مسئلہ کشمیر، پاکستانی ریاست کے موقف، اقدامات اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے مختلف بیانئے گردش کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر مغالطے ہی ہیں۔ بے بنیاد مغالطے، جو غلط استدلال اور تاویل کی پشت پر استوار ہیں۔ مختلف سوالات ہیں جو بغیر سوچے سمجھ اچھال دئیے جاتے ہیں۔ ان سوالات کو ایک ایک کر کے دیکھتے ہیں۔
کشمیریوں پر بڑا ظلم ہو رہا ہے، پاکستان کچھ نہیں کر رہا پہلی بات تویہ ہے کشمیریوں پر نہیں بلکہ صرف مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے اور بھارت یہ ظلم کر رہا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والوں کو تین سادہ کیٹیگریز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر میں رہنے والے، مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے اور وہ کشمیری جو برطانیہ، امریکہ یا یورپ میں مقیم ہیں، خاص کر وہ جنہوں نے وہاں کی شہریت لے رکھی ہے۔ ظلم صرف بھارت کے زیرتسلط کشمیر میں ہو رہا ہے اور وہاں کے نہتے کشمیری عوام بری طرح پس رہے ہیں۔ جب ہم جنرلائز کر کے فقرہ بولتے ہیں کہ کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے تو اس سے درست ابلاغ نہیں ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں پر ظلم کہنے سے بات مکمل طور پر سمجھ آتی ہے۔
آزاد کشمیر کے کشمیریوں پر کسی بھی قسم کا ظلم نہیں ہورہا۔ انہیں تمام حقوق حاصل ہیں، وہ پاکستان میں جہاں چاہے سرکاری یا نجی ملازمت کر سکتے ہیں، زمین خرید سکتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ان کے لئے نشستیں موجود ہیں، دوہرے ووٹ کا بھی حق ہے جبکہ پاکستان کا کوئی شہری آزاد کشمیر میں ملازمت لے سکتا ہے نہ وہاں ایک انچ زمین خرید نے کا اسے حق حاصل ہے۔ اگر آزاد کشمیر کی حکومتیں گڈ گورننس دکھائیں، برادری ازم سے باہر آئیں، سیاسی بنیادوں پر تقرری نہ کریں جیسا کہ وہاں ساٹھ ستر سال سے روایت رہی ہے، تو مقامی سطح پر چیزیں مزید بہتر ہوسکتی ہیں۔ ان خامیوں کے باوجود آزاد کشمیر میں حالات پاکستان سے بہت بہتر ہیں۔ شرح خواندگی پاکستان کے کسی بھی شہر سے بہتر ہے، اعلیٰ تعلیم کے لئے کئی یونیورسٹیاں موجود ہیں، بیروزگاری پاکستان کی نسبت بہت کم ہے، مہنگائی کی شرح بھی وہ نہیں۔ جہاں تک یورپ اور امریکہ میں مقیم کشمیریوں کا تعلق ہے، ان کے یہ مسائل ہی نہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ظلم کی ظ سے بھی واسطہ نہیں پڑا۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کے کشمیریوں اورمغربی دنیا کے باسی کشمیریوں کی خوش قسمتی پر رشک کرنا چاہیے، اللہ کرے کہ بھارتی استبداد کا شکار کشمیری بھی آزاد ہوسکیں۔
یہ ضمنی نکتہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370ختم ہونے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے عوام کوبھارتی آئین کے تحت جس قدر حقوق حاصل تھے، ان سے کہیں زیادہ، کئی گنا زیادہ حقوق آزاد کشمیر کے عوام کو حاصل تھے اور آج بھی ہیں۔ ان کا الگ وزیراعظم اور صدر ہے، انتظامی معاملات میں مکمل اختیارات حاصل ہیں، بیرون ملک آنا جانا انتہائی آسان ہے۔ بھارتی زیرتسلط کشمیر آرٹیکل 370 سے پہلے بھی عملاً ایک بھارتی صوبہ یا ریاست کی حیثیت رکھتا تھا، وہاں صوبائی اسمبلی تھی، وزیراعلیٰ کام کرتا تھا اور متعدد بار وہاں اسمبلی معطل کر کے گورنر راج نافذ رہا۔ انہیں البتہ خصوصی سٹیٹس حاصل تھا جو اب ختم ہوگیا۔
