سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ اپنے ان کالموں کے ذریعے کسی کو ہیرو یا اینٹی ہیرو بنانا یا ثابت کرنا مقصود نہیں۔ عمر سعید شیخ ممکن ہے جہادی حلقوں کے لئے آج بھی پرکشش شخصیت ہو، ایک صحافی کے طور پر میرے لئے وہ محض ایک کردار ہے۔ عسکریت پسندی کے ایک طالب علم کے طور پر مختلف گوریلا تنظیموں، ان کے کمانڈروں اور حکمت عملی پر لکھتا رہا ہوں۔ ایک زمانے میں، گارگل جنگ کے دوران، مشہور کشمیری گوریلا کمانڈر الیاس کشمیری کا انٹرویو کرنے کا موقعہ ملا۔ ان دنوں اردو ڈائجسٹ کے لئے کام کرر ہا تھا۔ بعد میں ہم سماہنی سیکٹر گئے اور وہاں حرکتہ الجہاد الاسلامی کے ساتھ حرکت المجاہدین، جیش، لشکرکے جنگجوئوں کا انٹرویو کرنے کا موقعہ ملا۔ کیا جوش اور ولولے سے بھرے نوجوان تھے۔ معلوم نہیں وقت کے تھپیڑوں نے انہیں کہاں پہنچا دیا، زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ بطور صحافی اس سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، کئی باتیں اس وقت نوٹ کیں اور کھٹکا، بعد میں وہ درست نکلیں، تاہم الیاس کشمیری اس وقت پاکستانی ریاست کے ہیروز میں سے تھے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے انہیں بلا کر کئی لاکھ روپے نقد انعام بھی دیا تھا۔ جس واقعے پر ایسا کیا گیا، وہ بذات خود ایک دلچسپ ڈرامائی داستان ہے، مگر اسے سردست رہنے دیتے ہیں، ہمارا سلسلہ ڈی ٹریک ہوجائے گا۔ میری کوشش ہوگی کہ کوئی پوزیشن لئے بغیر کمنٹری کی جائے، جو جیسا ہے، ویسا بیان کرنے کی کوشش۔
عمر سعید شیخ کے بارے میں کچھ تفصیل میرے گزشتہ (جمعرات، چار فروری)کے کالم میں آ چکی ہیں۔ اس کے والد لندن میں مقیم ایک خوشحال کاروباری تھے، ایک مہنگے نجی سکول میں اس نے تعلیم حاصل کی، لندن سکول آف اکنامکس میں داخلہ لیا۔ اس کے ایک کلاس فیلو Daniel Flynnنے نیوز ایجنسی رائٹر کے لئے ایک تفصیلی بلاگ لکھا، جس میں بتایا کہ عمر شیخ ابتدا ہی سے غصیلا لڑکا تھا، وہ باکسنگ کا جونیئر چیمپین رہا، اسے مسلز بنانے کا بڑا شوق تھا، ورلڈ آرم ریسلنگ چیمپین شپ میں بھی حصہ لیا۔ ڈینیل فلائن کے مطابق سکول کے زمانے ہی میں عمر شیخ ہمیشہ فخریہ اپنے وطن کا ذکر کرتا اور وہ جنرل ضیا کی آمرانہ حکومت کی اسلامائزیشن کا بھی مداح تھا۔ ڈینیل کے مطابق عمر شیخ ہمیشہ کسی نہ کسی پب میں ملتا، اگرچہ وہ شراب کے بجائے صرف دودھ پیتا، مگر وہاں موجود لوگوں سے پنجہ لڑاتارہتا۔ عمر شیخ کی تاریخ پیدائش 1973بتائی جاتی ہے، اس اعتبار سے وہ انیس سال کا ہو گا جب اس کے کالج میں بوسنیا کے مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر ہفتہ منایا گیا۔ وہاں اس نے مظلوم بوسنیائی مسلمانوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم دیکھی، جس نے عمر شیخ کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے ایک امدادی تنظیم کے ساتھ بوسنیا جانے کا فیصلہ کیا۔ واپسی پر اس نے تعلیم چھوڑ دی اور عسکریت پسندی کی طرف چل نکلا۔ مبینہ طور پر لندن کے ایک شدت پسند عرب امام مسجد نے عمر شیخ کو تربیت کے لئے افغانستان جانے کا مشورہ دیا۔
