کورونا وبا کے کڑے دن ابھی ختم نہیں ہوئے، جزوی لاک ڈائون بھی چل رہا ہے، اللہ نے چاہا تو یہ مشکل وقت ختم ہوجائے گااور دنیا پھر سے اپنے معمول کے کاموں کی طرف لوٹ جائے گی۔ کورونا کے دوران ہم سب نے خاصا کچھ سیکھا ہے۔ پانچ سبق ایسے ہیں جو ہم پاکستانیوں نے بھی سیکھ لئے۔ ان میں سے تین کاتعلق اندرونی حالات سے جبکہ دوعالمی برادری خاص کر مغرب سے متعلق ہیں۔
کورونا کا مسئلہ شروع ہوااور معاملہ چین سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلنے لگا تو سب کی نظریں امریکہ اور یورپ کی طرف گئیں۔ امریکہ کے بڑبولے صدر نے اپنی برتری کا تاثر دیا۔ وہ اسے چینی وائرس کہتے رہے، پھرامریکہ میں وبا پھوٹنے کے فوری بعد اس کا علاج ڈھونڈنے کا دعویٰ کر ڈالا پھر ویکسین بنانے کا اعلان کر دیا، دونوں باتیں جھوٹ نکلیں۔ ہمارے ہاں ایک حلقہ ایسا ہے جو مغرب سے حد درجہ مرعوب ہے، پاکستان کے روایتی مذہبی حلقوں سے بھی یہ بیزار ہیں۔ انہوں نے طعنے دینے شروع کئے کہ اور برائیاں کرو امریکیوں کی، اس مشکل کے وقت میں وہی ہماری مدد کو آ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی یا ددلایا جانے لگا کہ کبھی کسی مسلمان سائنس دان نے بھی کوئی ایجاد کی ہے؟ نہیں ناں، تو یہ مغرب کے عیسائی، یہودی یا ملحد سائنس دان ہی ہمارے محسن ہیں، ہمیں ان کا شکرگزار رہنا چاہیے۔ آج کل ہر اخبار نیٹ پر ہے، کالم نگاروں کے باقاعدہ صفحات بنے ہیں، جن پر ان کے برسو ں پرانے کالم بھی مل جاتے ہیں، یہ تو صرف تین چار ہفتے پرانے کالم ہیں، اینکرز کے تجزیاتی پروگرام بھی یوٹیوب پر پڑے ہوتے ہیں، کچھ وقت نکال کر دیکھنا دلچسپ کیس سٹڈی ثابت ہوگا۔
آج ہم سب کے سامنے ہے کہ کورونا کے سامنے مغرب کیسے عاجز اور ذلیل وخوار ہوا پڑا ہے۔ امریکہ جسے سائنس، ٹیکنالوجی، اپنے ہیلتھ سسٹم، جدید آلات اور ماہر ڈاکٹروں پر بہت بھروسہ تھا، وہ سب ہوا ہوگیا ہے۔ امریکی سماج کو شدید ترین دھچکا لگا ہے۔ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مر چکے ہیں، خدشہ ہے کہ ہلاکتیں لاکھ تک نہ پہنچ جائیں۔ صرف تین ماہ پہلے کوئی کہہ سکتا تھا کہ امریکہ میں روزانہ ڈھائی تین ہزار لاشیں اٹھائی جائیں گی اور نیویارک جیسا شہرمریضوں اور لاشوں کا مرکز بن جائے گا؟ اٹلی اور سپین کا حشر سب کے سامنے ہے، برطانیہ خود بری طرح متاثر ہوا۔ فرانس میں اتنی زیادہ ہلاکتیں ہوجانے کا خود ان کے اپنے ماہرین کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ مغرب کو اپنے جس صحت کے نظام پر ناز تھا، وہ بری طرح ایکسپوز ہوگیا۔ آج وہاں یہ حال ہے کہ کورونا کے مشکوک مریضوں کے لئے ایمرجنسی تک موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ شروع کے چند دن گھر میں الگ رہو اور صرف انتہائی ضرورت میں ہسپتال کا رخ کرو۔ ہمارے جیسے ممالک میں مغرب زدہ طبقات بھی بری طرح ہل کر رہ گئے ہیں۔ پہلے وہ سوچتے تھے کہ پاکستان پر کوئی مصیبت آئے گی تو وہ آرام سے جہاز پکڑ کر امریکہ، یورپ چلے جائیں گے اور محفوظ زندگی گزاریں گے۔ آج وہاں زیادہ مشکل اور پریشان کن صورتحال ہے۔ اب ان سب کو پاکستان کی قدر واہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔
