پی ڈی ایم کے مینار پاکستان، لاہور پر جلسے کو مکمل طو رپر ناکام یا مایوس کن کہنا درست نہیں ہوگا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پولیس، سپیشل برانچ اور آئی بی نے چار پانچ ہزار افراد کی شرکت کی رپورٹ کی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو پھر ان تینوں سویلین اداروں کو اپنا مانیٹرنگ سسٹم بہتر بنانے کی شدید ضرورت ہے، کم از کم اپنے مخبروں کی عینک کا نمبر ہی بدلوا دیں۔ جلسے کی حاضری ان رپورٹوں سے کہیں زیادہ تھی۔ محتاط اندازے کے مطابق بیس پچیس ہزار کے لگ بھگ لوگ ہوں گے۔ لاہورمیں اتوار کے دن خاصی سردی تھی، سرما کی اب تک سب سے ٹھنڈی شام دیکھنے کو ملی۔ کورونا کا لاہور میں خاصا زور ہے، اگرچہ لاہورئیے ماسک وغیرہ پہننے کی زیادہ زحمت نہیں کرتے، مگر کورونا کے باعث خواتین اور فیملیز ایسے عوامی اجتماع میں جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس حساب سے شرکا کی تعدادبری نہیں تھی۔ یہ کسی بھی اعتبار سے جلسی نہیں تھی، جیسا کہ حکومتی ترجمان دعوے کر رہے ہیں۔
یہ بات البتہ درست ہے کہ پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ غیر معمولی طور پر بڑا نہیں تھا۔ سیاسی اصطلاح میں جسے عوامی سیلاب کہا جائے، ویسا بالکل نہیں۔ اپوزیشن اتحاد سے تین غلطیاں ہوئیں۔ لاہور کے جلسہ کے حوالے سے غیر ضروری طور پر توقعات بڑھائی گئیں۔ پی ڈی ایم کے لیڈران نجانے کیوں اتنی ہائپ بناتے رہے؟ آر یا پار کا پرجوش (Ambitious) سلوگن دیا گیا۔ مریم نوازشریف نے اپنے بیانات میں بڑے بڑے دعوے کئے۔ یوں تاثر دیا جیسے لاہور جلسے کے بعد نجانے کیا ہوجائے گا؟ حکومت گر جائے گی یا اسمبلیوں سے استعفے آ جائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہونا بھی نہیں تھا، مگر اس کے اشارے کیوں دئیے گئے؟
پی ڈی ایم نے لاہور کا جلسہ اپنے جلسوں کے شیڈول کے آخر میں رکھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ جلسہ ایسا مومینٹم بنا دے گا، جس کے بعد حکومت کا ٹھیرنا ممکن نہیں رہے گا۔ جلسے کے بعد یہ تاثر نہیں جم سکا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں کہہ دیا کہ جنوری کے اواخر یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ہوگا۔ تیرہ دسمبر کو یہ بات کہی گئی یعنی اگلے پانچ چھ ہفتے تک کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بات مومینٹم بنانے نہیں، توڑنے والی (Anti Momentum) ہے۔
پی ڈی ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ لاہور میں ان کی حریف جماعت تحریک انصاف دو تین بہت بڑے جلسے کر چکی ہے۔ عمران خان کا تیس اکتوبر 2011کا جلسہ تو ایک مثال کے طور پر موجود ہے۔ اس میں اگر لاکھوں نہیں تو کم از کم لاکھ سوا لاکھ لوگ تھے۔ مینار پاکستان پر ڈاکٹر طاہر القادری بھی بڑے اجتماع کرتے رہے ہیں۔ لاہور کے کسی بھی بڑے اجتماع کا موازنہ دس اپریل 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی واپسی پر لاہور میں فقید المثال استقبال اور جلوس سے کیا جاتا ہے۔ تیرہ دسمبر کا پی ڈی ایم کا جلسہ واضح طور پر عمران خان کے تیس اکتوبر کے جلسہ سے کم تھا جبکہ بی بی کے استقبال سے یہ ہر حالت میں خاصاچھوٹا رہا۔ ایک اور نکتہ اہم ہے کہ ماضی کے یہ بڑے اجتماع کسی ایک پارٹی کی محنت کا نتیجہ تھے، جبکہ پی ڈی ایم کے جلسہ کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ گیارہ جماعتوں کو جاتا ہے۔ عام آدمی یہی سوال پوچھتا ہے کہ گیارہ جماعتیں مل کر بھی صرف اتنے لوگ اکٹھی کر سکیں؟ اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان میں سے بعض کا لاہور یا پنجاب میں حلقہ اثر موجود ہی نہیں۔
