میں نے سامنے رکھا کاغذ تیسری بار اٹھایا اور پہلے حرف سے آخر تک اسے ایک بار پھر پڑھ گیا۔ روایتی انداز میں لکھی چند سطریں، "دیرینہ سیاسی کارکن ڈاکٹر خان انتقال کرگئے۔ انہیں قریبی قبرستان میں دفن کر دیا گیا، ان کی جماعت کے تمام کارکن اس سانحہ پر ملول ہیں۔"کاغذ رکھ کر میں نے کرسی کی پشت سے سر ٹکایا اورآنکھیں موند لیں۔ ذہن میں خان صاحب کی تصویر لہرائی۔ وہی دودھیا سپید سادہ لباس، گرے کلر کی واسکٹ میں ملبوس، سر پر جناح کیپ، ہاتھ میں سیاہ چمڑے کا بیگ اور مسکراتا چہرا۔ یہ بیگ مختلف اخبارات، کاغذات اور پریس ریلیزوں سے بھرا بلکہ ٹھنسا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات میں انہوں نے اسی بیگ سے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا اے فور سائز کے چار صفحات پر مشتمل ایک "شعلہ بار" قسم کا سیاسی مضمون پڑھنے کو دیا تھا۔ خان صاحب سے یہ ملاقات کئی برس پہلے ہوئی۔ ایک اخبار نویس دوست سے ملنے اس کے دفتر گیا، وہاں وہ بھی اپنی پریس ریلیز دینے آئے ہوئے تھے۔ چائے کی پیالی پر رسمی گپ شپ سے شروع ہونے والی گفتگوکئی گھنٹوں پر محیط ہوگئی۔ خان صاحب بنیادی طور پر سیاسی ورکر اور ایک معروف سیاسی جماعت سے وابستہ تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ہومیو ڈاکٹر تھے۔ ان کے دوست انہیں ڈاکٹر خان کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ خان صاحب ممکن ہے اسے کچھ زیادہ پسند نہ کرتے ہوں کہ یہ ان کی روایتی مخالف جماعت کے ایک مشہور لیڈر کی یاد دلاتا تھا، مگر وہ کبھی معترض نہیں ہوئے۔ پہلی ملاقات سے سلسلہ چل نکلا۔ بعد میں درجنوں بار گپ شپ ہوئی۔ وہ پرانی وضع کے بزرگ تھے، فارسی سے خاصا شغف تھا۔ گفتگو میں نظیری، سعدی اور فردوسی وغیرہ کے اشعار سناتے رہتے۔ یہ اور بات کہ بعد میں ہمارے لئے ان کا ترجمہ بھی کرنا پڑتا۔ سیاست ان کا خاص موضوع تھا۔ وہ پچھلی تین چار دہائیوں سے سیاست کی وادی پرخار میں مصروف عمل تھے۔ اخبارات کے نیوزڈیسک پر بیٹھے اخبارنویس ایسی شخصیات کی آمد کے عادی ہوتے ہیں۔ آج کل تو خیر سکیورٹی معاملات کی وجہ سے نیوز روم وغیرہ، میگزین، ایڈیٹوریل سیکشن میں آنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی، ان دنوں حالات مختلف تھے اور آنا جانا لگا رہتا۔ روزانہ کسی نہ کسی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں سے وابستہ کارکن سٹی کے صفحات کے لئے اپناکوئی چھوٹا موٹا بیان اور تصویر چھپوانے آتے۔"سب ایڈیٹرز" کی اکثریت ان سے دور رہنے میں بہتری سمجھتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب البتہ مختلف شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے کبھی اپنا ذاتی بیان شایع ہونے کے لئے نہیں دیا۔ ہمیشہ ان کی پریس ریلیز جماعتی سرگرمی کا احاطہ کرتی تھی۔
بعد میں پتہ چلا کہ ان کی سیاست میں آمد عجب انداز میں ہوئی۔ ایوب خانی مارشل لاء کے اوائل دنوں میں تو سیاسی جماعتیں دبک کر بیٹھ گئیں اور سیاست دان بھی ایبڈو وغیرہ کے چکر میں الجھ گئے۔ بعد میں آہستہ آہستہ احتجاجی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ ایسے ہی ایک احتجاجی مظاہرے پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ ڈاکٹر صاحب ہاتھ میں کپڑے کا تھیلا لئے گھر کا سودا سلف لینے نکلے تھے۔ وہ اتفاقیہ پولیس کے ڈنڈوں کی زد میں آگئے۔ ان کے سر پر ایک ایسی ضرب لگی کہ وہ ہوش سے بیگانہ ہوگئے۔ چوٹ ایسی کاری تھی کہ کئی دن تک کوما میں رہے، اور پھر ہوش میں توآگئے، مگر اٹھنے سے قاصر تھے۔ کوئی سال بھر انہیں بستر پر گزارنا پڑا۔ ایک دن عہد کیا کہ اگر بچ گیا تو آئندہ زندگی کسی مشن کے تحت گزاروں گا۔ صحت یابی کے بعد اپنا عہد ایفا کیا اور ایک نظریاتی سیاسی جماعت کے ساتھ پہلے رضاکاراور پھر کارکن کے طور پر شامل ہوگئے۔ اگلی تین چار دہائیوں میں انہوں نے پولیس کے ڈنڈے کھائے، ماریں سہیں اورجیل کی سختیاں برداشت کیں، مگر کبھی نظریاتی محاذ پر پسپائی اختیار نہیں کی۔ جنرل ضیا کے گیارہ سالہ دور میں ان کے کئی ساتھی "فیض یاب" ہوئے، بہت سوں نے اپنے بچوں کے دال دلیہ کا بھی بندوست کر لیا۔ خان صاحب جیسے کارکن جو لڑائی کے وقت پہلی صفوں میں رہتے، اس وقت پیچھے رہے یا دھکیل دئیے گئے۔ سویلین سیاسی حکومتوں میں بھی ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک برتا گیا۔ میری ان سے آخری ملاقات کوئی سال بھر پہلے ہوئی۔ وہ اس وقت انتہائی دلبرداشتہ اور مایوس تھے۔ کہنے لگے کہ تمام زندگی خوار رہنے کے بعد اب پتہ چلا کہ سیاست میں ہم جیسوں کا کوئی کردار نہیں۔ ہم لوگ تو ان چھوٹی لکڑیوں کی مانند ہیں، جنہیں آگ دہکانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی جونیئر ساتھی کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ایک ہم ہیں کہ عمر بھر ذلیل ہی ہوتے رہے۔ میں خاموشی سے سنتا رہا، اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اب ان کی آخری خبر بھی پڑھ لی۔
خان صاحب جیسے کارکن ہمارے تباہ حال پولیٹیکل سسٹم کی ایک واضح مثال ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی کارکنوں کی دو تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو نعرے بازی میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اخبار کے لئے مظاہرے کی تصویر بن رہی ہو تو یہ دھکم پیل کر کے وکٹری کا نشان بنائے سب سے آگے آدھمکتے ہیں، البتہ کسی ٹکرائو یا پولیس کے لاٹھی چارج کے وقت ڈھونڈے نہیں ملتے۔ ایسے لوگ عموماً پارٹی کی کسی بڑی سیاسی شخصیت کے ساتھ نتھی ہوجاتے ہیں۔ یوں اس سہارے سے انہیں جلد اوپر آنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسری قسم ایسے جیالوں یا متوالوں کی ہے جو گلیوں اور بازاروں میں زور شور سے اپنے لیڈر اور پارٹی کے گن گاتے اور مخالفوں سے بحثوں میں الجھتے ہیں۔ اپنی جماعت سے ان کے اخلاص کسی شک وشبہ سے بالاتر ہوتا ہے، مگر یہ ازخود متحرک نہیں رہتے۔ انہیں جلسوں میں لے جانے کے لئے تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ ووٹ ڈالنے البتہ یہ صبح سویرے گھر سے پیدل ہی نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ تیسری قسم کے کارکن وہ ہیں جن کا شروع میں ذکر آیا۔ عہدوں اور مفادات سے بے نیاز مخلص اور فنا فی الجماعت قسم کے عملی کارکن۔ زندگی بھر کولہو کے بیل کی مانند سیاسی جدوجہد میں جتے رہتے ہیں۔ دیواروں پر پوسٹرچسپاں کرنے سے کھمبوں پر بینر آویزاں کرنے تک تمام تشہیری مہم یہ از خود چلاتے ہیں۔ عموماً یہ اسی جدوجہد میں اپنے کاروبار اور دیگر معاشی معاملات بھی قربان کر دیتے ہیں۔ پارٹی قائدین پر جانیں نچھاور کرنے والوں کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہوتا ہے۔ اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایسے جیالوں اور جانبازوں کی قربانیوں سے ان کی جماعت اور لیڈر تو اقتدار میں آجاتے ہیں، مگر ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آپاتی۔
