چند دن قبل برادرم آصف محمود نے اپنے کالم بعنوان "جمعیت علمائے خاندان" میں مولانا فضل الرحمن کی اقربا پروری پر تنقید کی اور اہم سوالات اٹھائے۔ یہ کالم پچھلے دو تین دنوں سے سوشل میڈیا پر زیربحث ہے، خاکسار نے اپنی فیس بک وال پر اسے لگایا تو مولانا کے کارکنوں اور مداحین کے کچھ لفظی تیر، نیزے ہمارے اوپر بھی برسے۔ آصف محمود تو خیراس کالم کے بعد سے مسلسل زیرعتاب ہیں۔
آصف محمود نے اپنے کالم میں چند نام گنوائے کہ انہیں آخر کس وجہ سے اس قدر نواز ا جا رہا ہے۔ ان میں مولانا فضل الرحمن کے سمدھی غلامی علی صاحب ہیں جنہیں تھوڑا عرصہ قبل کے پی کا گورنر بنایا گیا ہے، انہی غلام علی صاحب کو ایک زمانے میں مولانا نے پشاور کا ضلع ناظم بھی بنایا تھا۔ آصف محمود کے کالم کا ایک اقتباس دینا ضروری ہے تاکہ بات آگے بڑھائی جا سکے۔
وہ لکھتے ہیں: "پشاور کے میئر کا منصب بھی کسی عالم دین یا کارکن کے گلے میں ڈالنے کے بجائے اسے زبیر علی نام کے ایک نوجوان کو سونپا گیا جو حاجی غلام علی صاحب کے فرزند اور مولانا فضل الرحمن کے داماد کے بھائی ہیں۔ مولانا کے ایک بھائی محترم عطا الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ایوان بالا کے رکن ہیں۔ یعنی سینیٹر ہیں۔ مولانا کے دوسرے بھائی کا نام لطف الرحمن ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایم پی اے، انہیں قائد حزب اختلاف کا منصب بھی دیا گیا۔
"مولانا کے تیسرے بھائی کا نام ضیاء الرحمن ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے بابرکت دور اقتدار میں ضیاء الرحمن صاحب پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ انجینئر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ مارچ 2005 میں وزیر اعلی کے حکم پر انہیں افغان ریفیوجیز کمیشن میں پراجیکٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ دوسال بعد اسلامی حکومت کے وزیر اعلی اکرم خان درانی نے ایک نیا نوٹی فکیشن نکالا اور یہ بھائی جان سول سرونٹ، قرار دے کر اسی ریفیو جیز کمیشن میں ایڈیشنل کمشنر لگا دیے گئے۔ اسی دوران ن لیگ کی حکومت بن گئی اور اسلام کے علماء کی جمعیت اس حکومت کا حصہ بن گئی۔
اکرم درانی اب وفاقی وزیر تھے۔ چنانچہ 2014 میں ایک نیا نوٹی فکیشن جاری ہوا اور ضیاء الرحمن صاحب کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویڑن کے سپرد کر دی گئیں اور انہیں ڈی سی او بنا کر خوشاب بھیج دیا گیا۔ یوں وہ مقابلے کا امتحان دیے بغیر ڈپٹی کمشنر بن بیٹھے۔ پوچھا جانا چاہیے کہ پاکستان کی بیوروکریسی کی تاریخ میں اس طرح سے پہلے بھی کوئی ڈپٹی کمشنر بنا ہے؟ مولانا کے صاحبزادے اسعد محمود صاحب اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں اور پارلیمان میں اسلامی قانون سازی کی بھاری ذمہ داری ان کے نازک کندھوں پر ہے۔