اپوزیشن اتحاد اور اس کے کارکن اب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ لاہور میں جلسہ رکھنے کا مقصد کیا تھاا ور ایسا کر کے اپنا بھرم گنوانے کی کوشش کیوں کی گئی؟ مریم نواز شریف نے اپنی تقریر کا تمام تر فوکس عمران خان پر رکھا، سخت تنقید کی، تند وتیز جملے اچھا لے، خان کی پرانی ویڈیوز چلوائیں۔ یہ سب کچھ وہ مسلسل کر رہی ہیں، ہر جلسے میں ایک ہی تقریر کا ری پلے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کے حامی ممکن ہے صبر سے کام لے رہے ہوں، مگر ہم اخبارنویس جنہیں ہر جلسے کو باقاعدہ مانیٹر کرنا پڑتا ہے، وہ ایک ہی سٹائل کی تقریروں سے سخت بور ہوچکے ہیں۔ مریم نواز کو ہر بار کچھ نیا اضافہ کرنا چاہیے۔ چلیں تقریر ہی کسی اور سے لکھوا لیا کریں تاکہ نئی ڈکشن اور فقروں میں تازگی تو ملے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گلگت بلتستان کے الیکشن میں خاصی بھرپور انتخابی مہم چلائی اور اپنی انرجی سے مثبت تاثر چھوڑا۔ لاہور کے جلسہ میں البتہ وہ آف کلر اور مایوس کن مقررلگے۔ بلاول کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بھی کہنے کو کچھ نیا نہیں۔ وہ ایک ہی انداز میں چیخ چیخ کر بولتے ہیں اور گھسے پٹے جملے ہر بار دہراتے ہیں۔ ان کے اتالیق انہیں یہ بات کیوں نہیں سمجھاتے کہ صرف گلا پھاڑ کر پرجوش جملے بولنے سے بھٹو نہیں بنا جا سکتا، بھٹو جیسا مطالعہ، کامن سینس اور اوریجنل تیز دھار جملے بھی ضروری ہیں۔ بلاول کی مجبوری یہ ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی بیڈ گورننس پر تنقید کرتے ہیں تو لوگوں کو سندھ حکومت کی کارکردگی یاد آ جاتی ہے۔ سندھ حکومت کے ہاتھوں کراچی اور دیگر شہروں کے انفراسٹرکچر کی تباہی ہر ایک کے سامنے ہے۔ بلاول بھٹو کی نسبت آصفہ بھٹو ملتان میں زیادہ پراعتماد لگیں۔ آصفہ میں بڑے بھائی کی نسبت زیادہ پوٹینشل اور سپارک نظر آیا، اگرچہ تقریر ان کی بھی روایتی اور گھسی پٹی تھی۔
مریم نواز اور بلاول بھٹو کی نسبت مولانا فضل الرحمن کی تقریر زیادہ مرتب، مربوط اور منطقی تھی۔ انہوں نے نسبتا ً شائستگی سے باتیں کیں۔ قرینے سے خاصا کچھ بین السطور بھی کہہ دیا، اگرچہ ایک آدھ بار وہ بھی لکیر عبور کر گئے۔ پی ڈی ایم کی سیاست سے زیادہ فائدہ مولانا فضل الرحمن کو پہنچا ہے۔ پہلی بار وہ مرکزی سیاستدان بن کر سامنے آئے ہیں۔ ایک زمانے میں جو حیثیت اپوزیشن جماعتوں میں نوابزادہ نصراللہ کو حاصل تھی، اب وہی جگہ مولانا فضل الرحمن لے رہے ہیں۔ ایک فرق کے ساتھ کہ نوابزادہ صاحب کو جذبات میں لانا یا مشتعل کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ پر قابو رکھتے اور اپنا غصہ سگار یا حقے کے کش میں اڑا دیتے تھے۔