پچھلے چند برسوں سے ہمارے سیاسی تجزیہ نگاراور دانش ور ماتم کناں ہیں کہ کسی سیاسی کال پر ردعمل سامنے نہیں آتا۔ ان کو شکوہ ہے کہ عوام لاتعلق اورکارکن بے حس ہوچکے ہیں۔ اس کی وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں، مگرسب سے اہم قائدین کی جانب سے مخلص اور نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرنا ہے۔ سیاسی جدوجہد اور آزمائش کا وقت آنے پرہمیشہ ان کارکنوں سے قربانی دینے اور ایثار کی سنہری مثالیں رقم کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ یہ اور بات کہ اقتدار میں حصہ ملنے پر یہ کارکن فراموش کر دیے جاتے، شطرنج کی بازی کے پیادوں کی طرح، جنہیں بے رحمی سے ضرورت پڑنے پرقربان کر دیا جاتا ہے۔
نوٹ : یہ میری ایک پرانی تحریر ہے، فیس بک کے زمانے سے پہلے کی، اس لئے یہ سوشل میڈیا پر بھی شیئر نہیں ہوسکی۔ پچھلے دنوں پرانی تحریروں کی فائلیں چیک کررہاتھا کہ اچانک سامنے آ گئی۔ کہانی سچی ہے، اس لئے دل میں اس کی چبھن بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اسے قند مکرر کے طور پر شائع کرنے کا خیال چند دنوں پہلے کے ایک واقعے سے آیا۔ ایک دوست سے بات ہو رہی تھی۔ حکمران جماعت کے وہ بڑے زبردست حامی ہیں، سوشل میڈیا پر برسوں سے اس کا مقدمہ لڑرہے ہیں۔ گھر میں بیٹھنے والے مجنوں نہیں بلکہ عملی انسان ہیں، اس لئے اپنے کپتان کے جلسوں میں نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ دھرنوں کے بھی ساتھی رہے۔ دھرنے کا تو خیراب وہ دفاع نہیں کرتے، مگر اپنے لیڈر کے ساتھ پورے عزم سے کھڑے ہیں۔ ان کا حسن ظن قائم دائم ہے۔ فیس بک کے حلقوں میں وہ نمایاں ہیں اور تسلسل سے پارٹی کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اس لئے میرا خیال تھا کہ کہیں نہ کہیں پارٹی کے سوشل میڈیا سیٹ اپ میں ان کی رائے یا تجاویز بھی لی جاتی ہوں گی۔ ان سے پوچھا تو جھینپ سے گئے۔ کہنے لگے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، چند ماہ پہلے البتہ یہ تجویزا ٓئی کہ جو کارکن سوشل میڈیا پر متحرک ہیں، ان کی فہرست بنائی جائے تاکہ پارٹی کی سطح پر ہی سہی، ان کا شکریہ ادا کرنے کی رسمی سبیل بنے، فہرستیں تو بنیں، مگر پھر ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ ہمارے دوست چونکہ مخلص نظریاتی کارکن ہیں، اس لئے انہیں شکوہ یا مایوسی نہیں تھی۔ مسکرا کر کہنے لگے، "ہم نظام بدلنے کے لئے ساتھ دے رہے ہیں، ذاتی مفاد تو ہے نہیں، اس لئے کبھی صلے کی امید ہی نہیں لگائی۔" بات درست ہے، نظریاتی کارکنوں کو ایسا ہی سوچنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں اور قیادت کو مگر اپنے کارکنوں کی قدر کرنی چاہیے۔ قربانیاں دینے والے، اپنی صلاحیتیں، وسائل اور وقت پارٹی کے لئے صرف کرنے والے پیادے نہیں ہوتے۔ ان کے ساتھ ویسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی بساط کے اہم ترین مہرے وہی ہیں، انہی سے اس بزم کی رونق اور کشش برقرار ہے۔