Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Punjab Mein Kya Hone Ja Raha Hai?

Punjab Mein Kya Hone Ja Raha Hai?

انگریزی محاورے کے مطابق ملین ڈالر سوال اس وقت یہی ہے کہ پنجاب میں کیا ہوگا؟ کیا صوبائی حکومت تیئس دسمبر کو ختم ہوجائے گی، اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد نوے دنوں میں صوبائی انتخابات ہوجائیں گے یا کوئی قانونی رخنہ، سیاسی رکاوٹ آ کھڑی ہوگی؟

اس وقت تک سیاسی منظر سیال (Fluid)پوزیشن میں ہے، چیزیں مختلف اطراف میں ڈویلپ ہو رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی پوزیشن واضح ہے۔ عمران خان کا یہی کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوجانی چاہئیں کہ ملکی حالات ایسے ہیں کہ فریش عوامی مینڈیٹ لیا جائے۔ عمران خان کو قوی امید ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں صوبائی انتخابات ہوئے تو آسانی سے بڑی اکثریت حاصل کر لیں گے۔ پی ٹی آئی کے کچھ ارکان اسمبلی یقینا ایسے ہوں گے جو فوری اسمبلی تحلیل کے حق میں نہیں، مگر عمران خان پر ان کی نہیں چل سکتی۔ اگلاسال الیکشن کاہے تو اس موقعہ پر کوئی رکن اسمبلی وفاداری تبدیل کرنا افورڈ نہیں کر سکتا۔

ن لیگ اور بقیہ پی ڈی ایم کی پوزیشن بھی واضح ہے۔ وہ اس وقت کسی بھی صورت میں الیکشن نہیں چاہتے۔ پی ڈی ایم کی خواہش ہے کہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں اور اگست کے بعد اگلے عام انتخابات ہوں گے۔ پی ڈی ایم کے اندر ایک حلقہ البتہ یہ چاہتا ہے کہ خراب معیشت کی آڑ لے کر اسمبلی کی مدت میں اضافہ کیا جائے۔ چھ ماہ مزید یا ایک سال۔ ویسے یہ آسان کام نہیں، اس کے لئے بڑے جتن کرنے پڑیں گے۔

فوری الیکشن یعنی اگلے دو تین ماہ میں انتخابات کرانا کسی بھی صورت میں ن لیگ کو سوٹ نہیں کرتا۔ کے پی میں یہ جے یوآئی، اے این پی کے حق میں بھی نہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم کا حکمران اتحاد اپنی پوری کوشش کرے گا کہ اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں۔ پی ڈی ایم کے موقف میں ایک تضاد بہرحال موجود ہے کہ ان کے رہنما عمران خان کو مسلسل یہ طعنے بھی دیتے رہے ہیں کہ وہ اسمبلیاں کیوں نہیں توڑ رہے، جلدی یہ کام کریں۔ دوسری طرف جب عمران اسمبلیاں توڑ رہے ہیں تو اب پی ڈی ایم کی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ کام نہ ہوسکے۔

ق لیگ میں کنفیوژن چل رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اور ان کے صاحبزادے فطری طو رپر یہ نہیں چاہتے کہ پنجاب اسمبلی جلد تحلیل ہو۔ ان کی خواہش ہوسکتی ہے کہ دو، تین چار ماہ مل جائے یا ممکن ہو سکے تو پنجاب اسمبلی اپنی مدت مکمل کرے۔ ق لیگ کے لئے اصل مخمصہ یہ ہے کہ وہ تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور اس کا سیاسی مستقبل بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ چودھری صاحب جانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن میں ان کے لئے زیادہ سپیس موجود نہیں کہ وہاں پر وزارت اعلیٰ کے لئے خاندان میں ہی حمزہ شہباز جیسے امیدوار موجود ہیں، ن لیگ کے پنجاب میں مرکزی رہنما بھی چودھری پرویز الٰہی کے لئے ہمدردی نہیں رکھتے۔ چودھری صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف انہیں دلی طور پر پسند نہیں کرتے۔ انہیں علم ہے بڑے میاں صاحب بات کو اپنے دل میں رکھتے ہیں، اپنی پسند اور ناپسند دونوں میں وہ مستقل مزاج ہیں اور جسے ناپسند کریں، اسے کبھی قریب نہیں آنے دیتے۔

یہی وجہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں، اسی لئے انہوں نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ہامی بھرلی ہے، عمران خان کی بات اگر درست تسلیم کر لی جائے تو چودھری صاحب نے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس لکھ اور دستخط کر کے انہیں دے رکھی ہے، جسے جمعہ کو خان صاحب گورنر پنجاب کے پاس بھجوا دیں گے۔ آئین کے مطابق گورنر اس ایڈوائس پر عمل کرنے کا پابند ہے، تاہم گورنر چند دنوں تک اسے روک بھی سکتا ہے اور کوئی عذر بنا کر واپس بھی کر سکتا ہے، موجودہ حالات میں تو گورنر کے پاس یہ عذر موجود ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں اور وہ انہیں پہلے ہی اعتماد کا ووٹ دینے کا کہہ چکے ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جا چکی ہے۔ بعض حلقے اسے معنی خیز کہہ رہے ہیں کیونکہ رات ساڑھے نو بجے یہ قرارداد وصول کی گئی جبکہ اسے آسانی سے لٹکایا جا سکتا تھا۔ خیر پی ڈی ایم نے بیک وقت دو تیر چلائے ہیں۔ گورنر پنجاب نے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا ہے، جبکہ ساتھ ہی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد بھی جمع کرا دی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کو خدشہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل کر سکتے ہیں اور ا س کے بعد وہ اسمبلی توڑ دیں گے، اسی لئے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تاکہ ایسا نہ ہونے دیا جائے۔

