وبا کے موسم کی اپنی زندگی ہے، عام دنوں سے بہت مختلف۔ ڈری، سہمی، نامعلوم کے خطرے سے دوچار۔ کب، کہیں پر خطرناک، نظر نہ آنے والا وائرس ٹکرا جائے۔ زندگی کا پورا پیٹرن بدل کر رکھ دے۔ اگلے دو تین ہفتوں کے لئے قرنطینہ کی خوفناک تنہائی۔ کچھ پتہ نہیں کہ آزمائش کے ان دنوں سے کیا برآمد ہو؟ کچھ پتہ نہیں کہ پھر سے نیاآغاز ہوپائے گا یا یہیں، بجھے بجھے، اداس دنوں میں سفر ختم۔ چندجاننے والے، دوست کورونا کا شکار ہوئے، ان کی ویڈیوز دیکھتا رہا۔ زندگی سے بھرپور، چہکتے، مہکتے، مسکراتے لوگ جب سانس کی تکلیف سے بے حال سرگوشی کے انداز میں بولتے تو سننے والوں کے دل دکھ سے بھر جاتے۔ یہی دعا نکلتی کہ یا رب کریم انہیں عافیت سے رکھ، بخیر وخوبی یہ آزمائش کے کڑے دن کٹ جائیں۔ فیس بک کے دو تین دوستوں نے تکلیف تو بھگتی، مگر الحمدللہ نکل آئے۔ اب وہ صحت یاب ہیں، پریشانی کے یہ دن یقینا ان کی زندگی سے کٹ نہیں سکیں گے۔ اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ جب رات کو سانس کی تکلیف کی وجہ سے ان کے لئے سونا بھی محال ہوجاتا ہوگا، تب ان پر کیا گزرتی ہوگی؟ اپنے بچوں کے چہرے سامنے جگمگاتے ہوں گے، پیاروں کی تصویریں۔ یہ تصور کہ نجانے یہ سب دوبارہ دیکھنا نصیب بھی ہوگا یا نہیں۔ یاسر علی میرے ایک فیس بک دوست ہیں، ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ زندگی سے بھرپو ریہ شگفتہ مزاج نوجوان ہمیشہ مسکراہٹ لئے ملتا۔ کاروبار کے سلسلے میں چین اکثرجانا ہوتا، وہاں سے اپنی سیلفیاں پوسٹ کرتا رہتا۔ کورونا کی آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کی تکلیف بھری سرگوشی نما آواز والی ویڈیو نے ہلا کر رکھ دیا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا زندہ دل نوجوان بھی اتنی شکستہ حالی سے دوچار ہوگا۔ اللہ نے کرم کیا اور بحران کے دن گذر گئے۔
سوال یہ ہے کہ ہم وبا کے ان کٹھن، تاریک دنوں میں کیا کر سکتے ہیں؟ کیا کرنا چاہیے؟ مجھے جو سمجھ آتی ہے، وہ تین نکاتی فارمولا ہے۔ پہلے دو پر تین چار دن پہلے کالم" عِفریت کے ساتھ جینا "لکھ چکا ہوں۔ مختصراً یہ کہ اپنے طو رپر پوری احتیاط برتی جائے۔ غیر ضروری طور پر کہیں جایا جائے اور نہ ہی اپنے گھر مدعو کیا جائے۔ قریبی عزیزوں، دوستوں کی طرف سے مدعو کیا جائے تو شائستگی سے معذرت کر دیں۔ صرف ضروری خریداری کے لئے ہی جائیں۔ جو خریداری ملتوی کی جا سکتی ہے، اسے کر دیں۔ خواتین کو خاص طور سے اس بار لان کے سوٹوں، سیل میلے وغیرہ سے دور ہی رہنا چاہیے۔ مجبوری کے عالم میں جانا پڑے تو ایسے وقت کا انتخاب کریں، جب رش کم ہو۔ زیادہ دکانیں گھوم کر بہترین کے چکر میں خود کو کورونا کرانے سے بہتر ہے کہ کچھ کم کوالٹی سے کام چلا لیا جائے۔ ایک ہی دکان سے شاپنگ کر کے واپس آ جائیں۔ ماسک لازمی پہنیں، ہاتھوں میں گلوز چڑھا لیں اور باہر نکل کر انہیں اتار کر تلف کر دیں۔ پولی تھین کے گلوز سستے پڑتے ہیں، وہ استعمال کرتے رہیں۔ نقدی نکلوانے کے لئے اے ٹی ایم جانا پڑے تو مزید احتیاط کریں۔ ہر جگہ پر سینی ٹائزر کی بوتل لازمی رکھی ہوتی ہے، پیسے نکالنے کے بعد سینی ٹائزر استعمال کر لیں۔ ہمارے ایک دوست نے یہ طریقہ بنایا ہے کہ کسی لفافے میں کیش ڈال دیتے ہیں اوردو تین دنوں بعد ہی اسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر نوٹوں پر وائرس کے اثرات ہوں گے تو اس وقت میں ختم ہوجائیں گے۔ آپ ان شااللہ محفوظ رہیں گے، اگر خدانخواستہ وائرس کے ساتھ سامنا بھی ہوا تو وائرس لوڈ کم رہے گا۔ اگر وائرس لوڈ کم رہے تو وائرس کے پوری طرف ایکٹوہونے سے پہلے ہی انسانی جسم اس کے جواب میں اینٹی باڈیز بنا لیتا ہے۔ تب وائرس سے نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ بہت سے کیسز میں تو کورونا کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں۔
وائرس لوڈ کم رکھنے کے لئے سماجی فاصلہ رکھنے اور ماسک کی احتیاط کے ساتھ دوسر ا کام اپنے جسم کی امیونٹی بہتر کرنا ہے۔ جدید لائف سٹائل میں ہم نے اپنے جسم پر ناکافی اور بے وقت نیند کے ساتھ کھانے پینے کی بری عادتوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ بوجھ اتارنے ہوں گے، اس کے بعد ہی جسمانی قوت مدافعت مضبوط ہوپائے گی۔ سادہ، گھر کی بنی ہوئی صحت مند غذا کھائیں۔ اپنی غذا میں پروٹین شامل رکھیں، انڈے کی سفیدی، گوشت، یخنی، دالوں، لوبیہ وغیرہ میں پروٹین موجود ہے۔ گوشت مہنگا ہے، مگر دال مونگ وغیرہ تو لی جاسکتی ہے۔ وٹامن سی، زنک، وٹامن ڈی لیتے رہیں۔ ان کے سپلیمنٹ مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ سب سے اہم کہ سات آٹھ گھنٹوں کی رات کی نیند لیں، دن میں کم از کم آدھا گھنٹہ تیز چلیں، یوگا وغیرہ کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ ورزش سے آپ کی فٹنس اور فزیکل امیونٹی دونوں بہتر ہوں گی۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان تمام احتیاطوں کے باوجود کسی نہ کسی طریقے سے، کہیں لمحاتی غفلت یا بھول سے کورونا کا شکار ہوجائیں، تب کیا کیا جائے؟ اس کا کوئی آسان جواب نہیں، مگر ہمارے خیال میں پھرمعاملہ اپنے رب پر چھوڑ دیں۔ وہ سب سے زیادہ مہربان اور بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اپنی طرف سے تمام تر احتیاط اور پھر رب کی مشیت، مرضی کے آگے سرنڈر کر دینا۔ یہی واحد طریقہ ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی روحانی امیونٹی مضبوط بنائی جائے۔ اس لئے نہیں کہ کورونا سے بچے رہیں، بلکہ اس لئے کہ مشکل کے ان دنوں میں، آزمائش کے لمحوں میں آپ استقامت کے ساتھ سیدھے راستے پر رہیں۔ گمراہ نہ ہوجائیں، خوف کے عالم میں اپنا راستہ نہ کھو بیٹھیں۔
روحانی امیونٹی (Immunity)یا روحانی قوت مدافعت مضبوط بنانے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں، ماہرین اس حوالے سے بہتررہنمائی کر سکتے ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے میں ایک دو نکات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ جس طرح ہم جدید لائف سٹائل میں بہت سی سامنے کی باتوں سے غافل ہوگئے ہیں۔ اسی طرح دنیاوی سفر میں، زندگی کی تیز رفتار دوڑ میں اپنے اصل مقصد سے دور ہٹ گئے ہیں۔ اپنے خالق، اپنے رب کو بھول گئے۔ رب تعالیٰ جو ہماری اول ترجیح ہونی چاہیے، اب بہت نیچے کہیں اس کا نمبر آتا ہے۔ وہ بھی زیادہ تر نمائشی انداز میں۔ نماز پڑھ لی، مگر خیالات کہیں اور تھے۔ کسی مسجد، مزار پرغریبوں کے لئے دیگ چڑھا دی، مگر اس کے پیسے غریبوں کا پیٹ کاٹ کر ہی کمائے۔ مال حرام رگ وپے میں سرائیت کرگیا۔ اپنی تسلی کے لئے تلاوت کی مگر بے روح۔ لوگوں کا حق مار کر، ان سے زیادتی کر کے بے تہاشا کمایا اور پھر اس کے ایک حصے سے غریبوں کیلئے دسترخوان بنا دئیے، بچیوں کی اجتماعی شادیاں کرا دیں وغیرہ وغیرہ۔ اس سب سے ہم کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں؟ یقینی طور پر اپنے آپ کو۔ کسی نے ظلم نہیں کیا تو وہ کیرئر بنانے کی دوڑ میں ہرتعلق، ہر رشتے کو بھلا بیٹھا۔ خودغرضی کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔
وبا کے یہ کڑے دن آپ کو اپنی روحانی امیونٹی مضبوط بنانے کا موقعہ فراہم کر رہے ہیں۔ اپنے اوپر جو غیر ضروری بوجھ ڈال رکھے تھے، ان سے جان چھڑا لیجئے۔ اپنی ترجیحات کو ازسرنو تازہ کر یں اور رب تعالیٰ کو پہلا درجہ دیں۔ ایک طریقہ تو وہی کلاسیکل ہے کہ نماز کے علاوہ اپنا کچھ وقت تلاوت قرآن، ذکر خدا میں صرف کریں۔ مسنون تسبیحات پڑھیں، درود شریف سے اپنے وجود کو مشکبار کریں، سنت ﷺ کے مطابق دعائیں مانگیں۔ ہمت کریں تو ایک اور کام بھی کر سکتے ہیں۔ یہ مستقل بنیاد پر روحانی امیونٹی کو مضبوط بنانے کا نسخہ ہے۔ طریقہ آسان ہے۔ کسی روز عشا کی نماز پڑھ کر جلدی سو جائیں، نصف شب کے بعد کا الارم لگا لیں۔ ڈھائی تین بجے کے قریب اٹھیں اور کسی کو ڈسٹرب کئے بغیر خاموشی سے وضو کریں، چند نوافل پڑھیں اور جائے نماز پر کچھ دیر کے لئے اپنے رب سے کنیکٹ ہوجائیں۔ خوش قسمتی سے ہمیں اپنے خالق سے جڑنے کے لئے کسی سفارش، کسی وائی فائی نیٹ کی ضرورت نہیں۔ آپ دل میں ہی پکاریں، وہ سننے والا مہربان، رحیم اور کریم ہے، ضرور سنے گا۔
تنہائی کے ان لمحوں میں اپنی غلطیوں، کوتاہیوں، کمزوریوں کا اعتراف کریں۔ رب سے معافی مانگیں اور ایسے تمام بوجھ اتار پھینکیں جنہوں نے روح زخمی کر رکھی ہے۔ ہر صاحب اولاد جانتا ہے کہ بچہ غلطی کے بعد شرمندہ ہو کر ماں کی گود میں منہ چھپائے تو تمام غصہ تحلیل ہوجاتا ہے۔ رب کریم کی شفقت، محبت اور درگزر تو ماں کی محبت سے بہت بڑھ کر ہے۔ اس محبت پر یقین رکھیں۔ اپنے سب خوف، واہمے، شکوک، شبہات، پریشانیوں کے گٹھڑ اپنے کاندھے سے اتار کر اپنے مالک کے آگے رکھ دیں۔ درخواست کریں کہ یہ بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا، آپ ہی مہان، سب سے بڑے، سب سے طاقتور ہیں، انہیں آپ ہی دیکھیں اور کرم، فضل فرمائیں۔ رب نے چاہا تو اطمینان، آسودگی اور سکون کی لہر پورے وجود میں دوڑ جائے گی۔ پریشانیاں ہوا ہوجائیں گی۔ نامعلوم کا خوف، آنے والے طوفان کا خدشہ ذہن سے نکل جائے گا۔ اپنے آپ کو رب تعالیٰ کی مرضی کے حوالے کر دیں گے۔ اسے منظور ہوا تو سب کچھ بہترین طریقے سے گزر جائے گا۔ ہر دو صورتوں میں ہم اپنے آقا، مالک، خالق کے غلام ہیں۔ اسی کی مرضی میں خوش اور مطمئن رہنا چاہیے۔ وہی ہمارا، اہل خانہ، سب کا خیال رکھنے والا ہے۔ اسی پر بھروسہ رکھیں۔ کبھی ناکام، کبھی ناشاد نہیں ہوں گے۔