Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Pakistan Cricket Board Ko Teen Mashware

Pakistan Cricket Board Ko Teen Mashware

پاکستانی کرکٹ کی ذمہ داری آ ج کل نجم سیٹھی کے ہاتھ میں ہے۔ سیٹھی صاحب معروف صحافی، اینکر اور لکھاری ہیں۔ انہیں کرکٹ بورڈ کا کرتا دھرتا بنایا گیا، وہ پہلے بھی یہ ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔ پی ایس ایل شروع اور کامیاب کرنے کا سہرا نجم سیٹھی کے سر جاتا ہے۔ انہیں وزیراعظم شہباز شریف کا اعتماد بھی حاصل ہے، اسی وجہ سے وہ بڑے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اگر دھچکا لگے تو ان کی سیٹ کو خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ یہ پلس پوائنٹ ہے اور ساتھ ہی نہایت خطرناک بھی۔ اس لئے کہ جب نتائج کا خوف نہ ہو تو کئی بار آدمی بلاوجہ کا ایڈونچر کر گزرتا ہے۔ عام حالات میں شائد اس کا وہ رسک نہ لے۔

نجم سیٹھی نے آتے ہی کرکٹ بورڈ کا پرانا آئین بحال کیا ہے۔ چلیں وہ تو ان کی تکنیکی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر وہ چیئرمین کرکٹ بورڈ نہیں بن سکتے۔ اگلا قدم انہوں نے چیف سلیکٹر محمد وسیم کو اچانک برطرف کر کے اٹھایا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سکواڈ کا اعلان ہوچکا تھا، بہتر ہوتا کہ وسیم کو ون ڈے سکواڈ کی ذمہ داری ادا کرنے اور سیریز ختم ہونے کے بعد ہٹایا جاتا۔ وسیم سے بات کر لی جاتی تو ممکن ہے وہ خود ہی استعفا دے دیتے۔ شاہد آفریدی کو ان کی جگہ پر عبوری چیف سلیکٹر بنایا گیا۔ یہ اچھا فیصلہ ہے، اس لئے کہ آفریدی ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کرکٹ کھیلتے رہے، وہ بہت سے کھلاڑیوں سے براہ راست واقف ہیں، ان کے ساتھ عبدالرزاق اور رائو افتخار انجم کو سلیکٹر بنایا۔ یہ بہترین فیصلہ ہے کیونکہ عبدالرزاق ڈومیسٹک ٹیموں کی کوچنگ کر رہے ہیں اور ان کی کوچنگ میں پچھلے سال کے پی تینوں فارمیٹ میں چیمپین بنی، رائو افتخار بھی انڈر نائنٹین اور اے ٹیم کی کوچنگ میں شامل رہے۔

سیٹھی صاحب نے قومی ٹیم کے کوچز کو بدلنے کا اعلان بھی کیا۔ اس وقت ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق اور بیٹنگ کوچ محمد یوسف ہیں جبکہ بائولنگ کوچ سابق آسٹریلین فاسٹ بائولر شین ٹیٹ ہیں۔ بہتر ہوتا کہ تھوڑے دن برداشت کر لیا جاتا کیونکہ فروری میں ویسے بھی ثقلین اور یوسف کے کانٹریکٹ ختم ہو رہے ہیں۔ جاری سیریز میں کوچ بدلنے کا اعلان انہیں مضطرب اور پریشان کرنے کے برابر تھا۔