شاہدہ اختر علی صاحبہ مولانا کی سالی ہیں۔ دو دفعہ انہیں رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ نیر سلطانہ صاحبہ بھی مولانا کی سالی ہیں اور انہیں بھی رکن قومی اسمبلی بنایا گیا۔ ایک محترمہ ریحانہ اسماعیل ہیں، یہ بھی مولانا کی سالی ہیں اور اس وقت ایم پی اے ہیں اور اس سے پہلے 2002 کے الیکشن کے بعد کی اسمبلی میں بھی ایم پی اے رہ چکی ہیں۔ "آصف محمود کے اس کالم کا جواب دینے کے لئے جمعیت علما اسلام کے کئی" شاہینوں" کو خاص طور سے تیار کیا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان باتوں کا دلیل سے جواب دیا جاتا۔ اس کے بجائے آصف محمود پر زہریلے طنز کے تیر برسائے گئے، بعض پوسٹوں میں تو آصف محمودپر عمران خان کے ایما پر مولانا کے خلاف لکھنے کا الزام لگایا۔ لگتا ہے ظالموں نے پچھلے دو تین سال میں بھائی آصف کی ایک بھی تحریر نہیں پڑھی۔ آصف محمود کے تیز دھار قلم کی وجہ سے پی ٹی آئی کے" عقابی" کارکن جے یوآئی کے لوگوں سے زیادہ برہم ہیں۔
اپنے بعض کالموں، بلاگز اور سوشل میڈیا پوسٹوں میں مولانا پر بعض حوالوں سے تنقید کرنے کا جرم خاکسار سے بھی سرزد ہوتا رہا ہے، اس کی ہمیشہ بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اپنے تجربے کی روشنی میں اندازہ ہوچکا کہ دینی سیاسی جماعتوں کے کارکن سوشل میڈیا پر کسی بھی عام سیاسی جماعت کے حامیوں سے کئی گنا زیادہ بدتمیز، جاہل اور عامیانہ حملے کرنے والے ہیں۔ ان کا اسلوب پست، حملے ذاتی اور کئی اقسام کے فتوئوں میں لپٹے ہوتے ہیں۔ اس بار یہ سوچا کہ اس نکتہ کو واضح کر دیا جائے کہ آخر میرے جیسے لوگ جو خود کو اعلانیہ رائٹسٹ کہتے ہیں، وہ مولانا فضل الرحمن پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟
اس تنقید کی تین چاروجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ مولانا فضل الرحمن اور جے یوآئی مذہبی جماعت کہلانے کے باوجود معروف معنوں میں اسلامی تحریک نہیں۔ جے یوآئی صرف ایک مسلک کی ترجمان ہے اور اپنی جدوجہد میں اسی تک محدود رہتی ہے۔ اپنے مسلکی مدارس اس کی نرسری ہیں اور یہیں سے آبیاری ہوتی ہے۔ اس کی پاور پاکٹس چونکہ بلوچستان کی پشتون بیلٹ ہے یا کے پی کے جنوبی اضلاع (ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت وغیرہ)اور ان سے ملحقہ قبائل علاقے۔ اسی لئے تھوڑا بہت وہاں کے مقامی سیاسی ایشوز پر بھی بات کر لیتے ہیں۔
جے یوآئی کا مسلم دنیا کی اسلامی تحریکوں سے کوئی سروکار یا دلچسپی نہیں۔ مسلم دنیاپر جو بھی بیتے، جے یوآئی یا مولانا فضل الرحمن کو کوئی سروکار نہیں۔ میانمار کا مسئلہ ہو یا فلسطینی مسلمانوں کے دکھ درد، غزہ کا محاصر ہ ہو کچھ اور، حتیٰ کہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے سے بھی یہ لب کشائی نہیں کرتے۔ یہ ان کے ایشوز اور مسائل ہی نہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے اسلامسٹ یا رائٹسٹ ہمیشہ پرامن عالمی اسلامی تحریکوں کے ہمدرد اور خیر خواہ رہے۔
ترکی میں نجم الدین اربکان تھے یا اب طیب اردگان، سوڈان کے امیر حسن ترابی، فلسطین کی حماس، مصر اور مڈل ایسٹ میں عمومی طور پر اخوان، تیونس کی النہضۃ، قطر میں علامہ قرضاوی کا سکول آف تھاٹ اور سب سے بڑھ کرمقبوضہ کشمیر کی حریت کانفرنس، ان سب میں ہر پاکستانی اسلامسٹ کی دلچسپی رہی ہے۔ یہ جذبات "مومن دوسرے مومن کے لئے خیر خواہی کا جذبہ رکھتا ہے" کے شرعی حکم کی پاسداری میں ہیں۔ جماعت اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد کی تنظیم اسلامی وغیرہ اس حوالے سے نمایاں ہیں۔
