Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Morosi Siasat Per Eteraz Kyon?

    Morosi Siasat Per Eteraz Kyon?

    یہ چند سال پہلے کی بات ہے، اخبار کے میگزین کے لئے معروف خاتون سیاستدان بیگم عابدہ حسین کا انٹرویو کرنا تھا۔ ان دنوں وہ سیاست میں خاصی فعال تھیں۔ عابدہ حسین کا انٹرویو کرنے والے جانتے ہیں کہ ان کا ایک خاص دبنگ سا، کیئر فری سٹائل ہے۔ جو بات وہ کہنا چاہتی ہے، بغیر لگی لپٹی کہہ ڈالتی ہیں۔ ان کی سیاست روایتی انداز کی ہے، عام سیاستدانوں جیسی، مگر شخصیت عام سیاستدانوں والی نہیں۔ موروثی سیاست کے حوالے سے سوال کیا تو بیگم عابدہ حسین نے بھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا، اگر وکیل کا بیٹا وکیل، ڈاکٹر کے بچے ڈاکٹر، تاجر کا بیٹا تاجر، صنعت کار کا بیٹا صنعت کار اور کھلاڑی کا بچہ کھلاڑی بن سکتا ہے تو پھر سیاستدانوں کے بچوں کو بھی سیاست میں آنے کا پورا حق حاصل ہے۔ عابدہ حسین کی دلیل تھی کہ ووٹر نے فیصلہ کرنا ہے، اگر وہ کسی معروف سیاستدان کے بیٹے یا بیٹی کو اپنا ووٹ دے کر جتوائے تو پھر دوسرے کیسے اعتراض کر سکتے ہیں؟

    مجھے یاد ہے کہ انٹرویو کرتے ہوئے اس موقف پرتنقید ی سوالات کئے تھے، مگر وہ اپنے نقطہ نظر پر مضبوطی سے جمی رہیں۔ آج کل بھی موروثی سیاست کے حوالے سے کم وبیش اسی طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لوگوں کو موروثی سیاست کے دفاع میں زیادہ بولنا پڑتا ہے کیونکہ وہاں معاملہ صرف موروثی سیاست کا نہیں بلکہ پارٹی کی قیادت کا بھی ہے جو موروثیت کی بنا پر آگے منتقل ہو رہی ہے۔ ہم لوگ اکثر ٹاک شوز میں ان پارٹیوں کے رہنمائوں کو اس حوالے سے دفاع کرتے دیکھتے ہیں۔ ویسے مجھے ان پارٹی ترجمانوں یا ترجمان نما رہنمائوں پر ترس آتا ہے، غریب ایسے ایسے کمزور موقف کا مقدمہ لڑتے ہیں کہ ان کا چہرہ منہ سے نکلی باتوں کا ساتھ نہیں دیتا۔ معلوم نہیں اپنی فکر اور ضمیر کے خلاف اتنی باتیں کرنے کے بعد رات کو نیند کیسے آ جاتی ہوگی؟

    موروثی سیاست کے حامیوں کے موقف میں بنیادی کمزوری موجود ہے، ایک ایسا تضاد جس کی جانب ان کی نظر نہیں جاتی یا دانستہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔ سیاستدان کی اولاد کی جانب سے سیاست پر کسی کو اعتراض نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اپنے والدین کی وجہ سے ان کے ساتھ برتر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، انہیں Undue Favourدی جاتی ہے۔ وہ جو دوسروں کے حصے میں نہیں آتی۔ اس کے دو نقصان ہیں، بہت سے کیسز میں نالائق یا کم اہلیت رکھنے والا فرد آگے ٹاپ پر چلا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹیلنٹیڈ اور غیر معمولی اہلیت رکھنے والے لوگ سسٹم سے باہر کر دئیے جاتے ہیں۔ اس سے اور بہت سے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ آگے بڑھنے کا سوچتے ہی نہیں۔

    سیاستدانوں کی یہ دلیل غلط ہے کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر کا بیٹا انجینئر، تاجر کا بیٹا تاجر بن سکتا ہے تو ان کا بیٹا یا بیٹی سیاستدان رکن اسمبلی کیوں نہ بنے؟ ڈاکٹر کا بیٹا میرٹ پر میڈیکل کالج جا کر دوسروں کی طرح پڑھتا اورامتحان پاس کر کے ڈاکٹر بنتا ہے۔ یہی انجینئر، وکیل کا معاملہ ہے۔ ایسا نہیں کہ ایک دن ڈاکٹر فیصلہ کرے کہ اس کی شادی شدہ بیٹی آج سے کلینک میں مریضوں کو دیکھے گی اور اس کی جانشین ہوگی۔ تاجر، دکان داروں کے بچے ان کی ذاتی جائیداد سنبھالتے ہیں، وہ الگ معاملہ ہے، سیاستدان کی جائیداد ان کے بچے ہی سنبھالتے ہیں، مگر سیاسی جماعتیں ذاتی جائیدا د نہیں۔ سیاستدانوں کی اولاد عام سیاسی کارکن کی طرح گراس روٹ لیول سے سیاست کریں، برسوں کی محنت اور جدوجہد کے بعد بتدریج اوپر جائیں تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ مہذب جمہوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اوباما کی بچیوں یا ٹرمپ کی اولاد کو صدر یا گورنر بننے کے لئے اپنی پارٹیوں میں نیچے سے جدوجہد کرنا ہوگی۔ انہیں وہ سب کچھ اسی انداز میں کرنا ہوگا جو دوسرے امیدوار کرتے ہیں۔