دوسرا دلچسپ معاملہ مذہب اورخداکے ساتھ تعلق کا ہے۔ اہل مذہب عادتاً کسی بھی پریشانی میں اپنے رب کی طرف دیکھتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسا کرتے ہوئے اسباب کو نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ یہ اسباب کی دنیا ہے۔ کوئی مریض ہے تو اسے علاج کے لئے طبیب کے پاس ہی جانا پڑے گا کہ یہی ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے سکھایا ہے، علاج آپ ﷺ کی سنت ہی ہے۔ مختلف حوالوں سے احتیاطی تدابیر اپنانے کی تربیت بھی ہمیں اپنے پیارے نبی اور ان کے صحابہ کی طرف سے ملی ہے۔ مذہبی آدمی مگر اس حوالے سے کلیئر ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ رب تعالیٰ کی مرضی سے ہوگا۔ اگر رب شفا دینا چاہے تب ہی ملے گی، ورنہ چاہے جس قدر علاج کر لیا جائے، کچھ کام نہیں آئے گا۔ اس پس منظر میں کورونا کی وبا کے دنوں میں لوگوں نے استغفار کرنے، دعائیں مانگنے کی ترغیب دی۔ اس پر ملحدین اور الٹرا لبرل حلقوں کی جانب سے طوفان آ گیا۔ مذہبی حلقوں پر طنز کے تیربرسائے جانے لگے۔ گستاخانہ انداز میں یہ کہا جاتا کہ اس بیماری سے( نعوز باللہ) آپ کے خالق نے نہیں بلکہ ڈاکٹروں نے بچانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ نہایت فضول بات اس لئے تھی کہ ڈاکٹروں یا طبی احتیاطوں کی نفی کسی نے نہیں کی تھی۔ ان مذہب بیزار حلقوں کا واویلا مگرسوشل میڈیا پر جاری رہا۔ اب جبکہ چند ہفتے گزر گئے ہیں، وبا کی تباہ کاری سامنے آ چکی ہے، بتدریج انہیں بھی پنجابی محاورے کے مطابق ٹھنڈپے گئی۔ اب مذہبی پوسٹوں کا مذاق نہیں اڑایا جاتا بلکہ کوئی ایک آدھ ملحد /متشکک ایسا بھی مل جاتا ہے جو چپکے سے ان باکس میسج کر کے پوچھ لیتا ہے ذرا یہ تو پوچھ کر بتائیں کہ روحانیت والے بزرگ کیا کہتے ہیں، کورونا کب ختم ہوگا؟ یہ بات سب کو سمجھ آ گئی کہ آخری تجزیے میں خدا ہی بچانے والا ہے، سو سال والے بچ گئے جبکہ تیس سال والے جا چکے ہیں۔ وہی ہے جو بھرم رکھتا اور بھرم تباہ کر دیتا ہے۔
ایک دلچسپ معاملہ افریقی ممالک اور پاکستان جیسے جنوبی ایشیائی ممالک کا بھی سامنے آیا۔ ہمارے ہاں آبادی زیادہ ہے، شہر گنجان ہیں، چھوٹے چھوٹے گھروں میں پانچ، سات، آٹھ لوگ رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ یہاں لاکھوں مریضوں تک معاملہ پہنچے گا اور (خدا نہ کرے) کہیں یہ حال نہ ہوجائے کہ قبرستانوں میں دفنانے والے ہی کم پڑ جائیں۔ اللہ کی خاص رحمت یہ ہوئی کہ ہم جیسے ممالک میں حالات بہت ہی بہتر نکلے۔ اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ناخالص ماحول میں رہنے کی وجہ سے ہم لوگوں کی قوت مدافعت زیادہ ہے یا پھر ٹی بی پروگرام کے باعث پہلے سے جسم میں اینٹی باڈیز پیدا ہوچکی ہیں، گرم موسم کی تاثیر ہے یا پھر پاکستان، بھارت میں کورونا کی نسبتاً ہلکی صورت حملہ آور ہوئی۔ وجہ جو بھی ہے، رب تعالیٰ کی کرم نوازی رہی۔ جتنا خطرہ تھا، اتنا نقصان ہوا نہیں۔ زائرین کو کچھ بہتر ہینڈل کر لیا جاتا، تبلیغی جماعت کے زعما بلاوجہ ضد کر کے مارچ میں اجتماع نہ کراتے اور باہر سے پاکستان آنے والے ہدایات کے مطابق سیلف آئسو لیشن میں رہتے تو کورونا کے ہاتھوں ہمارا بہت کم نقصان ہوتا، ممکن ہے ہزار بارہ سو لوگ متاثر ہوتے اور دو چار کی ہلاکت تک بات پہنچتی۔ عوامی غیر ذمہ داری کی وجہ سے نقصان ہوا۔ اگر آئندہ چند ہفتے احتیاط برت لی جائے تو ان شااللہ عید تک معاملہ بہت حد تک بہتر ہوچکا ہوگا۔