پاکستان نے کشمیریوں کے لئے کیا کیا ہے؟ پاکستان نے کشمیریوں کے لئے وہ سب کچھ کیا جو اس کی استطاعت یا ہمت کے مطابق تھا۔ پاکستان کی بھارت سے جتنی جنگیں ہوئیں، اس کی بنیاد کشمیر ہے۔ کشمیر کی خاطر جنگیں لڑی گئیں، ناکام گوریلاآپریشن ہوئے، ایک عشرے سے زائد عرصہ پراکسی وار لڑی گئی۔ کیا یہ سب کچھ مریخ کے باشندوں کے لئے ہوا؟ جنگ ستمبر(1965)سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر ہوا۔ یہ ایک ناکام اور کمزور پلان تھا۔ اس میں بہت سی خامیاں تھیں، دفاعی ماہرین اس منصوبے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آپریشن جبرالٹر مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے تھا۔ یہی صورتحال کارگل آپریشن کی ہے۔ ایک اور ناکام آپریشن۔ کارگل کا آپریشن بھی مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کے لئے ہی تھا۔ منصوبہ یہی تھا کہ لیہہ کارگل روڈ کو کاٹ کر بھارتی فوج کی سپلائی لائن بند کر دی جائے اور بھارت کو مذاکرات کرنے اور کشمیر کے حل پر مجبور کیا جائے۔ اس منصوبے میں کیا نقائص تھے، وزیراعظم نواز شریف نے اس کی منظوری دی تھی یا نہیں یا پھر دینے کے بعد مکر گئے، یہ لمبی چوڑی بحثیں ہیں، کبھی ان پر بھی بات کر لیں گے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ فوج نے یہ آپریشن مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو آزاد کرانے کے لئے ہی کیا۔ اس آپریشن میں بہت سے فوجی شہید ہوئے، پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی تمام جنگوں سے زیادہ۔ فورسزنے یہ آپریشن کر کے اس الزام کا جواب بھی دے دیا کہ جنگجوئوں کو بھیجنے کے بجائے فوجی جوانوں کو بھارت کے خلاف آپریشن کرنا چاہیے۔ کارگل آپریشن میں جوان ہی شریک تھے، نتائج مطلوبہ نہ نکلے، پلاننگ پر تنقید کی جا سکتی ہے، مگر اخلاص اور نیت کے نمبر پورے بنتے ہیں۔
پاکستان کا دوسرا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے کبھی مسئلہ کشمیر کو دفن نہیں ہونے دیا، اسے ہمیشہ اپنی سفارتی کوششوں سے زندہ رکھا۔ جس زمانے میں اسلامی سربراہ کانفرنس زندہ تھی، عرب حکمرانوں میں بھی حمیت تھی اور پاکستانی سربراہان کی مسلم دنیا میں کچھ وقعت تھی، تب ہر اہم اجلاس میں کشمیریوں کے حق میں قراردادیں منظور ہوتی رہیں۔ پاکستان نے کبھی اقوام متحدہ میں اپنے تاریخی موقف سے انحراف نہیں کیا۔ ہرپاکستانی حکمران پر دبائو رہا کہ وہ جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بھرپور طریقے سے مسئلہ کشمیر کو اٹھائے۔ پاک بھارت مذاکرات میں کشمیر کا ایشو ہمیشہ سے اہم رہا۔ بھارت کا اصرارہوتا کہ کشمیر کے علاوہ ہر معاملے پر بات کر لیں گے، پاکستان نے ہمیشہ یہی کہا کہ نہیں بنیادی نکتہ کشمیر ہوگا، اسے چھوڑ کر ہم باقی مسائل نہیں نمٹا سکتے۔ پاکستان میں لبرل، سیکولر دانشوروں اور لیفٹ ونگ پر مشتمل لابی ہمیشہ یہ اصرار کرتی رہی کہ کشمیر کے مسئلے کو ایک سائیڈ پر رکھ کر بھارت کے ساتھ دوستی کر لینی چاہیے، باہمی تجارت بڑھے، اشیا کا تبادلہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان میں سے بہت سے یہ طعنہ دیتے تھے کہ پاکستان آخر کب تک مسئلہ کشمیر کا قیدی رہے گا؟ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ، ہماری بیشتر حکومتوں اور خاص کر رائیٹ ونگ سے تعلق رکھنے والے قلم کاروں اور جماعت اسلامی جیسی اسلامسٹ جماعت نے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو فوکس رکھا اور اسے حل کئے بغیر بھارت سے کسی بھی قسم کی دوستی کی حوصلہ شکنی کی۔ واجپائی کی لاہور آمد پر جماعت اسلامی کے کارکنوں نے احتجاج کر کے مار کھائی، ان کے سر پھٹے، کیوں؟ اس لئے کہ جماعت اسلامی کا اصرار تھا بھارت سے دوستی کے چکر میں کشمیریوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
ایک تیسری شکل پاکستانی نوجوانوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر جا کر پراکسی وار لڑنا ہے۔ نوجوان اس جذبے کے ساتھ عسکریت پسند تنظیموں کا حصہ بنے کہ اپنی کشمیری مائوں، بہنوں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ لینا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نوے کے عشرے میں مقبوضہ کشمیر کے لہو رنگ خطہ میں شہید ہونے والے ہزاروں نوجوان پاکستانی تھے۔ سری نگر کے شہدا قبرستان میں بے شمار سرائیکی، پنجابی، پشتون جنگجو مٹی اوڑھے سو رہے ہیں۔ ان کا واحد" قصور" یہ تھا کہ وہ اپنے گھروں کا آرام چھوڑ کر ایک سفاک، بے رحم ریگولر آرمی کے مقابل کشمیریوں کی آزادی کی جنگ لڑنے گئے۔ ان کی سات نسلوں کا بھی جن کے ساتھ جغرافیائی یا نسلی رشتہ نہیں تھا۔ ویسی قربانیاں طالبان نے افغانستان میں دیں، وہ قابض امریکی فوج سے نبردآزما رہے، مگر وہ تو افغان ہیں، افغانستان کی جنگ لڑ رہے تھے۔ پاکستانی نوجوانوں نے ایسا کیوں کیا؟ صرف اس لئے کہ وہ کشمیریوں کو اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ کشمیری خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ زیادتی تصور کرتے رہے۔ دین کے رشتے یاپاکستانیت کے مشترک تعلق کے سواان کے وہاں جانے اور جانیں لٹوا دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ میرے جیسے بے شمار نوجوان یہ سوچ کرتڑپتے رہے کہ بوڑھے والدین یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے ہم یہ سعادت حاصل نہ کر پائے۔ یہ وہ لڑائی تھی جو ہمارے آزاد کشمیرکے بھائیوں کو لڑنا چاہیے تھی، ان کے حصے کا قرض پاکستانی نوجوانوں نے ادا کیا۔ اس وقت ہمارے کلیجے میں گھونسہ لگتا ہے جب آزاد کشمیر کا کوئی نام نہاد قوم پرست چِبّلے پن سے، زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اس جہاد کو ایجنسیوں کا کھیل قرار دے۔ یہ جنگجو ایجنسیوں کے لئے نہیں، مظلوم کشمیریوں کی جنگ لڑنے گئے تھے۔ اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور برف پوش وادیوں میں زندگی موت کی جنگ مذاق ہے؟ یہ کشمیری قوم پرست تو پھر برہان وانی، ریاض نائیکوجیسے جانبازوں کی شہادت بھی کھیل سمجھتے ہوں گے، عوام کی جانب سے جوتے پڑنے کے ڈر سے اعلانیہ کہہ نہیں سکتے۔
کسی خطے کو آزاد کرانے کے لئے تین چار ہی مروجہ طریقے ہیں، جنگ، سفارتی حربے، پراکسی وار۔ پاکستان نے مختلف ادوار میں یہ سب آزمائے۔ کبھی ان سب کے باوجودمنزل حاصل نہیں ہوپاتی۔ یہ حالات کا جبر، زندگی کی کٹھنائیاں ہیں۔ ریاست پاکستان اور پاکستانی مگر اپنے عزم کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کو آزاد کرانے کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔
ان مغالطوں پرمزید گفتگو ان شااللہ اگلے کالم میں۔