جمعرات کی صبح ایک قریبی دوست کا فون آیا۔ انہوں نے سنٹرل پنجاب کے ایک شہر سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک عزیز کا تعارف کرایا، جو عدالت میں کام کرتے تھے، مگر عدالتیں بند ہونے کی وجہ سے آج کل مشکلات کا شکار ہیں۔ چند منٹ بعد ان صاحب سے بات بھی ہوگئی وہ مقامی عدالت میں عرضی نویسی اور اسٹامپ فروشی کا کام کرتے تھے۔ بڑی دل گرفتی سے بتانے لگے کہ میں ضرورت مند نہیں ہوں، اللہ کے فضل سے جب عدالتیں کھلی تھیں تو تیس پینتیس ہزار کے قریب کما لیتا تھا۔ عدالتیں بند ہوئے کئی ہفتے ہوچکے اورایک روپے کی آمدنی نہیں ہو رہی۔ کہنے لگے کہ میرا تعلق اس سفید پوش کمیونٹی سے ہے جو جس قدر کماتے ہیں، اتنے ہی خرچ ہوجاتے ہیں، یوں انگریزی محاورے کے مطابق "ہینڈ ٹو ماوتھ " ہی رہتے ہیں۔ اب اچانک سب کچھ بند ہوگیا تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً فاقوں تک معاملہ پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے درخواست کی کہ امدادی ادارے یا تنظیم سے کچھ مالی مدد مل جائے یا قرض حسنہ کی صورت ہی میں کچھ کیا جا سکے تو یہ مشکل دن کاٹ لیں گے، یہ وقت گزر جائے، عدالتیں کھل جائیں تو پھر سے ان شااللہ آمدنی کا سرکل شروع ہوجائے گا، تب قرض حسنہ بھی آسان اقساط میں لوٹا سکیں گے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ امدادی تنظیمیں کس قدر شدید مالی دبائو میں ہیں اور ان سب کی بنیادی ترجیح لوگوں تک راشن پہنچانا ہے، مگر ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے جبکہ فنڈز کم۔ ان صاحب کو احساس پروگرام میں رجسٹریشن کرنے کا مشورہ دیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے میسج کیا تھا، مگر جواب یہی آیا کہ کوائف چیک کرنے کے بعد بتائیں گے، کئی دن گزر گئے مگر کوئی مزید اطلاع نہیں ملی۔
ان صاحب کی مدد کا تو خیر کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیں گے، مگر ایک بار پھر احساس ہوا کہ بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں لوئر مڈل کلاس لوگ جو اپنے گھر کا مناسب خرچہ چلا رہے تھے، اچانک ہی سب کچھ بند ہوجانے سے ان کے لئے شدید مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں۔ ان کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اگلے روزایک ٹی وی شو میں وفاقی وزیرا سد عمر کی گفتگو سننے کا موقعہ ملا۔ اسلام آباد کے ایک معروف اینکر کے سوالات کے جواب میں اسد عمر نے دو تین بار طعنہ دیا کہ اسی وجہ سے وزیراعظم لاک ڈائون میں کچھ تاخیر کر رہے تھے کہ جب سب کچھ بند ہوجائے گا تو پھرکروڑوں لوگ کوجان کے لالے پڑ جائیں گے اور حکومت ہر جگہ نہیں پہنچ سکے گی۔ سچ بات ہے کہ اینکر موصوف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اپنی شرمندگی چھپانے کے لئے وہ ادھر ادھر کی ہانکتے رہے۔ اسد عمرا ور ان کے لیڈر عمران خان کو اس صورتحال سے یہ سیکھنا چاہیے کہ میڈیا کے کہنے پر ہرگز نہیں چلنا چاہیے۔ میڈیا حل نہیں دکھاتا۔ میڈیا خاص کر الیکٹرانک میڈیا کی اصل ترجیح صرف ریٹنگ لینا اور اپنے ناظرین کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے ساتھ چپکائے رکھنا ہے۔ وہ اس کے لئے ہر ممکن منفی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ، ہر معاملے میں کیڑے نکالتے اور تنقید کا کوئی نہ کوئی پہلو نکال لیتے ہیں۔ ایک زمانے میں " کالم نگاروں کی قلابازیاں " کے نام سے ایک کتاب شائع ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کی اقتدار میں آمد سے ایک ماہ پہلے اور اس کے ایک ماہ بعد شائع ہونے والے بعض ممتاز کالم نگاروں کے منتخب کالم ایک ڈاکٹر نے جمع کر کے چھاپ دئیے۔ آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ کیسے کیسے بڑے ناموں نے ڈکٹیٹر کے آنے کے بعد کس طرح قلابازی کھائی اور اپنے سابق موقف سے یکسر متضاد تحریریں تخلیق کیں۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا دور نہیں تھا۔ آج کل کوئی صاحب معمولی سی محنت کریں تو ہمارے اینکرز کی قلابازیوں پر ایک نہیں کئی کتابیں مرتب ہوجائیں گی۔ ہمارے بیشتر اینکرز کسی ایشو پر پہلے بڑا شور ڈالتے اور حکومت پر تنقید کے تیر چلاتے ہیں، وہ کسی خاص اقدام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر حکومت اس مطالبہ کو پورا کرتے ہوئے وہ ایکشن لے لے، تب یہ تمام اینکر قلابازی کھا کر اچانک ہی حکومت پر تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ایکشن کیوں لیا؟ بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لال مسجد آپریشن سے لے کر حالیہ لاک ڈائون میں ایسا ہی ہوا۔ عمران خان کی سیاسی فراست اور دانش کے ہم کچھ زیادہ قائل نہیں، بے شمار غلط فیصلے انہوں نے کئے، بعض پر بلاوجہ اڑ بھی جاتے ہیں۔ لاک ڈائون کے خطرات اور عوامی مشکلات کے حوالے سے وزیراعظم کی رائے البتہ بالکل درست ہے۔ ویسے تو لاک ڈائون کرنے کی تجویز بھی ایسی غلط نہیں تھی۔ کورونا کی تباہ کاری نے پوری دنیا کو اسی فیصلے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کے معروضی حالات مگر مغربی ممالک سے بہت مختلف ہیں۔ یہاں مستحق تک پہنچنا آسان نہیں۔ یہا ں کورونا سے بچنا، مگرتمام تر طبی احتیاطوں کے ساتھ جزوی کاروبار کھولنے کی حکمت عملی اپنانی پڑے گی۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں، مکرر عرض ہے کہ بعض کاروبار ہفتے میں ایک دن کے لئے کھولے جا سکتے ہیں۔ ایزی پیسہ کی دکانیں، موبائل فون کمپنیوں کی فرنچائز، سگریٹ پان کی دکانیں وغیرہ۔ اس طرح لاکھوں لوگوں کو کچھ نہ کچھ آمدنی بھی ہوگی اور یہ دکانیں بند ہونے سے جو لوگ پریشان ہیں، ان کی پریشانی بھی رفع ہوسکے گی۔
ان سفید پوش افراد کے لئے مختلف تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ الخدمت کے سربراہ جناب عبدالشکور صاحب سے بات ہوئی، ان کا کہنا تھا کہ سفید پوش لوگوں تک پہنچنا سب سے اہم اور ضروری کام ہے۔ بتانے لگے کہ انہوں نے گورنر پنجاب کو بھی تجویز دی، آن ائیر مختلف شوز میں بھی یہ کہا کہ پرائیویٹ سکولز والوں کو حکومت قرض دے یا کسی بھی طرح ٹیچرز کی تنخواہوں کے لئے کچھ پیسہ جاری کرے۔ پوری تنخواہ نہیں تو نصف ہی سہی، مگر لاکھوں ٹیچرز اور سکول کا دوسرا عملہ گھروں میں بیٹھا فاقوں تک پہنچ چکا ہے۔ سکول بند ہیں، بچوں کی فیسیں جمع نہیں ہوں گی تو سکول مالکان ٹیچرز کو تنخواہیں کیسے دیں گے؟ غزالی ٹرسٹ سکولز نے اپنے طلبہ کے والدین کے لئے پیکج فراہم کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ عامر محمود جعفری اس کے سی ای او ہیں، انہیں احساس ہوا کہ غزالی سکول میں پہلے ہی غریب گھروں کے بچے ہیں، اب جہاں سب کچھ بند ہوا پڑا ہے، تو ان کے گھروں کی کیا حالت ہوگی۔ غزالی والے کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے طلبہ کے گھروں میں راشن فراہم کیا جا سکے۔ یہ بہت اچھی مخلصانہ کوشش ہے، حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو اس میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔
اگلے روز ایک ٹاک شوز میں اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بہت عمدہ تجویز پیش کی۔ ڈاکٹر امجدکا کہنا تھا کہ حکومت ایک کروڑ بیس لاکھ گھرانوں کی مدد کر رہی ہے، یہ بہت اچھا ہے، اسے سراہنا چاہیے، مگر تین چار ملین ایسے سفید پوش بھی ہیں جو امداد کے لئے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہتے، ایسے لوگوں کو بیس ہزار کے قریب قرضہ حسنہ دے دیا جائے۔ یہ اپنی فوری مشکل دور کر لیں۔ ایک دو ماہ میں ان شااللہ حالات نارمل ہوجائیں، کام کاج شروع ہو تو یہ قرض حسنہ پانچ سو روپے ماہانہ اقساط میں واپس کر دیا جائے۔ اس طرح پیسے ضائع بھی نہیں ہوں گے اور تیس چالیس لاکھ گھرانے یعنی ایک ڈیڑھ کروڑ مزید لوگوں کی مدد ہوجائے گی۔ یہ عمدہ تجویز ہے، اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس شو میں ہلال احمر فائونڈیشن کے سربراہ گلوکار ابرار الحق بھی موجود تھے۔ انہوں نے ناک بھوں چڑھایا کہ یہ تو اتنی بڑی رقم بن جائے گی، صفر ہی کیلکولیٹر میں نہیں آ رہے۔ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک منٹ میں حساب کر لیا کہ اگر ایک لاکھ افراد کو دس ہزار روپے دئیے جائیں تو ایک ارب بنتے ہیں یعنی ایک لاکھ لوگوں کو بیس ہزار روپے قرض حسنہ دینے میں دو ارب لگیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ دس لاکھ افراد کے لئے بیس ارب اور بیس لاکھ لوگوں کے لئے چالیس ارب لگیں گے۔ اگر حکومت بیس لاکھ افراد کو قرض حسنہ دینے کا سوچ لے تو چالیس ارب روپے میں ان کی زندگیاں آسان ہوجائیں گی۔ اگر چالیس کی جگہ پچاس یا ساٹھ ارب کئے جا سکیں تو پچیس سے تیس لاکھ لوگوں کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس پر عمل درآمد کا طریقہ بھی سجھایا۔ حکومتی احساس پروگرام کے تحت چھبیس کے قریب چھوٹے قرضے دینے والے ادارے موجود ہیں جن میں اخوت، آگہی، کشف اور دیگر تنظیمیں موجود ہیں۔ ان سب کے پاس ڈیٹا موجود ہے جو فوری طور پر حکومت استعمال کر سکتی ہے۔ چند دنوں میں یہ رقم ضرورت مند سفید پوشوں کے پاس پہنچ جائے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے فراخدلی کے ساتھ کورونا وباسے متاثر ہ افراد کے لئے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ وہ اگر سفید پوش افراد کے لئے کچھ کرنے کا سوچیں تو یقیناً ان تجاویز پر عمل کی راہ نکل آئے گی۔