عید کی چھٹیوں میں دو دن اخبار نہیں آتا، اس وقت سوشل میڈیا ہی خبریں معلوم کرنے، ڈسکس کرنے کا واحد سہارا بن جاتا ہے۔ پچھلے دو تین دنوں میں سوشل میڈیا پر کئی دھواں دھار مباحث چلتے رہے۔ دونوں کا تعلق عید سے پہلے کے واقعات سے ہے۔ کراچی میں طیارہ کے المناک حادثے نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا۔ موت بے رحم حقیقت ہے، اس کی سفاکی سے سب واقف ہیں، مگر یوں عید سے ایک دن پہلے ہونے والے سانحے نے فانی دنیا کی بے ثباتی کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔ دوسرا واقعہ چاند نظر آنے کے معاملے پر وفاقی وزیر سائنس فواد چودھری اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئر مین مفتی منیب الرحمن کے درمیان جھڑپ اور بیان بازی کا ہے۔ اس معرکے میں سے ایک خاص حلقے نے سائنس کی فتح برآمد کی اور انہوں نے اہل مذہب اور مذہب کی شکست پر خوب شادیانے بجائے۔ ہمارے بیشتر لبرل، سیکولر حلقوں کے ساتھ متشککین اور ملحدین کا حلقہ بھی ان کا ہمنوا تھا۔ طیارے حادثے کے بعد ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ مرحوم پائلٹ کے خلاف منظم انداز میں مہم چلنا شروع ہوگئی۔ مختلف "لیکس"اور مفروضہ جات کے ذریعے یہ تاثر دیا جانے لگا کہ پائلٹ سجاد گل ہی حادثے کے ذمہ دار ہیں اورپی آئی اے، سول ایوی ایشن کا کوئی قصور نہیں۔
چاند کی رویت کے حوالے سے سادہ سی بات ہے کہ رویت ہلال کمیٹی ہی کو فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ کسی فرد، گروہ، تنظیم یا غیر متعلق سرکاری محکمے کا یہ کام نہیں۔ ہر کسی کوا پنا کام کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے دوسرے محکمے یا ادارے کو کوئی مشورہ یا اِن پٹ دینی ہو تو وہ یہ کام غیر رسمی طور پر یا مراسلت کے ذریعے کرے اور میڈیا سے دور رہے۔ مفتی پوپلزئی صاحب سے بھی کسی کا جھگڑا نہیں۔ اگر وہ رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ ہوں تب ان کے فیصلوں کے ہم پابند ہوں گے۔ مفتی پوپلزئی سے شخصی اختلاف نہیں بلکہ اصولی مسئلہ ہے کہ ایک ریاستی ادارہ ہے، اس کی ذمہ داری ہے، اسے ہی کام کرنا چاہیے۔ ریاست کے اندر ریاست بناناکسی بھی صورت میں ناقابل قبول ہے۔
یہ بھی واضح ہے کہ چاند کی رویت شرعی مسئلہ ہے اور اس کے لئے علما کرام پر مشتمل رویت ہلال کمیٹی ہی مناسب ادارہ ہے۔ میرے خیال میں یہ سائنس اور مذہب کے تصادم والا معاملہ ہے ہی نہیں۔ مذہب نے سائنسی شواہد یا تحقیقات کو رد کیا نہ ان سے کسی قسم کی دشمنی پالی۔ علم حاصل کرنے کی اسلام میں بہت تاکید اور فضیلت بیان کی گئی۔ علم نافع کا بھی تذکرہ ہوتا رہا۔ انسانیت کی بھلائی کے لئے علم کا استعمال کرنا علم نافع ہی ہے۔ رویت کے معاملے میں سائنس کو مذہب سے بھڑا دینے کی کوشش نامناسب ہے۔ رویت ہلال کمیٹی اپنے نتائج اخذ کرنے میں تمام تر سائنسی شواہد استعمال کرتی ہے، ان کی سپورٹ لیتی ہے۔ یہ طریقہ کار درست ہے۔ سائنسی شواہد کو انسانی شہادتوں کی کسوٹی پر پرکھنا یا ان سے سپورٹ لینا قابل فہم بات ہے۔ اسی طرح شہادتیں سامنے آنے پر یہ دیکھنا منطقی ہے کہ کیا سائنسی اعتبار سے اس خاص جگہ، خاص وقت پرچاند دیکھنا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دی جائیں، انہیں پوری سائنسی سپورٹ دی جائے، شہادتیں جمع کرنے کے طریقہ کار کو مزید بہتر اور برق رفتار بنایا جائے۔ نتیجہ اخذ کرنا رویت ہلال کمیٹی کا کام ہے۔ ان کے فیصلوں پر اعتماد کرنا چاہیے۔
اس پورے تنازع میں وفاقی وزیر فواد چودھری صاحب کا رویہ درست نہیں تھا۔ یوں لگا جیسے انہیں میڈیا ہائپ لینے کا شوق ہے۔ رویت ہلال کمیٹی کے دائرہ کار میں وہ مداخلت کرتے رہے۔ ان کا یہ کہنا بلاجواز اور غیر منطقی تھاکہ رویت ہلال کمیٹی کو اب ختم کردینا چاہیے۔ وہ کوئی عام شخص نہیں، وفاقی وزیر ہیں، انہیں اپنی وزارت سے متعلقہ معاملات ہی پر بات کرنی چاہیے۔ تاہم مفتی منیب الرحمن صاحب نے اپنی پریس کانفرنس میں جس انداز سے فواد چودھری صاحب کو نماز اور روزوں کے حوالے سے حلفیہ بیان دینے کا کہا، وہ بات بھی نہیں جچی۔ مفتی صاحب سے ایسی ہلکی بات کی توقع نہیں تھی۔ وہ عالم دین ہیں اور انہیں اپنی علمی شائستگی سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا۔
روئیت ہلال کمیٹی کی سربراہی ایک اور اہم معاملہ ہے۔ مفتی منیب الرحمن صاحب کا میں ذاتی طور پر احترام کرتا ہوں۔ ان کے ساتھ نیازمندی کا تعلق ہے۔ اپنے کالموں کا مجموعہ ازراہ تلطف انہوں نے خاکسار کو بھجوایا۔ ایک آدھ بار ملاقات میں یا فون پر بات ہونے پرمیرے کالموں کے حوالے سے حوصلہ افزا کلمات کہے۔ بڑوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے، ان کا ممنون ہوں۔ اہل سنت کے معتدل ترین علما میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نہایت شائستگی سے مدلل بات کرتے ہیں۔ ان کے کالم میں ہمیشہ دلچسپی سے پڑھتا ہوں کہ شستہ نثر کا عمدہ نمونہ ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وہ طویل عرصے سے رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ آج تک کسی اور عالم دین کو اتنا عرصہ یہ موقعہ نہیں ملا۔ وہ انیس برسوں سے اس کے چیئرمین ہیں۔ ان سے پہلے مولانا احتشام الحق تھانوی (چار برس)، مولانا محمود احمد رضوی(چھ برس)، پیر کرم شاہ (تین برس)، مولانا مصطفی قاسمی(دو برس)، مولانا سراج احمد دین پوری (دو برس)، مفتی محمد حسین نعیمی (ایک سال)، مفتی ظفر علی نعمانی(دو برس)، مولانا ارشاد الحق تھانوی (تین برس)، مولانا عبداللہ اسلام آبادی (ایک برس)، مولانا اطہر نعیمی (تین برس)سربراہ رہے ہیں۔ (یہ اعداد وشمار شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق صاحب کی ایک تحریر سے لئے گئے ہیں۔ )اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب مفتی منیب الرحمن کا دور پچھلے آٹھ سربراہوں کے برابر ہے۔