بتایا جاتا ہے کہ عمر شیخ نے افغانستان میں حرکت المجاہدین کے تربیتی کیمپس سے کچھ تربیت پائی اور پھر اسے بھارت بھیجا گیا۔ عمر شیخ جولائی 1994 میں بھارت آیا۔ اس کے آنے سے پہلے ایک اہم واقعہ ہوا۔ فروری 1994 میں معروف کشمیری جہادی تنظیم حرکت الانصار کے چیف کمانڈر سجاد افغانی سری نگر میں گرفتار ہوگئے۔ ان کے ساتھ پاکستان سے صحافی کے طور پر گئے ہوئے جہادی ایکٹوسٹ لکھاری اور حرکت الانصار کے جنرل سیکرٹری مولانا مسعود اظہر بھی تھے۔ وہی مسعود اظہر جنہوں نے چھ سال بعد اپنی الگ سے جہادی تنظیم "جیش محمد" بنائی اور بعد میں انہیں اتنی شہرت ملی کہ بھارت، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک کی جانب سے انہیں موسٹ وانٹیڈ ٹیررسٹ کہا گیا۔ یہ مگر بعد کا قصہ ہے، ان دنوں مسعود اظہر کی شہرت ایک ادیب، لکھاری اور پرجوش مقرر کی تھی۔ جہادی حلقوں میں ان کی کتابیں اور تحریریں بہت شوق سے پڑھی جاتی تھیں، ان کی تقریروں کی آڈیو کیسٹیں ہاٹ کیک کی طرح جہادی حلقوں میں چلتی تھیں۔ مسعود اظہرکے جانے کامقصد حرکت الانصار کے دو دھڑوں میں اختلاف ختم کرانا تھا، تاہم مسعود اظہر کے مخالف جہادی حلقے اس کے برعکس کہانی سناتے ہیں۔
یہاں ضروری ہے کہ تھوڑا حرکت الانصار کے بارے میں بھی بتا دیا جائے۔ حرکت الانصار دراصل دو معروف پاکستانی جہادی تنظیموں حرکتہ الجہاد الاسلامی (HUJI)اور حرکت المجاہدین(HUM)کے ادغام سے بنی۔"حرکتہ الجہاد الاسلامی" دینی حلقوں یا کہہ لیں دیوبندی دینی حلقوں سے پھوٹنے والی سب سے پرانی تنظیم ہے۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے ابتدائی دنوں میں جامعہ بنوریہ کے چند طالب علموں نے مولانا ارشاد حسین کی قیادت میں یہ تنظیم بنائی، ان کے ساتھیوں میں قاری سیف اللہ اختر بھی شامل تھے۔ قاری سیف اللہ اختر کا نام بے نظیر حکومت کے دوسرے دور میں میجر جنرل ظہیر الاسلام اور بریگیڈئر مستنصر باللہ کی زیرقیادت فوجی انقلاب لانے کی ناکام کوشش میں معاونت کے حوالے سے بھی لیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ بھی اتنا ڈرامائی ہے کہ پوری فلم نہ سہی تو کسی سیزن کا ایک یا دو قسطیں اس پرفلمائی جا سکتی ہیں۔ حرکتہ الجہاد الاسلامی نے افغان جہاد میں حصہ لینے والی سات جہادی تنظیموں میں سے ایک کے قائد مولوی محمد نبی محمد ی کی حرکت انقلاب اسلامی کے ساتھ مل کر افغان جہاد میں حصہ لیا۔ مولوی صاحب بھی دیوبندی سکول آف تھاٹ کے تھے۔ 1985ء میں ایک معرکے میں قاری ارشاد حسین شہید ہوگئے، ان کی جگہ حرکتہ الجہاد الاسلامی کے امیر قاری سیف اللہ اختر بنے، مگرتنظیم کے ایک اور معروف کمانڈر فضل الرحمن خلیل الگ ہوگئے، انہوں نے حرکت المجاہدین کے نام سے ایک اور تنظیم بنا لی۔ یہ دونوں تنظیمیں اگلے پندرہ سولہ برسوں تک کام کرتی رہیں، حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف نے ان تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔
روس کے جانے کے بعد جب مقبوضہ کشمیر میں تحریک مزاحمت شروع ہوئی تو جدوجہد میں مقامی کشمیری جہادی تنظیم حزب المجاہدین سرفہرست تھی۔ کچھ عرصے کے بعد ان دونوں جہادی تنظیموں نے بھی وہاں کا رخ کیا۔ کہہ لیں کہ انہیں ریاست کی "اخلاقی "مدد اور سرپرستی حاصل تھی۔ ان دونوں تنظیموں نے بعد میں ادغام کر کے "حرکتہ الانصار" بنائی اور اپنے تیز رفتار گوریلا حملوں سے مقامی انتظامیہ اور بھارتی فورسز کو مفلوج کر دیا۔ بعد میں اختلافات پیدا ہوئے تو انہیں سلجھانے کے لئے مولانا مسعود اظہر سری نگر پہنچے۔ ایک اتفاقی واقعے میں یہ دونوں پکڑے گئے۔
