عمر سعید شیخ کو پچھلے اٹھارہ برس ڈینیل پرل مرڈر کیس میں قید بھگتنا پڑی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے بھی انہیں الزام سے مکمل بری نہیں کیا بلکہ یہ کہا گیا کہ ان پر اس جرم کی معاونت کا الزام بنتا ہے، جس کی سزاسات سال قید ہے، مگر چونکہ وہ اٹھارہ سال قید پہلے ہی بھگت چکے ہیں، اس لئے انہیں رہا کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے سندھ کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، اگرچہ اس پر نظرثانی زیرسماعت ہے۔ سوال یہ ہے ڈینیل پرل مرڈر کیس ہے کیا اور اس میں عمر سعید شیخ کیوں ملوث ہوا؟
ڈینیل پرل معروف امریکی صحافی تھا۔ وہ نسلاً یہودی تھا، تاہم اس کی بیوی کے مطابق وہ مذہبی نہیں تھا، اپنی شادی میں بھی اس نے یہودی رسم ورواج کو فالو نہیں کیا۔ ڈینیل پرل امریکہ کے ممتاز اخبار وال سٹریٹ جرنل سے وابستہ تھا اور اس کے سائوتھ ایشیا بیورو کے انچارج کے طور پر ممبئی میں تعینات تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان اور افغانستان اچانک ہی خبروں کا مرکز بن گئے تو ڈینیل پرل نے بھی پاکستان کا رخ کیا۔ ڈینیل اور اس کی فرانسیسی نیشنل بیوی میریان پرل دونوں اسلام آباد مقیم رہیں، تاہم ڈینیل پرل کا کراچی چکر لگتا رہا۔ کراچی میں ڈینئل کی گہری دوست اور کولیگ اسرا نعمانی(Asra Q. Nomani) زمزمہ سٹریٹ پر ایک کرائے کے گھر میں رہائش پذیر تھی۔ اسرا کے والدین بھارتی نژاد مسلمان ہیں جو خاصا عرصہ قبل امریکہ منتقل ہوگئے۔ اسرا نعمانی بھی وال سٹریٹ جرنل کے لئے کام کرتی رہی۔ ڈینیل پرل اور اسرا کئی سال تک جرنل کے واشنگٹن بیورو میں ایک ساتھ کام کرتے رہے۔
اسرا نعمانی نے ڈینیل پرل کے قتل کے بعد اس پر خاصا کچھ لکھا ہے۔ ایک طویل مضمون 2014 میں واشنگٹن پوسٹ نے شائع کیا، اس میں اسرا نے ڈینیل پرل کے حوالے سے اپنی یادیں پراثر انداز میں شیئر کیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈینیل پرل اور وہ اس لئے دوست بنے کہ دونوں میں بہت کچھ مشترک تھا۔ دونوں کے والدین تارکین وطن تھے، سوچ اور مزاج ایک جیسا تھا۔ اسرا کے بقول اس نے ڈینیل کو بتایا کہ اپنے سکول کی پرام نائٹ پر وہ رقص کرنے نہیں جا سکی تھی کہ والد نے اجازت نہیں دی۔ یاد رہے کہ بیشتر مغربی سکولوں میں تعلیمی سال مکمل ہونے پر پرام (Prom)کی روایت موجود ہے، جس میں طلبہ آپس میں کپل بنا کر رقص کرتے ہیں۔ ڈینیل پرل نے اسرا کی تالیف قلب کے لئے ایک تقریب رکھی، جسے مڈ سمر نائٹ پرام کا نام دیا گیا۔ اسرا نعمانی کے مطابق ڈینیل پرل جب لندن بیورو چلا گیا تب بھی دونوں میں رابطہ رہا۔
نائن الیون کے چند ہفتوں بعد ایک اہم واقعہ ہو۔ بائیس دسمبر 2001 کوایک برطانوی نوجوان رچرڈ ریڈ جسے بعد میں شو بمبار کے نام سے پہچانا گیا، اس نے پیرس سے فلوریڈا جانے والی ایک امریکی فلائٹ میں سوار ہو کر اسے بم سے اڑانے کی کوشش کی۔ اس نے خاص قسم کے جوتے پہن رکھے تھے، جن میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا۔ وہ دانستہ جہاز کی ونڈو سیٹ پر بیٹھا تھا، اگر دھماکہ ہوجاتا تو کھڑکی تباہ ہوجاتی اور سوراخ ہوجانے کے بعد ہوا کے شدید دبائو سے جہاز تباہ ہوجاتا۔ رچرڈ ریڈ ناکام ہوا اور پکڑا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ رچرڈ ریڈ نے اس مخصوص جوتے کے لئے افغانستان کا سفر کیا تھاجہاں القاعدہ نے اسے یہ جوتا فراہم کیا۔ رچرڈ ریڈ ایک بدنام جرائم پیشہ شخص کا بیٹا تھا، وہ خود بھی لڑکپن میں مختلف چھوٹی موٹی وارداتوں میں ملوث رہا، جیل میں قید کے دوران اس نے اسلام قبول کیا۔ برطانوی خفیہ اداروں کے مطابق اس کے شدت پسند مذہبی گروپوں سے تعلق قائم ہوا اور ان کے کہنے پر وہ امریکی طیارے کو تباہ کرنے پر آمادہ ہوا۔ انہی دنوں امریکی اخبار بوسٹن گلوب کی ایک صحافی فرح سٹاک مین نے دعویٰ کیا کہ رچرڈ ریڈ کا لاہور کی ایک پراسرار مذہبی شخصیت مبارک شاہ جیلانی سے تعلق رہا۔ مبارک شاہ جیلانی دھرم پورہ لاہور میں واقع مشہورصوفی بزرگ حضرت میاں میر کی درگاہ کے گدی نشیں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ کئی سال تک امریکہ میں مقیم رہے اور کہا جاتا ہے کہ وہاں ان کے ہاتھ پر سینکڑوں سیاہ فام امریکیوں نے اسلام قبول کیا۔ فرح سٹاک مین کے مطابق رچرڈ ریڈ کی مبارک شاہ سے ملاقات ہوئی اور ان کی ترغیب اور تعاون سے اس نے دہشت گردی کا منصوبہ بنایا۔ مبارک شاہ جیلانی کا کردار کئی قسم کے اسرار میں لپٹا ہے۔ چند دن پہلے معروف صحافی خالد احمد نے نیوز ویک پاکستان کے لئے اپنے طویل مضمون میں مبارک شاہ جیلانی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر لکھا۔ سردست مبارک شاہ جیلانی کی شخصیت کو ہم ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے اصل موضوع سے جڑے رہتے ہیں، اس پر بعد میں بات ہوگی۔
ڈینیل پرل نائن الیون سے جڑی ہوئی مختلف سٹوریز کی تلاش میں تھا۔ پنڈی اور اسلام آباد میں وہ ان نئے، پرانے جہادی عناصر سے ملتا رہا جن سے کوئی دھماکہ خیز خبرنکل سکے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے عسکریت پسندی کی دنیا کے ایک اور پراسرار کردارخالد خواجہ سے بھی ملاقات کی۔ انہی دنوں پرل نے اپنے ایک دوست کو ای میل میں بتایا کہ میری ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جس کے ماضی میں اسامہ بن لادن سے بھی تعلقات رہے، اس نے مجھے کئی سابق جہادیوں سے ملوایا ہے۔ پرل کی بیوی میریان اور اسرا نعمانی کے مطابق وہ صاحب خالد خواجہ ہی تھے۔ یاد رہے کہ خالد خواجہ بعد میں جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے۔ وہ وزیرستان میں کرنل امام اور ایک مغربی صحافی کے ہمراہ گئے تھے۔ گورے کو تو شائد تاوان لے کر چھوڑ دیا گیا مگر کرنل امام اور خالد خواجہ کو ٹی ٹی پی کے ان دنوں سربراہ حکیم اللہ محسود نے قتل کر ا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ملا عمر نے اپنے ایک خط میں کرنل امام کو چھوڑ دینے کی ہدایت بھی کی تھی، مگر کسی وجہ سے یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ تاہم یہ چند برس بعد کا قصہ ہے۔