مفتی صاحب کی معتدل اور ہر ایک کے لئے قابل قبولشخصیت ہونے کی وجہ سے اتنا عرصہ چیئرمین رہنے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب خود اس بوجھ سے جان چھڑائیں۔ انہیں اپنے علمی مشاغل کے لئے زیادہ وقت میسر ہوگا اور نیا چیئرمین آنے سے جن لوگوں کو ان کی ذات سے کد ہے، وہ خاموش ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہو تو پھرنئے چیئرمین کو چاہیے کہ وہ رمضان، عید کے حوالے سے اپنے اجلاس کراچی کے بجائے پشاور یا کوئٹہ میں رکھیں اور ایسے علاقوں سے شہادتیں لینے کی کوشش کریں جہاں سائنسی طور پر چاند دیکھے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔ دو تین دن پہلے سے اس کا اندازہ ہوجاتا ہے اس لئے وہاں پر دوربینوں سے لیس ٹیمیں بھی بھیجی جا سکتی ہیں۔ شہادتیں جمع کرنے میں اس بار کی طرح اگر کچھ تاخیر ہوجائے تب بھی کوئی حرج نہیں، فیصلوں کی شفافیت زیادہ اہم امر ہے۔
طیارہ حادثے کے حوالے سے مرحوم پائلٹ کے خلاف جو مہم چل رہی ہے، وہ بھی افسوسناک ہے۔ ابھی انکوائری کمیٹی نے شواہد اکٹھے کرنے شروع کئے ہیں، بلیک باکس ڈی کوڈ ہونے میں کئی ہفتے لگ جائیں گے، اس سے پہلے مفروضوں پر حتمی رائے کیوں دی جارہی ہے؟ یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حادثے کے دو گھنٹے بعد ہی کنٹرول ٹاور کے ساتھ پائلٹ کی چند سکینڈز کی گفتگو کیوں لیک کر دی گئی؟ کس نے ایسا کیا؟ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ واضح طور پر یہ میڈیا ٹرائل کا حصہ لگ رہا ہے۔ اگر لیک ہی کرنی تھی تو پھر مکمل گفتگو دی جاتی، صرف وہ حصہ کیوں سوشل میڈیا پر ڈالا گیا، جس سے سول ایو ی ایشن کو فائدہ پہنچے۔ بعد میں یہ بات بھی اڑائی گئی کہ پائلٹ لینڈنگ گیئر کھولنا ہی بھول گیا۔ یہ بات غیر منطقی اور قابل قبول نہیں لگ رہی۔ اس کے ساتھ کو پائلٹ بیٹھا تھا، وہ بھی بھول گیا؟ لینڈنگ میں سب سے اہم کام ہی لینڈنگ گیئر کھولنا ہے، کوئی اناڑی پائلٹ بھی اسے کھولنا نہیں بھول سکتا۔ مجھے تو یوں لگ رہا ہے کہ تمام تر الزام دنیا سے چلے جانے والے پائلٹ پر ڈال کر سول ایوی ایشن اور پی آئی اے اپنی تمام ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ مرحوم پائلٹ کی جانب سے کس نے وضاحت یا صفائی پیش کرنی ہے۔ کراچی طیارہ حادثے میں سو کے قریب قیمتی جانیں گئیں۔ اتنے بڑے حادثے کی تفصیلی انکوائری ہونی چاہیے۔ اس میں جولوگ یا محکمے ذمہ دار ہیں، ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ مرحوم پائلٹ کا بھی خاندان، والدین، اولاد ہے، ان کی دل آزاری کا ہی خیال کر لینا چاہیے، جن پر عید سے ایک دن پہلے قیامت ٹوٹ پڑی۔ بغیر ثبوت کے تمام ذمہ داری اس بدنصیب پائلٹ پر کیسے ڈالی جا سکتی ہے؟ ہم سب نے اللہ کو جان دینی ہے، جہاں ہر ایک چیز کا حساب ہوگا، ہر شہادت تولی جائے گی۔ پروفیشنل ازم اور خوف خدا دونوں ہمیں ذمہ داری کا سبق دیتے ہیں۔