کمانڈرسجاد افغانی کا جہادی حلقے بہت احترام کرتے تھے۔ وہ راولا کوٹ کے رہائشی بتائے جاتے مگر افغان جہاد میں کئی برس تک حصہ لینے کی وجہ سے سجاد افغانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ سجاد افغانی پندرہ جولائی 1999 کو کوٹ بلوال جیل سے فرار ہونے کی ناکام کوشش کے بعد جیل گارڈز کے تشدد سے شدید زخمی ہوئے اور جانبر نہ ہوسکے۔ انہیں گجر نگر، جموں کے ایک مسلم قبرستان میں دفنایا گیا۔ قارئین کے لئے یہ ممکن ہے نئی خبر ہوکہ اس سانحے کے چند ماہ بعد جب ایک بھارتی طیارہ اغواکر کے قندھار، افغانستان لے جایا گیا اور اس کے بدلے مسعود اظہر، عمر شیخ اور مشتاق زرگر کو رہا کرایا گیا تو اس وقت ہائی جیکر کے ابتدائی مطالبات میں سجاد افغانی کی ڈیڈ باڈی کو قبرستان سے نکال کر افغانستان پہنچانے کا مطالبہ بھی شامل تھا، بعد میں اس تکنیکی مشکلات کے باعث یہ مطالبہ ترک کر دیا گیا۔ اس سے سجاد افغانی کی جہادی جنگجوئوں میں اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ تاہم یہ واقعات پانچ سال بعد پیش آنے تھے۔ ابھی ہم 1994 میں ہیں۔
عمر سعید شیخ کے بھارت جانے کا بنیادی مقصد اپنے ان ممتاز جہادی کمانڈروں کو رہا کرانا تھا۔ اس نے دہلی میں مقیم امریکی اور برطانوی سیاحوں سے میل جول بڑھانا شروع کیا۔ نوجوان عمر شیخ کی شخصیت پرکشش تھی۔ وہ بڑی عمدہ انگریزی بولتا، یورپی کلچر سے واقف تھا۔ شطرنج سے باکسنگ اور ریسلنگ سے کھانے پکانے تک ہر موضوع پر روانی سے بول سکتا تھا۔ اپنی معصوم چمکدار آنکھوں اور وجیہہ سراپے کے ساتھ بیس اکیس سالہ عمر شیخ بے ضرر نوجوان نظر آتا۔ وہ اردو اور پنجابی بھی اچھی بول لیتا تھا۔ اس نے برطانیہ سے تعلیم پانے والے ایک ہندوستانی نوجوان روہت شرما کے طور پر تین برطانوی شہریوں پال بنجمن، کرسٹوفر مائلس اور رائز پیٹریج سے دوستی بنا لی۔ رائز پیٹریچ شطرنج کا شوقین تھا، عمر شیخ نے اسے اپنے کھیل سے متاثر کر دیا۔ انہیں کہانی سنائی کہ اس کاانڈین زمیندار انکل ایک پورا گائوں اس کے نام ترکہ چھوڑ کر مرا ہے۔ برطانوی سیاحوں کو اس نے گائوں دکھانے کی دعوت دی، وہاں کے کلچر، ناچ گانوں اور لذیذ مقامی کھانوں کا سحر انگیز تذکرہ کیا اور تینوں کو ساتھ لے جا کر سہارن پور کے مضافات میں ایک مکان میں قید کر دیا۔
عمر شیخ کا مقصد ابھی پورا نہیں ہوا تھا، وہ کسی امریکی شہری کو بھی اغوا کرنا چاہتا تھا تاکہ امریکی میڈیا متوجہ ہو۔ اس کی نظر سان فرانسسکو کے ایک بیالیس سالہ ٹیچر بیلہ نیس پر پڑی۔ ایک دن بیلہ نیس ایک ڈھابے سے کھانا کھا رہا تھا کہ عمر شیخ ایک کھلندڑے نوجوان کے حلیہ میں اسی میز پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے امریکی ٹیچر سے رواں انگریزی میں گپ شپ شروع کر دی، پوچھا کہ انڈیا کیسے لگا، کیا چیز اچھی لگی وغیرہ وغیرہ۔ بیلہ نیس نے مسکراتی آنکھوں والے ا س نوجوان انڈین کا خیر مقدم کیا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ تھوڑی دیر بعد کیا ہونے والا ہے؟ (جاری ہے)