یہ خاکسار عمر عزیز کے اس موڑ پر عینک لگانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ نظر کی عینک لگائے بغیرکچھ نہیں پڑھا جا سکتا۔ موبائل پر میسج دیکھنا ہو اور عینک پاس نہ ہو توخاموشی سے موبائل پرے کھسکانے کے سوا اور آپشن نہیں۔ دور کی نظر ابھی زیادہ کمزور نہیں ہوئی، مگرڈرائیونگ کرتے ہوئے یا ایل ای ڈی پر کرکٹ میچ دیکھتے دور کی عینک لگانا پڑتی ہے۔ یہ تمہید اس لئے کہ مجھے اندازہ ہے عینک کی دنیا میں پلس، مائنس سے کچھ اور مراد لیا جاتا ہے۔ اس کالم کا عنوان مگر نظر کی عینک سے متعلق نہیں، یہ اشارہ ہے اس بڑھتے ہوئے منفی رجحان کی طرف، جس کا ہم روزانہ تماشا دیکھتے ہیں۔ اس منفی شیشے والی عینک کا، جسے پہننا آج کل ہمارے ہاں فیشن بن چکا ہے۔
اگلے روز ایک نوجوان صحافی دوست سے دفتر کے باہر ملاقات ہوئی۔ کورونا کے باعث میل ملاپ کم رہا، ویسے بھی وہ اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے۔ خاصے عرصے بعد ملے، اپنا حال احوال سناتے رہے۔ گپ شپ میں انہوں نے اسلام آباد کے اپنے ایک ساتھی صحافی کا دلچسپ قصہ سنایا۔ کہنے لگے کہ ایک روز وہ نوجوان اینکر پھٹ پڑا، " لوگ ہمیں دیدہ زیب کوٹ پتلون میں ملبوس جگمگاتی سکرینوں پردیکھتے ہیں، انہیں ہمارے حالات کی کیا خبر؟ گھر سے موٹر سائیکل پر گردوغبار سے بچ بچا کر اپنے کپڑے بمشکل محفوظ رکھ کر دفتر پہنچتے ہیں، میک اپ کر ا، بال سنوار، کوٹ پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھتے ہیں، آن ائیر جاتے ہی کہتے ہیں، میں ہوں فلانا طرم خان ? اس کے بعد گنڈاسا اٹھا کر جو بھی سامنے آئے اس پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ جو جتنا اچھا لڑے، وہی اچھا شہسوار۔ ہاتھ روک کر، سوچ سمجھ کر بولنے والے، لحاظ کرنے والے کا کوئی پرسان حال نہیں۔"
اس بات میں مبالغہ ہوسکتا ہے، مگر حالات کم وبیش اسی انداز کے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ رپورٹر وں اور اینکروں نے خواہ مخواہ منفی شیشوں والی عینک پہن لی ہے اور وہ صرف منفی، اختلاف برائے اختلاف پر مبنی سوالات ہی کوصحافت کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس اصل کام ہے خبر کی حقیقت سامنے لانا۔ اپنے قاری یا ناظرین کو خبر، ایشو کے مختلف پہلوئوں سے روشناس کرانا، ان کے سامنے پوری تصویر رکھنا اصل کام ہے۔ اگر منفی زاویہ نظر سے خبر کی حقیقت پر پردہ پڑتا ہو، کئی پہلو تشنہ رہ جائیں اور نان ایشو ایشو میں بدل جائے، تب یہ صحافت نہیں۔
دو حالیہ واقعات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اگلے روز آئی جی پنجاب کو تبدیل کر دیا گیا۔ میڈیا کے ایک بڑے حلقے نے اسے سی سی پی او کی جیت قرار دیا اور یہ تاثر دیا کہ لاہور کے سی سی پی او کی وجہ سے آئی جی کو ہٹا دیا گیا۔ کیا واقعی صورتحال ایسی ہے؟ مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگا۔ یہ درست کہ تحریک انصاف نے اپنے ہر کام کی طرح یہاں بھی مس ہینڈلنگ کی۔ ناتجربہ کاری ہر بار کی طرح اس بار بھی نظر آئی۔ سی سی پی او لگاتے ہوئے آئی جی سے مشاورت میں کیا حرج تھا؟ یہ نہیں کیا گیا، اس پر سابق آئی جی پنجاب ناخوش ہوئے۔ بات سمجھ آتی ہے۔ سی سی پی او کی اپنے ماتحت افسروں سے گفتگو پر آئی جی صاحب نے جو غیر ضروری اناپسندی اور غیر معمولی برہمی کا مظاہرہ کیا، وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ کچھ باتیں محاورتاً کہی جاتی ہیں، ان کے معنی وہ نہیں ہوتے۔ ماتحتوں سے یہ کہنا کہ آرڈر اگر اوپر (آئی جی) سے آئے، تب بھی مجھے ضرور بتائیں، مجھ سے ضرور پوچھیں ?۔ اس میں ایسی حکم عدولی یا بغاوت کا عنصر موجود نہیں جو شعیب دستگیر صاحب نے محسوس کر لیا۔ چلیں انہیں برا لگا، یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس پر احتجاج کیا۔ جب متعلقہ سی سی پی او نے معذرت کی، مل کر وضاحت کرنے کی کوشش کی، تفصیلی واٹس ایپ میسجز کئے، تب سابق آئی جی پولیس کو لچک پیدا کرنی چاہیے تھی۔ متعلقہ افسرکو واضح میسج مل گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی جی اپنے ماتحت افسر کو دفتر میں بلاتا اور باقاعدہ کلاس لیتا۔ یہ واضح کرتا کہ مجھے یہ رویہ اور بات پسند نہیں آئی، آئندہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔
بچوں کی طرح بستہ گھر رکھ کر سکول جانے سے انکار کرنا باوقار رویہ نہیں۔ اس کے بعد یک جہتی کے نام پر دیگر سینئر افسروں کے اجلاس کی حوصلہ افزائی مزید مایوس کن ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ ایسے کسی بھی اجلاس کی حوصلہ شکنی کرتے اورایسے افسران کو پیغام بھجواتے کہ پولیس ایک فورس ہے، کوئی مل یا فیکٹر ی نہیں کہ ٹریڈ یونین قائم کر لی جائے۔ سابق آئی جی انہیں پیغام دیتے کہ میں اپنا معاملہ خود نمٹائوں گا، مجھے یک جہتی کے نام پر ایسی اِن ڈسپلنڈ حرکتوں کی ضرورت نہیں۔ افسوس ایسا نہیں ہوا۔
مزید افسوسناک رویہ مسلم لیگ ن اور ان کے حامی میڈیا کا رہا۔ انہوں نے کیسے یہ اخذ کر لیا کہ سی سی پی او لاہور ن لیگی کارکنوں کو کچلنے کے لئے لگائے گئے ہیں؟ یہ انکشاف ان پر کیسے ہوا؟ کہاں سے یہ نتیجہ نکال لیا گیا؟ احسن اقبال نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی، ان کے پاس دلیل ایک بھی نہیں تھی۔ عمر شیخ ڈی جی خان میں ریجنل پولیس افسر رہے، اس کے بعد وہ شیخوپورہ کے آر پی او تھے۔ اس دوران ان پر کبھی مسلم لیگ ن کا مخالف ہونے کا الزام نہیں لگا۔ ان کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں، تحریک انصاف یا عمران خان کے ساتھ ذاتی یا برادری وغیرہ کا تعلق بھی نہیں، خان صاحب نیازی پٹھان، جبکہ وہ شیخ ہیں۔ اگر تحریک انصاف سے سیاسی تعلق والے کسی پولیس افسر کو یہ ذمہ داری دی جاتی یا آنے والے افسر کا ماضی کا ریکارڈ اینٹی ن لیگ رہا ہوتا، تب شبہ کرنے کی کوئی تک بھی بنتی تھی۔ موجودہ صورتحال میں تو یہ صرف حفظ ماتقدم کے تحت بنائی گئی حکمت عملی ہے۔ مسلم لیگ ن کو معلوم ہے کہ مستقبل میں سیاسی ہلچل پیدا ہوسکتی ہے تو لاہور پولیس کو پہلے سے دبائو کا شکار رکھا جائے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا پر بعض لوگوں کو علم ہوا کہ عمر شیخ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے تو انہوں نے فوری طور پر انہیں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا گرائیں بنا ڈالا۔ گرائیں پنجابی میں ہمسایے یا ساتھ والے گائوں کو کہتے ہیں۔ عثمان بزدار تونسہ کے رہنے والے ہیں جبکہ عمر شیخ تحصیل خان پور، ضلع رحیم یار خان کے ہیں۔ ان کا علاقہ بزدار صاحب کے گھر سے کئی گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔ سرائیکی چار کروڑ سے زیادہ افراد پر مشتمل قوم ہے، کئی سو کلومیٹر کے علاقے پر ان کے اکثریتی اضلاع ہیں، جبکہ آبادی کی پاکٹس اگر شمار کی جائیں تو ملک بھر میں ہیں۔ یہ سب ایک دوسرے کے گرائیں ہیں کیا؟ عمر شیخ ڈی جی خان میں تعینات رہے، مگر وہاں سے وہ ہٹائے گئے اورمبینہ طو رپر مقامی سرداروں نے ان کی اچھی کارکردگی کی بنا پر شکایتیں کر کے ہٹوایا۔ اگر وہ عثمان بزدار کے فیورٹ ہوتے تو ڈی جی خان سے تبادلہ کیوں ہوتا؟
دو تین دن پہلے قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کی پریس کانفرنس دیکھی۔ اس پرمیڈیا اور سوشل میڈیا میں آنے والا ردعمل بھی منفی تھا۔ پاکستانی ٹیم ٹیسٹ سیریز ہار کر واپس آئی، ٹی ٹوئنٹی سیریز البتہ برابر رہی۔ ٹیم کی کارکردگی پر تنقید کی گنجائش ہے۔ مصباح کی ٹیم سلیکشن اور نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی سوچ کوالبتہ سراہنا چاہیے۔ جو کھلاڑی انگلینڈ بھیجے گئے، ان سے بہتر پاکستان میں موجود نہیں، یعنی سلیکشن اچھی ہوئی۔ جو ٹیم کھلائی گئی، اس پر بھی اعتراض کرنا آسان نہیں۔ فواد عالم کو گیارہ برس سے کسی چیف سلیکٹر، کوچ نے نہیں موقعہ دیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا تنقید کرتا تھا کہ فواد عالم کو کھلایا جائے۔ مصباح الحق نے فواد عالم کو دو ٹیسٹ میچوں میں کھلایا اور غیر متاثرکن کارکردگی کے باوجود آئندہ بھی موقعہ دینے کا عندیہ دیا۔ مصباح پر بطور کپتان زیادہ تنقید یہ ہوتی رہی تھی کہ وہ نئے کھلاڑیوں کو موقعہ نہیں دیتے اور تجربہ کار مگر چلے ہوئے کارتوسوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہیڈ کوچ کے طور پر انہوں نے نئے کھلاڑیوں کو مواقع دئیے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی ہے۔ نسیم شاہ، شاہین شاہ آفریدی، عابد علی، حید رعلی وغیرہ کو مواقع دینا آسان فیصلہ نہیں۔ یہ سب ٹیلنٹڈ کھلاڑی ہیں، انہیں مسلسل سپورٹ کرنا چاہیے۔ عابد علی کے کئی سال پہلے ہی ضائع کر دئیے گئے، انضمام الحق نے ورلڈ کپ ٹیم میں شامل نہ کیا۔ مصباح اب انہیں تواتر سے کھلا رہے ہیں۔ اسی طرح نسیم شاہ جسے دنیا بھر کے ماہرین مستقبل کا سٹار کہہ رہے ہیں، اسے بھرپور سپورٹ دی جا رہی ہے۔ حید ر علی کا وقت ضائع کرنے کے بجائے درست وقت پر ڈیبیو کرا دیا گیا۔ کیا یہ غلط حکمت عملی ہے؟
کسی سپورٹس رپورٹر، تجزیہ کار یا سابق کرکٹر کی جانب سے سراہنے کے کلمات نہیں سنے۔ ہر ایک نے کوئی نہ کوئی نقص ہی نکالا۔ ضرور نکالیں، تنقید کریں، کھل کر کریں، مگر جو اچھا ہے، اس کی تو تعریف کریں۔ ہم نے فرض کر لیا ہے کہ صرف تنقید برائے تنقید، منفی تبصرے کرنا اور کیڑے نکالنا ہی صحافت ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ صحافت توازن، عدل اور اعتدال کے ساتھ خبر پہنچانے کا نام ہے۔ جو جیسا ہے، ویسا ہی پہنچایا جائے۔