ادھر دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پچھلے کئی ماہ سے پنجاب اسمبلی کا اجلاس مسلسل چل رہا، اسے ختم نہیں کیا گیا۔ قانون کے مطابق جب اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوسکتی اور نہ ہی وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کی حاجت ہے۔ یہ اجلاس بلایا بھی سپیکر پنجاب اسمبلی نے تھا تو اسے وہی برخاست کر سکتے ہیں، گورنر نہیں۔ پنجاب اسمبلی کا مسلسل اجلاس چلانے کے پیچھے چودھری پرویز الٰہی کی سیاسی فراست اور ہوشیاری ہے۔ ن لیگ والوں کو اس پہلو کا پہلے اندازہ نہیں ہوا۔ اب جب تحریک عدم اعتماد کا سوچا تو انہیں پتہ چلا کہ تحریک جمع تو ہوجائے گی، مگر اسمبلی سیشن میں پیش نہیں ہوسکتی۔

اب یہاں پر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے ہفتہ سترہ دسمبر کو اپنی تقریر میں اسمبلی تحلیل کے لئے تئیس دسمبر کی تاریخ کیوں دی تھی؟ وہ ا س سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھجوا سکتے تھے، اپنی تقریر میں اس کا انکشاف کر دیتے، یا اگلے روز یہ کام کر گزرتے۔ پانچ دن کا وقفہ ڈالنے کا مقصد توبظاہر پی ڈی ایم کو موقعہ فراہم کرنا ہے کہ کچھ کر سکتے ہو تو کر لو۔ سوال یہی ہے کہ عمران خان اپنے مخالفین کو یہ موقعہ کیوں دے رہے ہیں؟ عمران خان کے ناقدین کا یہ خیال ہے کہ خان صاحب خود بھی اسمبلیوں کی فوری تحلیل نہیں چاہتے، وہ اعلان کر چکے تھے، اس سے نکلنے کا یہ راستہ انہیں سمجھ آیا تاکہ سیاسی بھرم برقرار رہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ عمران خان نے پچھلے چند دنوں میں کالم نگاروں، ایڈیٹروں وغیرہ سے دوتین ملاقاتیں کی ہیں۔ ان سب میں وہ بڑے یکسو نظر آئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ فوری الیکشن چاہتے ہیں اور اگر دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں تو وہ بڑی اکثریت حاصل کرکے اگلے پانچ سال کے لئے حکومت بنا لیں گے، پھر اس کے بعد وہ سندھ اور بلوچستان پر توجہ دے سکیں گے۔

بہرحال تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے اسمبلی کا اجلاس جمعہ تک ملتوی کر دیا ہے۔ انہوں نے گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے حکم کو پرکاہ حیثیت نہیں دی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کے مطابق گورنر کا یہ خط غیر قانونی ہے، اس لئے اسے نظرانداز کر رہے ہیں۔ سپیکر صاحب کی رولنگ کے مطابق چونکہ اجلاس پہلے سے چل رہا ہے اس لئے گورنر دوبارہ اجلاس نہیں بلا سکتے۔ سپیکر نے البتہ یہ کہا ہے کہ جمعہ کے اجلاس میں وہ تحریک عدم اعتماد کو ٹیک اپ کریں گے۔

اگر تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اگلے چند دنوں میں اس پر ووٹنگ ہوگی اور اس بار پی ڈی ایم کے لئے اکثریت ثابت کرنا ہوگی، عدالت عظمیٰ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ فلور کراسنگ کرنے والے ارکان اسمبلی فوری نااہل ہوجائیں گے جبکہ ان کا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا۔ یوں تحریک انصاف میں تو فارورڈ بلاک بننے کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ ق لیگ میں کوئی اکھاڑ پچھاڑ ہوجائے تو وہ الگ بات ہے کیونکہ ابھی تک اس پارٹی کے قانونی سربراہ چودھری شجاعت ہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف زرداری صاحب چودھری شجاعت سے ملے ہیں۔ پچھلی بار جب انہوں نے بڑے چودھری صاحب سے ملاقات کی تھی تو ایک بڑا سیاسی سرپرائز سب کو نظر آیا۔ یہ اور بات کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد چال بیکار چلی گئی۔ دیکھیں اس بار زرداری صاحب اپنی پٹاری سے کیا نکالتے ہیں؟

صرف دو دن بیچ میں رہ گئے ہیں، جمعہ تیئس دسمبر کو ہر ایک کے کارڈز شو ہوجائیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہار جیت کا فیصلہ تب ہی ہوجائے گایااس کے لئے عدالتی جنگ سے گزرنا پڑے گا؟