ جیتنے یا سپورٹس ہیرو ہونے سے سیاسی کامیابی ملی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ عمران خان نے 92ء میں ورلڈ کپ جیتا۔ چار سال بعد تحریک انصاف بنائی، اگلے سال الیکشن لڑا اور بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ ایک بھی نشست نہیں مل سکی۔ ملک کا مقبول ترین کرکٹر جس نے صرف پانچ سال پہلے ورلڈ کپ جیتا، شوکت خانم ہسپتال بنا یا، وہ اس وقت پچاس سال سے کم عمر کا تھا، ظاہر ہے آج کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ جوان، زیادہ خوش شکل۔ اس کے باوجود لاہور جیسے شہر سے چند ہزار ووٹ مل پائے۔ پانچ سال بعد 2002ء میں الیکشن ہوئے، عمران خان پھر الیکشن لڑا، شکست ہوئی، بمشکل میانوالی سے ایک نشست جیت پایا۔ اس لئے یہ مِتھ تو ختم ہوئی کہ ورلڈ کپ جیتنا یا مقبول کھلاڑی ہونا سیاست میں کامیابی دلواتا ہے۔ اگر شاہد آفریدی سیاست میں آیا تو کم وبیش یہی نتیجہ نکلے گا۔ ٹکٹ اچھا مل گیا تو شائد ایک آدھ نشست جیت جائے، بس۔

عمران خان کی کامیابی میں تین چار عوامل فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ سب سے اہم عمران خان کی استقامت اور کریڈیبلٹی ہے۔ سیاست کے جوہڑ میں رہ کر بھی وہ نیک نام اور صاف رہا۔ جنرل مشرف کا ساتھ دیا، مگراس بات پر الگ ہوا کہ چودھریوں کو کیوں ملایا جا رہا ہے۔ یہ سیاسی حماقت ہوگی، مگر بہرحال یہ عمران خان کے حق میں گئی۔ اس نے اقتدار یا وزارت کی خاطر کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ عمران خان کو ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ دیگر سیاستدانوں کے برعکس اس پر کوئی بیگج یا بوجھ نہیں۔ وہ کسی خاص برادری، لسانی کمیونٹی، کسی معاشی گروپ کا نمائندہ نہیں ہے۔ اس کا نقصان بھی ہوتا ہے، مگر فائدہ یہ کہ دیگر گروپوں کی عصبیت اور مخالفت بھی آڑے نہیں آتی۔ عمران خان کی فیملی کا تعلق میانوالی کے نیازیوں سے ہے، مگر اس کی کابینہ، جماعت میں نیازی ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ والد سرائیکی بولتے تھے، مگر وہ عملی طور پر سرائیکی نہیں۔ وہ لاہور میں پلا بڑھا، اس لحاظ سے پنجابی ہے، مگر پنجابی عصبیت سے عاری، پنجاب کی تقسیم اس کا ایشو نہیں۔ اس کی فیملی فوجی نہیں، مگر فوج مخالف بھی نہیں رہی۔ وہ زمین دار ہے نہ صنعت کار نہ تاجر۔ ان تینوں طبقات کے اپنے اپنے فوائد، مگر ان سے زیادہ بیگیج ہیں، نواز شریف، آصف زرداری، چودھریوں، جہانگیر ترین وغیرہ کو یہ بوجھ اٹھانے پڑے۔ عمران خان کا آج بھی سب سے بڑا اثاثہ یہ ہے کہ اس پر کرپشن کرنے، وزیر بنانے اور ٹرانسفر پوسٹنگ کے نام پر پیسے پکڑنے کا کوئی الزام نہیں۔ جھوٹا الزام تک نہیں۔ وہ پاک بھارت کرکٹ کے حوالے سے نیشنلسٹ ہے، بھارت کو جو اپنا حریف سمجھتا اور اپنی ٹیم کو اس سے آگے لے جانا چاہتا تھا۔ یہ فیکٹر اسے اسٹیبلشمنٹ کے قریب لے گیا۔

دوسرا بڑا فیکٹر عدلیہ کی بحالی کی تحریک ہے۔ اس نے ملکی منظرنامہ تبدیل کر دیا۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس خاص طور سے متاثر ہوئی۔ سیاست میں ان کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اخبار میں سیاسی کالم اور تجزیے پڑھنے والوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی۔ نیوز چینلزتیسرا اہم فیکٹر تھے۔ عوامی حلقوں کو بہت کچھ براہ راست سننے اور سمجھنے کا موقعہ ملا۔ عمران خان کی کامیابی میں اس نے بڑا حصہ ڈالا۔ ان سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کی مک مکا سیاست کا ہے۔ 2008 سے 2013ء تک کے پانچ برسوں میں یہ واضح ہوگیا کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے آپس میں باریاں بانٹ لی ہیں اور وہ فرینڈلی اپوزیشن کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ اس قدر بھونڈے انداز سے کیا کہ پڑھے لکھے حلقوں کو خاص طور سے اپنی بے عزتی اور توہین محسوس ہوئی۔ عمران خان نے اس عوامی احتجاج اور ردعمل کا فائدہ اٹھایا۔ جو خلا دونوں بڑی جماعتوں نے پیدا کیا، اسے خان نے پر کیا۔ تبدیلی کا نعرہ اس وقت پاپولرنعرہ نہیں تھا۔ کرپشن کے الزامات پاکستانی تاریخ میں اتنی بار لگ چکے ہیں کہ وہ اپنا اثر کھو چکے تھے۔ کرپشن پاکستان میں پاپولر نعرہ نہیں تھا۔ اسے عمران خان نے پاپولر بنایا۔ الیکشن دھاندلی 77ء کے بعد سے کبھی موثر ایشو نہیں رہا، 2013ء کے الیکشن کے بعد عمران خان نے سے بھی پاپولر ایشو بنا ڈالا۔

عمران خان نے جو بلند وبانگ دعوے کئے تھے، ان پر پورا نہیں اتر سکا۔ پہلے دو برسوں میں اسے کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک بڑا حلقہ اس سے مایوس بھی ہوا، اگرچہ اس کے حامی ابھی ساتھ جڑے ہیں۔ عمران خان کے پاس وقت ہے، ممکن ہے وہ کچھ کر دکھائے، ممکن ہے وہ ناکام ہوجائے۔ اس کا مگریہ مطلب نہیں کہ اس کی کامیابی کا درست تجزیہ نہ کیا جائے۔ پاپولزم اور پوسٹ ٹروتھ کے ترازو میں عمران خان کو تولناتصویر کے صرف چند ادھورے ٹکڑے جوڑنے کے مترادف ہے۔ مکمل تصویر کے لئے تعصبات اور ناپسند یدگی کے جذبات سے اٹھ کر بڑے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