آخری دو پوائنٹ ملکی سیاست سے متعلق ہیں، اس لئے ان پر مختصر تبصرہ کرنا چاہ رہا ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کی فراست اور دوراندیشی کے حوالے سے بہت سے لوگوں کو شکوک ہیں، ان شکی اور گستاخ لوگوں میں یہ ناہنجار اخبارنویس بھی شامل ہے۔ خان صاحب کی دیانت داری مستند ہے، مگر چیزوں کو گہرائی سے سمجھنے کی صلاحیت پر بڑے سوالیہ نشان ہیں۔ کورونا کے حوالے سے ماننا پڑے گا کہ قدرت نے وزیراعظم کوبڑی حد تک درست راستے پر چلایا۔ چین سے پاکستانی طلبہ کو نہ بلانا درست فیصلہ تھا۔ اس وقت میرے سمیت بہت سے لوگوں نے یہ مطالبہ کیا تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ ہم غلط تھے، حکومتی پالیسی درست تھی۔ تفتان پر بروقت قرنطینہ کیمپ نہ بنانا حکومتی نااہلی رہی، مگر اس کے بعد لاک ڈائون کے حوالے سے وزیراعظم کے خدشات اور اقدامات درست رہے۔ ان کا یہ اندیشہ ٹھیک نکلا کہ سخت لاک ڈائون کورونا سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوگا اور لاکھوں لوگ فاقوں کی نوبت تک پہنچ جائیں گے۔ وقت نے اسے درست ثابت کیا۔ حکومتی احساس پروگرام بھی بہت اچھا اقدام ہے۔ کورونا ٹائیگر فورس البتہ نام کی وجہ سے ابھی تک متنازع بنی ہے، ممکن ہے آگے جا کر اپنے کام کی وجہ سے یہ عوامی پزیرائی حاصل کر لے۔ اب اگر وزیراعظم سفید پوشوں کے لئے بھی امدادیا اخوت ماڈل کے مطابق قرض حسنہ پروگرام کا اعلان کر دیں تو بڑے طبقے کے مسائل حل ہوجائیں گے۔
ابتدائی دنوں میں سندھ حکومت بڑا سمارٹ کھیلی، وزیراعلیٰ سندھ میڈیا پر ایکٹو رہے اور ہیرو بن گئے۔ جب عملی اقدامات کی باری آئی تو سندھ حکومت بری طرح ایکسپوز بلکہ فیل ہوگئی۔ ثابت ہوا کہ پوسٹر بوائے بننا آسان ہے، مگرعملی کام لازمی ہے۔ سندھ میں بلاول بھٹو سے لے کر مراد علی شاہ تک ہر کوئی بلند بانگ دعوے یا تقریریں ہی کرتا رہا۔ جب راشن پہنچانے کی باری آئی تب پیپلزپارٹی کسی ایسی کھٹارہ گاڑی کی طرح سڑک کنارے کھڑی ہوگئی، جس کے چاروں ٹائر پنکچر ہیں اور سیلف مارنے سے بھی اسٹارٹ نہیں ہو رہی۔ انہوں نے آٹھ ارب کا راشن بانٹنے کا دعویٰ کیا، عدالت نے ثبوت مانگا تو سٹی گم ہوگئی۔ آٹھ ارب فوری طور پر ایک عشاریہ آٹھ ارب بن گئے، ان کی فراہمی کا بھی ثبوت نہیں۔ صوبائی وزرا کے بیانات کا مذاق اڑتا رہا کہ ہم نے چپکے سے راشن تقسیم کر دیا۔ لوگوں نے پھبتی کسی کہ اتنا چپکے سے یہ کام کیا کہ جسے راشن دیا، اسے بھی پتہ نہیں چل سکا۔ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے لئے یہ سبق ہے کہ آخرکار فیلڈ میں کیا جانے والا کام ہی سند بنتا ہے جبکہ بڑے دعوے شرمسار کراتے ہیں۔ عامر خاکوانی