1999ء انگلینڈ میں ورلڈ کپ فائنل تھا۔ پاکستان فیورٹ تھا، سیمی فائنل پاکستان نے بڑے اچھے طریقے سے جیتا۔ شعیب اختر نے اپنی سپیڈ سے تہلکہ مچا رکھا تھا، پاکستانی ٹیم کا کمبی نیشن بہت عمدہ تھا، بلے باز رنز کر رہے تھے، اظہر محمود، عبدالرزاق دو اعلیٰ آل رائونڈر پرفارم کر رہے تھے، وسیم کپتان تھے۔ فائنل میں وسیم نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو کھلانے کے بجائے خود بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ آسٹریلوی کپتان نے حیران ہو کر کمنٹیٹر کو بتایا کہ ہم نے بھی یہی سوچا تھا۔ اس روزپچ گیلی تھی، اس پر پہلے بیٹنگ کرنا غلط تھا۔ پاکستانی بیٹنگ بری طرح ناکام ہوئی اور ڈیڑھ سو بھی نہ بنا پائی۔ آسٹریلیا نے نہایت آسانی سے میچ جیت لیا، یہ یک طرفہ فائنل ثابت ہوا۔ اس میچ کے حوالے سے وسیم اکرم پر آج بھی تنقید کی جاتی ہے۔ اسی ورلڈ کپ میں پاکستان کی بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست پر بھی کئی سوالیہ نشان پیدا ہوئے۔
ابھی حال ہی میں میچ فکسنگ کے حوالے سے جو مختلف ویڈیوز کا سیلاب آیا، ان میں سب سے زیادہ وسیم اکرم پر بات کی گئی۔ 1999 ورلڈ کپ کے ان دونوں میچز پر خاص طور سے بات کی گئی۔ کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین خالد محمود نے کھل کر وسیم اکرم پرمیچ فکسنگ کا الزام لگایا اور کہا کہ اگر عطاالرحمن اپنا بیان واپس نہ لیتے تو وسیم اکرم کو انکوائری کمیشن میں سزا مل جاتی۔ اس کے بعد سابق فاسٹ بائولر عطاالرحمن بھی اچانک سے متحرک ہوئے، انہوں نے بیان داغ دیا کہ میں نے وسیم اکرم کے دبائو پراپنا بیان واپس لیا تھا۔ ادھر عامر سہیل نے وسیم اکرم کے خلاف بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے بانوے کے بعد پاکستان کو ورلڈ کپ نہ جیتنے دیا، ورنہ کم از کم دو تین بار پاکستان جیت سکتا تھا۔ باسط علی بھی اس بحث میں شامل ہوئے، جوابی طور پر ان پر بھی میچ فکسنگ میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اس بحث میں آخری اضافہ سابق وکٹ کیپر ذوالقرنین کا ہوا، جنہوں نے ایک زمانے میں یہی الزامات عائد کرتے ہوئے انگلینڈ سیاسی پناہ لینے کی کوشش کی تھی۔ ایک دلچسپ انٹرویوسزا پانے والے بائولر محمد آصف کا شائع ہوا۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں کیوں شرمندہ ہوں؟
میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اچانک سے یہ گڑھے مردے کیوں اکھاڑے جانے لگے؟ میچ فکسنگ کا الزام صرف پاکستان میں نہیں لگایا گیا، دنیا کے کئی ممالک میں مختلف کھلاڑیوں پر ایسے الزامات لگے، انہیں سزائیں بھی ملیں۔ خود بھارت میں کپتان اظہر الدین، منوج پربھارکر، اجے جدیجہ وغیرہ پر الزامات درست ثابت ہوئے اور ان کی کرکٹ ختم ہوگئی۔ جنوبی افریقن کرکٹر ہینسی کرونئے پر الزام ثابت ہوا اور انہیں بڑی رسوائی اٹھانی پڑی۔ ایک دو ویسٹ انڈین کھلاڑیوں پر پابندی لگی، شین وارن پر بھی ایک زمانے میں پابندی لگی تھی۔ اس وقت دنیا میں ہمارے علاوہ کسی کو یہ بیس پچیس سال پرانی باتیں یاد کرنے کا خیال نہیں آیا؟ صرف پاکستانی سابق کرکٹرز، بورڈ عہدے دار ہی ہیں جو زہریلے کانٹوں کا یہ ہار پھر سے گلے میں پہننے کے خواہش مند ہیں۔ میچ فکسنگ کا جو تاریک دور گزر گیا، اسے پھر سے کیوں ہائی لائیٹ کیا جانا مقصود ہے؟ جسٹس ملک قیوم انکوائری رپورٹ میں واضح پابندی صرف سلیم ملک اور عطاالرحمن پر لگائی گئی۔ جسٹس قیوم بعد میں خودفون سکینڈل میں رسوا ہوئے اور ان کو استعفا دینا پڑا۔ وہ اور ان کی رپورٹ قصہ پارینہ بن چکی۔ اب پھر سے اس رپورٹ کا سہارا لے کر وسیم اکرم کو کیوں ہدف بنایا جا رہا ہے؟