قومی ٹیم کے لئے نئے کوچ ضروری ہیں۔ نجم سیٹھی چاہتے ہیں کہ اس مقصد کے لئے غیر ملکی کوچ لائے جائیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہماری ٹیم کو اعلیٰ پائے کے کوچ کی ضرورت ہے جو کھلاڑیوں کو جدید سٹائل کی کرکٹ میں مہارت دلا سکے۔ اچھا فیلڈنگ کوچ بھی لازمی ہے۔ بہترین کوچ ڈھونڈنے کے لئے مشاورت اور ہوم ورک کرنا چاہیے۔ فاسٹ بائولنگ کوچ ایسا ہونا چاہیے جس کے مقام اور مہارت سے ہمارے نوجوان فاسٹ بائولر متاثر ہوسکیں اور دل سے اس کی شاگردی کریں۔ غیر معروف اور اوسط درجے کے بائولنگ کوچ کھلاڑیوں کا اعتماد اور احترام نہیں جیت سکتے۔ البتہ ہائی پرفارمنس سنٹر کے لئے مقامی کوچ ہی درکار ہیں۔ ایسے کوچ جو سال بھر اکیڈمی میں رہ سکیں۔ بہتر ہوگا کہ محمد یوسف کو ہائی پرفارمنس سنٹر میں لگایا جائے، ان کی تکنیکی مہارت سے نوجوانوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ البتہ پاور ہٹنگ کے لئے علیحدہ کیمپ لگیں اور مختصر مدت کے لئے غیر ملکی کوچ منگوائے جائیں۔

سب سے اہم یہ ہے کہ قومی ٹیم کی قیادت کو نہ چھیڑا جائے اور خاصے عرصے سے متحد اور یکسوئی سے کھیلنے والی ٹیم میں تقسیم نہ پیدا کی جائے۔ بدقسمتی سے یوں لگ رہا ہے کہ نجم سیٹھی اپنا سکہ منوانے اور رنگ جمانے کے لئے بڑے فیصلوں کا سوچ رہے ہیں۔ ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے لئے الگ الگ کپتان بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ان کی طرف سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ٹیسٹ میں سرفراز، ون ڈے میں شان مسعود اور ٹی ٹوئنٹی میں بابر کو کپتان بنایا جائے۔ یہ انتہائی غلط ہوگا۔

پاکستان میں یہ تجربے ہوچکے ہیں اور بری طرح ناکام ہوئے۔ ہمارا مزاج دوسروں سے مختلف ہے، ایک فارمیٹ کا کپتان دوسرے فارمیٹ میں کسی اور کی کپتانی میں کھیلتے ہوئے ایزی نہیں رہتا۔ سب سے اہم یہ بات ہے کہ ٹیم میں ایسے کھلاڑی بہت کم ہیں جو آٹومیٹک چوائس ہوں۔ کپتان کے لئے پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ بطور کھلاڑی ٹیم میں شامل ہوسکتا ہو۔ اس وقت بابر اعظم کے سوا اور کوئی ایسا کھلاڑی نہیں جو ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں میرٹ پر سلیکٹ ہوسکے۔ شاداب خان دوسرے ایسے کھلاڑی ہیں، مگر وہ پچھلے دو ڈھائی برس سے انجریز کا شکار رہتے ہیں۔

شان مسعود کو نجانے کس کے مشورے پر ون ڈے ٹیم کا نائب کپتان بنا دیا گیا، حالانکہ ابھی شان کو ون ڈے ٹیم میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ فخر، امام الحق کی اوپننگ اور بابرکے ون ڈائون آنے پر شان مسعود کی جگہ ہی نہیں بن پارہی۔ بورڈ کو کتنی ندامت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، جب انہوں نے شان کو نائب کپتان بنایا اور پہلے ون ڈے میں شان کی جگہ ہی نہیں بنی۔

سرفراز نے ٹیسٹ ٹیم میں واپسی پر شاندار بیٹنگ کارکردگی دکھائی مگر بدقسمتی سے ان کی وکٹ کیپنگ ناقص تھی۔ سرفراز ہر میچ میں چارپانچ چانس مس کر رہا ہے، اس کی بری کیپنگ کی وجہ سے ولیمسن ڈبل سنچری بنا گیا۔ سرفراز پر کپتانی کا دبائو ڈالنے کے بجائے اسے ٹیسٹ ٹیم میں اپنی جگہ مستحکم کرنے کے لئے وقت اور سپیس دینی چاہیے، اسے اپنی کیپنگ اچھی بنانا پڑی گی، ورنہ اچھی بیٹنگ کے باوجود ٹیم کو مہنگا پڑے گا۔ ویسے بھی سرفرازکے لئے بیرون ملک پچوں پر رنز کرنے کا چیلنج ابھی موجود ہے۔