    یہ ٹھیک ہے کہ عوام ووٹ دیتے ہیں، مگر کسی بڑی پارٹی کی ٹکٹ تو عوام کے اختیار میں نہیں۔ پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی کی ٹکٹ جسے مل جائے، اس کے حامی اور کارکن پھر ووٹ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ سیاسی دھڑے بازی میں بہت بار پارٹی ٹکٹ ملنے سے پچاس فیصد جیت یقینی ہوجاتی ہے۔ ان ٹکٹوں کے حصول ہی میں اقرباپروری کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی ایک حلقے سے الیکشن لڑتے ہیں توا ن کے دو بیٹے قومی اسمبلی کے دو الگ الگ حلقوں سے کیوں لڑیں؟ ان کے بچوں نے پارٹی کے لئے کیا ایسا کیا کہ ٹکٹیں ان پر نچھاور کی جائیں۔ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا ہونے کے علاوہ اور کیا خوبی ہے؟ کوئی نہیں۔ یہی بات شاہ محمود قریشی کے بارے میں ہے۔ خود ملتان کی ایک سیٹ سے لڑے اورشہر کی دوسرے سیٹ سے اپنے بیٹے زین قریشی کو لڑوایا۔ آخر کیوں؟ زین قریشی نے پی ٹی آئی کے لئے کیا جدوجہد کی، کتنا کام کیا؟ کیا اس کا کام اتنا نمایاں تھا کہ ایم این اے کا ٹکٹ اسے ہی دیا جاتا؟ قریشی صاحب، گیلانی صاحب کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ ان حلقوں سے پارٹی کے لئے سیاسی جدوجہد کرنے والے کسی موزوں شخص کو ٹکٹ دلواتے اور اس کے لئے مہم چلا کر اسے جتواتے؟ نصراللہ دریشک کی سربراہی میں ان کا خاندان راجن پور کا طاقتور سیاسی گھرانہ ہے۔ خاندان کے اندر بھی سیاسی اختلافات بھی رہے ہیں، مگر اس بار کئی نشستوں پر اسی فیملی کے لوگ براجمان ہیں، نصراللہ دریشک خود ایم این اے، دو بیٹے ایم پی اے، دیگر قریبی عزیز بھی مختلف ارکان اسمبلی کی نشستوں پر ہیں۔ ایسا صرف موروثی سیاست کی وجہ سے ممکن ہوسکتا ہے، ورنہ ایک فیملی میں ایک سیٹ کافی ہے۔ پرویز خٹک نوشہرہ میں مقبول ہوں گے، مگر کیا ضروری ہے کہ شہر کی دونوں ایم این اے سیٹیں اپنے گھر میں رکھی جائیں۔ کسی پر خود، کسی پر بھائی، کہیں بیٹا۔ آخر کیوں؟ اس شہر میں پی ٹی آئی کے لئے کام کرنے والا کوئی اور رہنما نہیں؟ یہی سپیکر اسد قیصر صاحب نے کیا۔ بات مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، ق لیگ، اے این پی، جے یوآئی یا کسی بھی دوسری جماعت کی نہیں، جماعت اسلامی کے سوا ہر جگہ یہی حال ہے۔ حیرت ہے کہ جماعت کیسے اس زہر سے ابھی تک محفوظ ہے۔

    یہی موروثیت ہے کہ اپنے بھائیوں، بچوں کے لئے ناروا طور پر آگے بڑھنے، ترقی کے راستے کھولو اور خاندان سے باہر والوں کو آگے نہ آنے دو۔ نقصان یہ ہے کہ نااہل یا اوسط درجے کے لوگ اوپر جاتے اور زیادہ اہل، نظریاتی، قربانی دینے والے کارکن، رہنما نظرانداز ہوتے ہیں۔

    جب ارکان اسمبلی، میئر، چیئرمین ضلع کونسل بننے کے لئے یہ گندا کھیل کھیلا جائے گا تو پھر پارٹی قیادت کے لئے اس سے بھی زیادہ ہوگا۔ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ بلاول بھٹو کو پارٹی قیادت سونپی گئی، ان کا کیا تجربہ تھا؟ ایک یونیورسٹی طالب علم کو ملک کی سب سے بڑی اور پرانی پارٹی سونپ دی گئی۔ سفید سر والے تجربہ کار سیاستدان اپنے سے آدھی عمر کے ناتجربہ کار نوجوان کے آگے شرمندہ شرمندہ سے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہی مریم نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ ان کی کیا جدوجہد اور تجربہ تھا؟ چلیں آج کل وہ جدوجہد کر رہی ہیں، مگر جانشینی کے لئے انہیں تب ہی منتخب کر لیا گیا، جب ابھی قومی منظرنامے پر ن لیگ کے لئے سب ہرا ہرا تھا۔ پنجاب میں خواجہ سعد رفیق آخر قائدحزب اختلاف کیوں نہیں بن سکتے؟ وہ ہر لحاظ سے حمزہ شہباز شریف سے زیادہ تجربہ کار، زیادہ قربانیاں دینے والے لیگی رہنما ہیں، مگر انہیں یہ منصب کبھی نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ کہیں آگے جا کر وزیراعلیٰ نہ بنانا پڑ جائے۔ اے این پی نظریاتی جماعت ہے، اسی طرح جے یوآئی کے کارکن دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں نظریہ اور اصول کارفرما ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایمل ولی خان سے زیادہ بہتر، زیادہ قربانی دینے والے، تجربہ کار لوگ اس پارٹی میں موجود نہیں؟ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے نے ابھی کچھ کیا ہی نہیں، وہ والد صاحب کے سیاسی جانشین سمجھے جا رہے ہیں۔ یہی اقرباپروری، یہی موروثی سیاست اور یہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