وسیم اکرم پر الزامات لگے، مگر ثابت نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی سزا سنائی گئی۔ وسیم اکرم نے پاکستانی کرکٹ کے لئے بہت کچھ کیا۔ 96ء ورلڈ کپ میں انڈیا کے ہاتھوں شکست کے بعد پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ کیا تھا، وسیم اکرم کپتان تھے، پاکستان نے وہ سیریز دو صفر سے جیتی۔ انگلینڈ کو انگلینڈ میں ہرانا معمولی بات نہیں، وسیم اکرم نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ وسیم نے آخری ٹورنامنٹ 2003ء ورلڈ کپ کھیلا، اس میں انہوں نے ون ڈے میں پانچ سو وکٹیں حاصل کرنے کا سنگ میل عبور کیا۔ طویل عرصے تک شائد ہی کوئی اور پاکستانی بائولر ون ڈے میں ان کا یہ ریکارڈ توڑ سکے۔ وسیم اکرم کوچند عظیم ترین بائولروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، مغربی میڈیا انہیں سلطان آف سوئنگ وسیم کہتا ہے۔ ان پر سیاسی کیوں پھینکنا مقصود ہے؟
میچ فکسنگ کا خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے آج میں آنا پڑے گا، مستقبل کے حوالے سے ایک مستقل اور سخت نوعیت کی پالیسی بنانا پڑے گی۔ فکسنگ کا بھوت 2010ء کی انگلینڈ سیریز سے زندہ ہوا تھا جب ایک برطانوی اخبارنے سٹنگ آپریشن کے ذریعے تین پاکستانی کھلاڑیوں، کپتان سلمان بٹ، بائولرز محمد آصف اور محمد عامر کو سپاٹ فکسنگ میں ملوث رنگے ہاتھوں پکڑوایا۔ اس سکینڈل سے پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سکینڈل کے بعد ان کھلاڑیوں کی تاحیات کرکٹ ختم کر دی جاتی۔ افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا۔ سزا مکمل ہونے پر محمد عامر کو ٹیم میں واپس لایا گیا۔ کرکٹ بورڈ کی پالیسی بظاہر یہ نظر آئی کہ عامر کو ٹیم میں شامل کر لیا جائے، جبکہ سلمان بٹ پر باضابطہ پابندی لگائے بغیر اسے قومی ٹیم کے لئے سلیکٹ ہی نہ کیا جائے۔ سلمان بٹ چونکہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں سرغنہ تھا، اس لئے اس کے حوالے سے زیادہ سخت موقف رکھا گیا۔ اس پالیسی پر اعتراضات بھی ہوتے رہے۔ راشد لطیف جیسے لوگ اسے دوعملی قرار دیتے ہیں۔ ویسے یہ پالیسی اگر ہے تو غلط نہیں۔ سلمان بٹ سرغنہ تھے اور فکسنگ کی اصل ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ان کا کیرئر اختتام پزیر ہے، ایسے میں کھلاڑی موقعہ ملنے پر پھر کسی ترغیب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ سپاٹ فکسنگ کاآخری بڑا شکار شرجیل خان، خالد لطیف وغیرہ تھے۔ شرجیل خان کا بہت لوگوں کو اس لئے افسوس ہوا کہ وہ اچھے جارحانہ بلے باز کے طور پر ٹیم میں جگہ بنا چکے تھے۔ لالچ نے انہیں برباد کر دیا۔ ابھی حال ہی میں عمر اکمل کو بھی سزا سنائی گئی، اگرچہ جج کے فیصلے سےاندازہ ہواکہ زیادہ سختی رویے کی بنا پر برتی گئی۔ میچ فکسنگ کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو مناسب قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے، جس میں سزا کو انتہائی سخت کیا جائے۔ ماضی میں جو رعایت برتی گئی، وہ غلط تھی، مگر ہم ماضی کو ریورس نہیں کر سکتے۔ مستقبل کے حوالے سے البتہ واضح پالیسی بنا سکتے ہیں۔ جو کھلاڑی کسی بھی سطح پر میچ، سپاٹ، فینسی فکسنگ میں پکڑا جائے، اس کا کیرئر ہمیشہ کے لئے ختم کر دینا چاہیے، وہ کلب کرکٹ نہ کھیل سکے۔ گڑھے مردے اکھاڑنے کے بجائے ہمیں آج اور آنے والے کل کے حوالے سے فیصلے کرنے ہوں گے۔
جہاں تک سلیم ملک کا تعلق ہے، اچانک ہی ایک لابی ان کے لئے متحرک ہوگئی ہے۔ ملک پر تاحیات پابندی لگی تھی، وہ انہوں نے عدالت کے ذریعے ختم کرا لی۔ اب وہ کیا چاہتے ہیں؟ اپنے کیس کو دوبارہ پیش کرنے، عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوششیں کیوں ہور ہی ہیں؟ انکے حامی یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ سلیم ملک کو کرکٹ بورڈ کوئی کردار دے، آخر کیوں؟ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے ڈائریکٹر مدثر نذر کے عہدے کی معیار ختم ہوگئی ہے، یہ عہدہ خالی ہے اور سلیم ملک کی حامی لابی انہیں اس جگہ لانا چاہتی ہے۔ اب یہاں پر تین نکات اہم ہیں۔ سلیم ملک کی حیثیت وسیم، وقار، انضمام، مشتاق جیسی نہیں، ملک کو باقاعدہ سزا سنائی گئی۔ مارک وا، شین وارن جیسے کھلاڑیوں نے براہ راست سلیم ملک پرالزامات عائد کئے، جن کی وہ صفائی نہیں دے پائے۔ سلیم ملک اس لحاظ سے متنازع کردار ہیں۔ چلیں اس معاملے کو بھول جائیں تب بھی اگلا سوال یہ پیدا ہوگا کہ انہیں کوچنگ کا کیا تجربہ حاصل ہے؟ بیس سال پہلے انہیں سزا سنائی گئی، اس سے پہلے اور اس کے بعد وہ کسی بھی کوچنگ ذمہ داری سے منسلک نہیں رہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ سلیم ملک پرانی سٹائل کی کرکٹ کھیلتے رہے۔ ماڈرن کرکٹ کا انہیں کوئی تجربہ نہیں، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ انہوں نے کبھی نہیں کھیلی، جدید ون ڈے سٹائل بھی ان کے لئے نیا ہے۔ سلیم ملک بے شک اپنے زمانے کے اچھے بلے باز تھے، مگر کرکٹ کے تقاضے آج مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ پرانے کھلاڑیوں نے اگر کوچنگ کورسز نہیں کئے، ماڈرن کرکٹ سے وہ جڑے ہوئے نہیں تو ان کا عملی فائدہ صفر ہے۔ نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں محمد یوسف جیسے کھلاڑیوں کو لانا چاہیے۔ وہ ورلڈ کلاس بلے باز رہے، ماڈرن کرکٹ اچھی طرح سمجھتے ہیں، ٹی ٹوئنٹی کے تقاضوں سے بھی بے خبر نہیں۔ ان پر کبھی کسی قسم کی فکسنگ کا الزام نہیں لگایا گیا۔ سب سے اہم کہ وہ عمر کے اعتبار سے سپر فٹ ہیں، نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ محنت کر سکتے ہیں۔ ابھی لاک ڈائون کے زمانے میں ان کی ایک ورزش کی ایک ویڈیوا ٓئی تو نوجوان کھلاڑی بھی حیران رہ گئے۔ عاقب جاوید پچھلے پندرہ بیس برسوں سے کوچنگ ہی کر رہے ہیں، وہ اچھی آپشن ہوسکتے ہیں۔ انضمام الحق اگر رضا مند ہوں تو ان جیسا بیٹنگ کوچ کہاں سے مل سکتا ہے؟ اگر نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو فعال بنانا ہے تو کسی چلے ہوئے کارتوس کو لگانے کے بجائے بہترین انتخاب کرنا چاہیے۔ سلیم ملک کے حامیوں کو بھی اب ملک، کرکٹ اور نیشنل اکیڈمی پر رحم کھانا چاہیے۔