البتہ دینی مدارس اور خاص کر وفاق المدارس ایک لحاظ سے مولانا کا "حلقہ "ہے، اس لئے مدارس میں اصلاحات لانے کی حکومتی کوشش ہو یا عطیات کے آڈٹ کا نظام یا کچھ اور مسئلہ، وہاں پر مولانا فوری ایکٹو ہوجاتے ہیں۔ یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کی کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی نسبت مولانا دینی مدارس کے(مالی وانتظامی) معاملات کی بھرپور حفاظت، نگہداشت کرتے ہیں۔
پاکستانی اسلامسٹ یا رائٹسٹ حلقے کا ایک بڑا مسئلہ پاکستان میں اخلاقیات اور دینی اقدار کی حفاظت ہے۔ آپ ﷺ کا مشہور فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ حیا مومن کا جوہر ہے۔ اسلامی حلقے ہمیشہ پاکستان میں حیا، اخلاقیات، تہذیب، شائستگی وغیرہ جیسی اقدار کے لئے کھڑے ہوئے ہیں۔ فحاشی ان کا ہمیشہ ہدف رہی ہے۔ مغربی تہذیبی یلغار کے سامنے پچھلے چالیس پچاس برسوں سے پاکستانی رائٹسٹ ہی کھڑا ہے۔
سرکاری ٹی وی اور نجی چینلز پر ڈراموں، اشتہارات وغیرہ میں فحاشی، بدتمیزی، عامیانہ پن کے خلاف یہ آواز اٹھاتے ہیں۔ جماعت اسلامی اپنی تمام تر سیاسی غلطیوں اور خرابیوں کے باوجود بہرحال ان معاملات میں ہمیشہ متحرک اور فعال رہی۔ قاضی حسین احمد فحاشی کے تدارک کے لئے سپریم کورٹ میں گئے۔ جماعت اسلامی کے اکلوتے سینیٹر مشتاق احمد خان بہت فعال رہے ہیں۔
ٹرانس جینڈر قوانین ترمیم ہو، ایل جی بی ٹی کے قریب تر ایجنڈا رکھنے والی فلم کی نمائش رکوانا ہو یا تعلیمی نصاب میں دینی مواد کی شمولیت کا معاملہ ان سب میں مشتاق خان شامل رہے۔ بدقسمتی سے ایسی جدوجہد میں مولانا فضل الرحمن کبھی سرگرم نظر نہیں آئے۔ یوں لگتا ہے جیسے عوام کی اخلاقی زندگی ان کا مسئلہ ہی نہیں۔ اس بار البتہ ٹرانس جینڈر قانون کے حوالے سے جے یوآئی کے ارکان اسمبلی فعال ہوئے جو کہ خوش آئند ہے۔
مولانا فضل الرحمن عملاً ایک روایتی سیاستدان ہیں۔ موقعہ شناس، موقعہ پرست، ہر حال میں اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے والے۔ پاکستانی سیاست میں یہ معمول کی بات ہے۔ بیشتر جماعتیں اور سیاستدان ایسے ہی ہیں۔ مولانا پر ہمارا اعتراض یہ ہے کہ وہ یہ سب کچھ دین اور دینی جماعت کے علمبردار کے طور پر کرتے ہیں۔ وہ اپنی سیاست میں دین کو استعمال کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے، ان کے حامی وہاں مولانا فضل الرحمن کو پانچ لاکھ علما کا وارث قرار دے کر تقدس کی چادر اوڑھا دیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نامی اس روایتی سیاستدان پر تنقید تب انہیں علما پر تنقید اور ان کی توہین لگتی ہے۔
ہم جیسے تب سٹ پٹا کر یہی کہتے ہیں، بھیا جی ہم نے کبھی علما کرام کی توہین نہیں کی، مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہد الراشدی اور دیگر جید علما کے خلاف کبھی آواز اٹھائی؟ نہیں، کبھی نہیں۔ فضل الرحمن صاحب جب سیاست کریں گے، روایتی ڈرٹی پالیٹکس اور ا سکے ہتھکنڈے آزمائیں گے، اپنے مخالف سیاستدان اور ان کے کارکنوں پرعامیانہ ذاتی حملے کریں گے تو تنقید لازمی ہوگی۔ یہی معاملہ موروثیت اور اقربا پروری کا ہے۔
جب مولانا اپنے تمام بھائیوں، سمدھی، بیٹے اور خواہران نسبتی کو بغیر کسی میرٹ کے نوازیں گے تو سوال اٹھانا بنتا ہے۔ سوال اٹھایا جائے گا۔ اس کا مدلل جواب دینے کی ضرورت ہے، اعتراض کرنے والے پر طنزیہ زہریلے تیروں کی بوچھاڑ کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ ذرائع ابلاغ کے نت نئے فورمز کے اس زمانے میں یہ مذہبی اموشنل بلیک میلنگ نہیں چل سکتی۔