سوشل میڈیا پرموجود بلوچ قوم پرست احباب ایک شکوہ عام طور سے کرتے ہیں کہ ان کے مسائل اور ایشوز مین سٹریم میڈیا اور خاص طور سے پنجاب کے کالم نگار، تجزیہ نگار بات نہیں کرتے۔ یہ شکوہ انہیں کراچی اور خیبر پختون خوا کے صحافیوں سے بھی ہوگا، مگر پنجاب کا نام آتے ہی ہمارے تمام قوم پر ستوں کی زبان اور قلم میں خاص قسم کی تلخی نمودار ہوجاتی ہے۔ اس لئے روئے سخن پنجاب کے اہل قلم کی طرف رہتا ہے۔ ایک دوسری طرح کا شکوہ پچھلے کچھ عرصے سے پی ٹی ایم کے حامی پشتون احباب کو ہے۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ لاہور، اسلام آباد کے اخبارنویس پی ٹی ایم کی بلاوجہ مخالفت کرتے ہیں حالانکہ یہ قبائلیوں کے جینوئن مسائل کا معاملہ ہے، اسے ضرور سپورٹ کرنا چاہیے۔ یہ شکوہ بنیادی طور پر تومین سٹریم میڈیا اور کالم نگاروں یا تجزیہ کاروں، اینکرز حضرات سے ہے، مگر چونکہ فیس بک پر بھی بہت سے لوگ تجزیاتی تحریریں لکھتے رہتے ہیں، اس لئے شکوہ کرنے والوں کی ناراضی فیس بک کے معروف اہل قلم سے بھی ہے۔
صاحبو! خاکسار کا معاملہ دلچسپ ہے، نسب اور نسل کے اعتبار سے (خاکوانی) پٹھان اور زبان کے اعتبار سے سرائیکی ہوں۔ جس طرح سندھ میں رہنے والے بلوچ گھرانے اپنی ثقافتی اور لسانی شناخت سندھی کے طور پر کراتے ہیں، اسی طرح ہم سرائیکی بولنے والے پٹھان (خاکوانی، ترین، علیزئی، ملیزئی، باموزئی، سدوزئی، بارک زئی، بادوزئی، درانی، بابر وغیرہ)بھی اپنی ثقافتی لسانی شناخت سرائیکی سمجھتے ہیں۔ خود کو سرائیکی سمجھتے اور سرائیکی ہی کہلاتے ہیں۔ لاہور میں مجھے رہتے چوبیس سال ہوگئے، پچیسواں شروع ہوگیا ہے۔ اتنا طویل عرصہ پنجاب کے قلب میں رہنے سے بڑی حد تک پنجابی مائنڈ سیٹ، محسوسات اور سوچ کا اندازہ ہوگیا ہے۔ جب لاہور میں قدم رنجہ فرمایا تو ابتدائی برسوں میں رنگت، جسامت اور وزن کے پیش نظر اکثر احباب گوالمنڈی کا کوئی کشمیری گھبرو جوان سمجھ لیتے، جب بولتے تو یہ تاثر رفع ہوجاتا، اب تو خیرپنجابی زبان بھی اتنی رواں ہوگئی کہ اس شبے کو تقویت مل سکے۔ بازاروں، گلیوں، محلوں میں بہت گھومنے کا موقعہ ملا۔ کئی برسوں تک سواری نہیں تھی تو ویگنوں، بسوں میں سفر کرتے رہے، پریس کلب میں ہر قسم کے صحافیوں سے ملاقاتیں ہوتیں۔ عام آدمی ہونے کے ناتے ہم نے زندگی عام لوگوں ہی میں گزاری ہے۔
اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنا پر دو تین باتیں وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ سب سے اہم کہ دنیا کے چند غیر متعصب ترین مقامات کا اگر تعین کیا جائے توان میں لاہور شہر ضرور شامل ہوگا۔ اس سے زیادہ وسعت، فراخدلی اور تعصب سے پاک فضا شائد ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ دنیا کے بیشتر بڑے شہروں کا یہ مسئلہ ہے کہ وہاں باہر سے لوگ آکر اپنی محنت اور جدوجہد کے ذریعے ترقی کی منازل طے کر جاتے ہیں، جس کے ردعمل میں مقامی آبادی، شہر کے پرانے لوگ خاص قسم کے تعصب اور حسد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ خوبی پرانے لاہوریوں میں دیکھی کہ انہیں کسی قسم کا کمپلیکس نہیں۔ اس وقت لاہور شہر نصف سے زیادہ باہر سے آنے والوں پر مشتمل ہے۔ ظاہر ہے کاروبار، ملازمتوں وغیرہ میں یہ باہر والے یا نئے لاہورئیے سبقت لے گئے، مگر پرانے لاہوریوں کو کوئی مسئلہ نہیں، وہ اپنی دنیا میں مست ہیں۔ ہر ایک سے کھلے دل سے ملتے اور خوش آمدید کہتے ہیں۔ صحافت میں بھی یہ رجحان دیکھا۔ میں نے میگزین جرنلزم سے اپنا آغاز کیا۔ اپنے ربع صدی کے صحافتی سفر میں کہیں تعصب یا سرائیکی ہونے کی وجہ سے مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تین بڑے اخبارات کے میگزین سیکشن کا سربراہ رہا۔ میگزین ایڈیٹر جو کسی بھی میگزین میں کام کرنے والے کی ٹاپ پوزیشن ہے، وہ برسوں پہلے حاصل ہوگئی۔ کالم لکھنے کا شوق تھا تو سولہ سترہ سال پہلے اس کا موقعہ بھی مل گیا اورایک خالص لاہورئیے ایڈیٹر نے اس کی اجازت دی بلکہ بغیر کہے خود بلا کر کہا کہ کل سے کالم لکھنا شروع کر دو۔
پنجاب کے مزاج میں عمومی طور پر تعصب اور تنگ دلی شامل نہیں۔ پنجاب کی سیاست میں بھی یہی کھلا پن ہے۔ بھٹو صاحب جو سندھی تھے، سندھ کے لیڈر تھے، انہیں سندھ سے زیادہ نشستیں پنجاب سے حاصل ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب ہی نے بھٹو صاحب کو ملک کا وزیراعظم بنایا۔ سندھی، بلوچ، پشتون سیاستدانوں کی ہمیشہ لاہور کے اخبارنویسوں نے خیر مقدم کیا، ان کے لئے نرم گوشہ رکھا۔ اپوزیشن کی تحریکوں کاساتھ دیا، ان کے لئے لکھا۔ جو گیت نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کے بھی قوم پرستوں میں سب سے زیادہ مقبول ہوا، و ہ ایک پنجابی شاعر فیض احمد فیض نے لکھا اور ملتان کی گائیکہ اقبال بانو نے گایا۔ اروندھتی رائے نکسل گوریلوں کے کیمپ میں گئیں تو وہاں یہی گیت "دیکھیں گے، ہم بھی دیکھیں گے ?"ریکارڈر پر بجتے سنا۔ کون سا قوم پرست سیاستدان ہے جوحبیب جالب کے اشعار نظرانداز کر سکتا ہے، ان کا حوالہ دئیے بغیر رہ سکتا ہے؟
قوم پرست حلقوں کے شکوے شکایات چندبنیادی چیزیں نہ سمجھنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ دو باتوں کا اپنے پچھلے کالم میں تذکرہ کیا تھا۔ مین سٹریم میڈیا کی ترجیحات ملک کے تین چار بڑے شہروں تک محدود ہوگئی ہیں۔ خاص کر نیوز چینلز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کے مارننگ شوز اب اس سے نہیں نکل سکتے۔ اس کا سبب ریٹنگ کلچر اور ریٹنگ کے میٹرز کا کراچی، لاہور، اسلام آباد تک محدود ہونا ہے۔ جب تک یہ سسٹم نہیں بدلے گا، میڈیا کی ترجیحات نہیں بدل سکتیں، چاہے کتنے ہی شکوے شکایات کر لئے جائیں۔ دوسرا اخبارات کے ریجنل ایڈیشنز ہیں، ان سے مقامی خبروں کو بھرپور کوریج ملی، مگر بہت سی خبریں اسی ایڈیشن تک محدود بھی ہوگئیں۔ اس کا علاج ان لائن جا کر مختلف ایڈیشن پڑھنا ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے پنجاب کا میڈیا مین سٹریم میڈیا ہے کیونکہ دو بڑے صحافتی مراکز لاہور اورپنڈی پنجاب ہی ہیں۔
دو تین وجوہات اور بھی ہیں۔ سب سے اہم قوم پرست تحریکوں میں علیحدگی پسند عنصر کا شامل ہوجانا ہے۔ بلوچ قوم پرست تحریک کو سب سے زیادہ نقصان شدت پسند عسکریت پسند گروہوں سے پہنچا۔ انہوں نے بلوچوں کو فائدہ کچھ نہیں پہنچایا، ہر لحاظ سے گھاٹے کا سودا ہی کیا۔ سیاسی جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنوں کے خلاف حکومتی کارروائیاں ہوتی ہیں، مارشل لاء کے ادوار میں کوڑوں اور قید وبند کی سزائیں بھی ملتی رہیں، مسنگ پرسن بننے کی نوبت نہیں آتی۔ اکا دکا مثال ہوسکتی ہے، مگر یہ ٹرینڈ نہیں بن سکتا۔ عسکریت پسندوں یا دہشت گردوں کامعاملہ مختلف ہے۔ ان کے خلاف آپریشن پھیل جاتا ہے اور بسا اوقات بے قصور بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔ صورتحال زیادہ سنگین ہوجاتی ہے جب کسی علاقے میں عسکریت پسندوں کا کلسٹریا اجتماع بن جائے، وہاں زمینی راستے سے جانا ممکن نہ ہو اور صرف بڑا آپریشن ہی حل ہو۔ تب نقصان شدید ہوتا ہے اور ہمہ گیر نوعیت کا۔ ایک زمانے میں ایم آرڈی کی تحریک کے دوران کچھ سندھی علاقوں میں ایسا ہوا۔ بلوچستان میں آپریشن ہوئے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں آپریشن تو ابھی پچھلے چند برسوں کی کہانی ہے۔
یاد رکھیں کہ جب بھی قوم پرست تحریک میں علیحدگی پسند عنصر شامل ہوجائے گا، تب مین سٹریم میڈیا کے لئے اس کی حمایت مشکل ہوجائے گی۔ میڈیا میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ خیالات اور آرا پائی جاتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر عمومی تنقید ہوتی رہتی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی تحریک کے دوران میڈیا میں بے شمار چیزیں شائع ہوئیں، چینلز پر نشر ہوتی رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک کردار نیشنل سکیورٹی ایشوز کے حوالے سے بھی ہے۔ مین سٹریم میڈیا کبھی نیشنل سکیورٹی ایشوز پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ موقف اختیار نہیں کر سکتا۔ تیسری وجہ ریجنل حالات ہیں۔ بھارتی فوجی مداخلت کا خطرہ ملک پر منڈلا رہا ہو، افغان حکومت کھل کر پاکستان مخالف رویہ اپنائے ہو، ایران کے ساتھ ٹھنڈا، گرم چل رہا ہو، امریکہ پر اعتماد نہ کیا جا سکتا ہو۔ ایسے میں کون ہے جو ملکی فوج کے خلاف محاذ کھولے یا پھر کسی کھلے محاذ کی حوصلہ افزائی کرے گا؟ ایسے میں پوری قوم کی طرح مین سٹریم میڈیا بھی فورسز کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
پی ٹی ایم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ جب تک وزیرستان آپریشن کے بعدمقامی آبادی کے مسائل کی بات ہوتی رہی، تباہ شدہ جائیدا د کی تلافی، بارودی سرنگوں کی صفائی، چیک پوسٹوں میں نرمی اورمسنگ پرسنز وغیرہ، تب ہر ایک نے ان کی حمایت کی۔ جب علی وزیر، محسن داوڑ جیسے سخت گیر عناصر غالب ہوگئے اور اشرف غنی کی زبان بولی جانے لگی، تب پی ٹی ایم کی حمایت انتہائی سکڑ گئی۔ پنجاب کے اہل قلم قوم پرستوں کے مسائل کی حمایت کرتے رہے ہیں، آج بھی کریں گے مگر علیحدگی پسندوں کی حمایت ممکن نہیں۔ جب بی ایل اے، بی ایل ایف اور دیگر گروہ دہشت گردی کی وارداتیں کریں گے، تب ان کے خلاف آپریشن ہوگا، فورسز کی کارروائیاں ہوں گی۔ تب شکوک وشبہات تب اتنے بڑھ جائیں گے کہ برمش سانحہ جیسے واقعات کا بھی بلیک آئوٹ ہوجائے گا۔ سکیورٹی معاملات جب بہت خراب ہوجائیں، تب میڈیا کی بہت سے مقامات پر رسائی بھی نہیں ہوپاتی۔ اس سے بھی بہت کچھ رپورٹ نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی ایم کے حامیوں کو سوچنا چاہیے کہ پشتون قوم پرست جماعت اے این پی کے کارکنوں کے ساتھ معاملہ مختلف کیوں ہے؟ اس لئے کہ وہ پشتون قوم پرست سیاست وفاق کے دھارے میں موجود رہ کر کر رہی ہیں۔ پی ٹی ایم کا ایجنڈا، اس کے نعرے، اس کے لیڈر سب اپنی غلطیوں سے اعتبار کھو بیٹھے ہیں۔