میاں نواز شریف کا مسئلہ یہ ہے کہ جس نکتہ اختتام پر انہیں لاہور کے جلسہ میں پہنچنا چاہیے تھا، انہوں نے اس تحریک کا آغاز ہی اس سے کر دیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں تقریرکے دوران وہ تمام سرخ لکیریں عبور کر لیں، جن سے پہلے خاصا سوچ لینا چاہیے تھا۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کے جلسے، پھر کوئٹہ میں بھی وہی باتیں کہیں۔ لاہور میں میاں صاحب کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں بچا تھا۔ وہ آگے کا پلان دینے کے بجائے لوگوں سے پوچھتے رہے کہ میں کس کا نام لوں؟ اصولاً یہ باتیں انہیں اپنی پہلی تقریر میں کرنی چاہیے تھیں۔ اس کے بعد دوسری تقریر میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے، تیسری میں کچھ اور آگے بڑھ جاتے اور پھر لاہور کے جلسے میں وہ باتیں کہتے جو پہلی تقریر میں کہی تھیں تو اب ہر جگہ میاں نواز شریف کی تقریر ڈسکس ہو رہی ہوتی۔ میاں صاحب کی غلط حکمت عملی سے اس کے الٹ ہو ا۔
پی ڈی ایم کی مجبوری یہ ہے کہ انتہائی مختلف آرا والے سیاستدانوں کا یہ اتحاد ہے اور اس میں محمود اچکزئی جیسے عاقبت نااندیش اور غیر ذمہ دار سیاستدان بھی شامل ہیں۔ اچکزئی صاحب پر شدید حیرت ہوئی کہ اتنا سیاسی تجربہ اور عمر میں بزرگی حاصل کرنے کے باوجود ان میں بنیادی نوعیت کی کامن سینس کی اتنی کمی کیسے ہے؟ ان کے تعصبات اس قدر شدید ہیں کہ عقل وفہم پر حاوی ہوجاتے ہیں یا پھر انہیں پتہ نہیں چلتا کہ کون سی بات کہاں کہنی ہے۔ کراچی میں انہوں نے اردو کے خلاف خواہ مخواہ بات کی۔ غلط جگہ اور غلط وقت پر ناموزوں بات کہی۔ اس پر ردعمل ہونا فطری تھا۔ وہ لاہور تشریف لائے، لاہوریوں کے مہمان تھے، انہوں نے اپنی تقریر میں لاہور اور پنجابیوں کو ہدف بنا ڈالا، اس پر طوفانی ردعمل آ رہا ہے۔ دنیا کے کسی بھی سماج میں مہمان یہ دیکھتا ہے کہ میزبانوں کی دل آزاری نہ ہوجائے۔ پختون کلچر میں اس کی حساسیت خاص طور سے زیادہ ہے۔ اچکزئی صاحب جانے کون سے گڑے مردے اکھاڑنے لگے۔ اول تو ان کی بات تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ تاریخی مغالطہ اور قوم پرستانہ مبالغہ۔ جو طعنہ انہوں نے لاہوراور پنجاب کو دیا، وہ پاکستان کے کسی بھی صوبے اور قوم کو دیا جا سکتا ہے۔ کون سی ایسی قوم تھی جس نے انگریزوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے؟ انگریز بہادر کی بگھی کھینچنے والے سردار بھی تاریخ کاحصہ ہی ہیں۔
دوسرا اس بات کا موجودہ سیاسی حالات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایک غیر ضروری، غیر متعلق سیاسی بحث۔ تیسرا اس سیاسی اتحاد میں پنجاب کی سب سے بڑی جماعت کے ساتھ پختون، بلوچ قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں، ایسے میں غیر ضروری پنجابی پختون مناقشہ چھیڑنے کا مقصد کیا ہے؟ پی ڈی ایم کا جلسہ بھرپور تاثر نہیں چھوڑ پایا، رہی سہی کسر غیر متاثر کن تقریروں اور اچکزئی صاحب کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو نے پوری کر دی۔ پی ڈی ایم والوں کو کوئی نذر نیاز، صدقہ وغیرہ دینا چاہیے۔ یہ اتحاد اپنی پہلی سہہ ماہی میں نظر بد کا شکار ہوچکا ہے۔