بابر اعظم کے حوالے سے یہ فقرہ کرکٹ بورڈ میں گردش کر رہا ہے کہ اس کا ورک لوڈ کم کیا جائے۔ کون سا ورک لوڈ؟ پاکستان کو سال بھر میں دو چار ٹیسٹ ملتے ہیں اور دوسری بڑی ٹیموں سے خاصے کم وائٹ بال میچز۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بابر اعظم نے بطور کپتان غیر معمولی بیٹنگ کارکردگی دکھائی ہے۔ تینوں فارمیٹس میں اس نے تسلسل سے رنز کئے اور نہ صرف ٹیم کا ٹاپ سکورر رہا بلکہ کئی اہم میچ اپنی تن تنہا بیٹنگ سے جتوائے۔ بابر اعظم کی کارکردگی بیرون ملک بھی اچھی رہی، اس نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی اچھی ایوریج سے رنز بنائے ہیں جہاں دوسرے بلے باز نہیں چل سکتے۔

بابر اعظم کی ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بطور کپتان میچز جتوانے کی شرح ساٹھ فیصد سے زیادہ ہے، اس نے بطور بلے باز ون ڈے میں تو خیر کمال کر دکھایا ہے، ٹی ٹوئنٹی اور ٹیسٹ میچز میں بھی اس نے مشکل مواقع پر سنچریاں بنائی ہیں۔ بابر کی عمر ابھی اٹھائیس برس ہے، وہ پانچ سات برس تک آسانی سے کپتانی کر سکتا ہے۔ بابر جیسے غیر معمولی بلے باز کا کپتان بننا اس اعتبار سے اچھا ہے کہ وہ لیڈنگ فرام فرنٹ کی مثال قائم کرتا ہے۔ ویسے حیرت ہے کہ جس کپتان نے صرف دو ڈھائی ماہ قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا ہو، جس نے سوا سال قبل اس سے پچھلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا ہو، اس کی کپتانی پر کیسے انگلی اٹھائی جا سکتی ہے؟ البتہ انگلینڈ سے پاکستان بری طرح ٹیسٹ سیریز ہارا، مگر اس میں بابر کی کارکردگی بری نہیں رہی۔ اصل خامی ہمارے کرکٹ سسٹم کی ہے جن کے پاس ٹیسٹ لیول کے بائولر ہی نہیں تھے۔ ایک شاہین شاہ ان فٹ ہوا تو پوری بائولنگ ایکسپوز ہوگئی۔

مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو ٹیم میں تسلسل سے زیادہ رنز کرنے والے واحد بلے باز پر تنقید کرتے ہیں۔ اسے خود غرض کہا جاتا ہے حالانکہ اس نے کبھی اپنے لئے نہیں بیٹنگ کی، ہمیشہ ٹیم کے لئے کھیلا۔ مشکل پچز پر وکٹیں گرجانے کے بعد بھی میچ کو لمبا کرنے کی کوشش کرنا اور سٹینڈ بنانے کی کوشش خود غرضی نہیں بلکہ ایثار اور محنت ہے، ورنہ الٹا سیدھا مار کر آئوٹ ہوجانا کون سا مشکل کام ہے؟ سابق کرکٹر سعید اجمل نے اگلے روز درست بیان دیا کہ اگر بابر خود غرض ہے تو قومی ٹیم کو ایسے دو تین خود غرض کھلاڑی مزید چاہییں۔

نجم سیٹھی کو چاہیے کہ وہ بابراعظم کے ساتھ ایک طویل ملاقات کریں، اسکے مسائل جانیں اور ہمدردانہ غور کریں۔ بابر پر اعتماد کرنے، اسے مکمل سپورٹ کی ضرورت ہے۔ بابرابھی کپتانی سیکھ رہا ہے، اس میں جارحیت کی قدرے کمی ہے، اس لئے اسے جارحانہ اپروچ رکھنے والاایک بڑا کوچ چاہیے جو اسے یہ چیزیں سکھا سکے۔ ورلڈ کپ سے پہلے ون ڈے سکواڈ میں ہرگز ایسی تبدیلی نہ کی جائے جو ٹیم کا یک جہتی والا ماحول برباد کر دے۔