ڈینیل پرل نے فرح سٹاک مین کی بوسٹن گلوب والی سٹوری کے بعد پیر مبارک شاہ جیلانی کی تلاش شروع کی۔ وہ چاہتا تھا کہ مبارک شاہ جیلانی کا انٹرویو کر کے کچھ اگلوائے تاکہ شو بمبار کے حوالے سے نیا انکشاف سامنے آ سکے۔ اسرا نعمانی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ڈینیل پرل ممبئی کی انڈر ورلڈ کے مشہور ڈان دائود ابراہیم کے پاکستانی اداروں سے مبینہ تعلق کی سٹوری پر بھی کام کر رہا تھا۔ بھارتی خفیہ ادارے دائود ابراہیم پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے 1993ء میں ممبئی بم دھماکے کرائے تھے۔ ان دھماکوں پر ایک سے زائد بالی وڈ فلمیں بن چکی ہیں، دائود ابراہیم کے کردار کو بھی کئی بھارتی فلموں میں فلمایا گیا۔ یاد رہے کہ ان بم دھماکوں کے واقعات میں مشہور بھارتی فلم سٹار سنجے دت پر کیس چلا اور سزا سنائی گئی، الزام تھا کہ دھماکوں کے ایک ملزم کا اسلحہ سنجے دت نے اپنی کوٹھی میں چھپایا۔
ادھر ڈینیل پرل ہر مضطرب، پرجوش صحافی کی طرح کوئی بڑی سٹوری بریک کرنے کے چکر میں تھا تو دوسری طرف جہادی تنظیموں کا ایک معروف کردار بھی ڈینیل پرل کی اس خواہش کو استعمال کرنے کے لئے منصوبہ بنائے بیٹھا تھا۔ کراچی پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے مطابق یہ جہادی عمر سعید شیخ تھا۔ لندن سکول آف اکنامکس میں تعلیم پانے اور پھر اسے چھوڑ کر عسکریت پسندی کی راہ اپنانے والا نوجوان، جس نے بھارت میں چار مغربی سیاحوں کو اغوا کر کے جہادی کمانڈروں کو چھڑانے کی کوشش کی۔ جس نے پانچ سال تہاڑ جیل میں قید کاٹی اور پھر بھارئی طیارہ ہائی جیکنگ کیس کی وجہ سے وہ رہا ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ عمر سعید شیخ رہائی کے بعد پاکستان پہنچ کر جیش محمد کا حصہ بن گیا تھا۔
جیش محمد وہ جہادی تنظیم ہے جو مولانا مسعود اظہر نے بھارتی جیل سے رہائی پانے کے چند ماہ بعد تشکیل دی۔ اس میں شامل ہونے والے زیادہ تر جنگجووں کا تعلق حرکت الجہاد الاسلامی اور حرکت المجاہدین سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کے ممتاز عالم دین مفتی نظام الدین شامزئی کی مسعود اظہر کو حمایت حاصل تھی۔ نجم سیٹھی کے اخبار فرائیڈے ٹائمز نے ان دنوں شامزئی صاحب کا ایک مبینہ خط بھی شائع کیا، جس میں حرکت المجاہدین کے سربراہ کو کچھ گاڑیاں اور کئی کروڑ کے اثاثے مسعود اظہر کو دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ممکن ہے وہ خط فیک ہو، مگر اس الزام کی تردید نہیں کی گئی یا اس جریدے کودرخوراعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔
جناب نظام الدین شامزئی پاکستانی جہادی تنظیموں میں بہت مقبول رہے ہیں۔ شامزئی صاحب اپنے دو ٹوک موقف کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ ان کے ایک متنازع فتوے کی وجہ سے پاکستانی حساس ادارے خاصے مضطرب رہے۔ اس فتوے کی تفصیل غیر ضروری ہے، ویسے بھی وقت نے اسے غلط ثابت کر دیا۔ شامزئی صاحب بعد میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، میبنہ طور پرایک کالعدم فرقہ ورانہ تنظیم نے انہیں قتل کیا۔ جیش محمدبہت تھوڑے عرصے میں بڑی جہادی تنظیم بن کر ابھری۔ کئی سال پہلے عمر سعید شیخ کے حوالے سے یادیں تازہ کرتے ہوئے جیش کے ایک سابق رکن نے کسی جریدے میں لکھا تھا کہ ان دنوں ہماری ٹریننگ کے آخر میں بطور موٹیویشنل سپیکر عمر سعید شیخ کی تقریر ہوتی تھی۔ یہی عمر سعید شیخ جنوری 2002 میں نیا منصوبہ بنا کر ڈینیل پرل کو ملا۔ (جاری ہے)