آج کل عجیب سی صورتحال ہوچکی ہے۔ صبح اخبار پڑھیں تو اکثر خبریں پڑھ کر شدید کوفت ہوتی ہے، رات کو نیوز چینل لگا کر خبریں سنیں تو وہی حال۔ طبیعت مکدر ہوگئی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر طر ف سے سیاسی چالیں چلی جا رہی ہیں، الٹی سیدھی، جائز ناجائز چالیں۔ ہر فریق چاہتا ہے کہ دوسرے کو ناک آئوٹ کر دے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے ہر قسم کی اخلاقیات کے پرخچے اڑا دئیے گئے۔ منہ بھر بھر کر جھوٹ اگلا جا رہا ہے۔ دیکھنے والے کو کراہیت آ جائے، مگر بولنے والے نہایت ڈھٹائی اور دیدہ دلیری کے ساتھ پے درپے جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں۔
ابھی چند دن پہلے جب چودھری پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لیا تو ن لیگ کے رہنمائوں نے کس قدر شور مچایا اور عجیب وغریب الزامات لگائے۔ سچ یہ ہے کہ چودھری صاحب نے انہیں زبردست سرپرائز دیا اور کئی ایسے اراکین اسمبلی کو جو ملک سے باہر تھے، ان سے رابطہ کر کے انہیں خاموشی سے واپس بلوا لیا اور اچانک پنجاب اسمبلی پہنچ کر اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ اس سرپرائز نے ن لیگ کو ناک آئوٹ کر دیا۔
سیاست میں ایسا ہوجاتا ہے، کبھی کسی کی موو زیادہ سمارٹ رہتی ہے اور کسی وقت کوئی اور بازی مار لیتا ہے۔ ن لیگ کے رہنمائوں رانا ثنااللہ اور عطا تارڑ وغیرہ نے اسے تسلیم کرنے کے بجائے الزامات کی بوچھاڑ کر دی۔ اس میں یہ عجیب بات بھی شامل تھی کہ چودھری پرویز الٰہی کے پاس محض ایک سو اکیاسی اراکین ہیں اور وہ ایک سو چھیاسی ہونے کاڈرامہ کر رہے ہیں۔ آدمی پوچھے کہ پنجاب اسمبلی میں اعتماد کے ووٹ کا پورا ڈیکورم اور سسٹم ہے، کیمرے موجود ہیں، اراکین اسمبلی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر گیلری میں جاتے اور اپنے ناموں کے آگے دستخط کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ تعداد میں فرق ہو پائے۔ رانا ثنااللہ، عطاتارڑنے مگر نہایت دیدہ دلیری سے یہ دروغ جڑ دیا اور عدالت جانے کا اعلان بھی کرد یا۔ پوچھا جانا چاہیے کہ عدالت پھر کیوں نہیں گئے؟
قومی اسمبلی کے سپیکر محترم کا طرز عمل بھی نہایت افسوسناک اور مایوس کن رہا۔ وہ پرانے پارلیمنٹرین ہیں، اہم ترین قومی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے آٹھ نو ماہ پہلے استعفے دئیے، بار بار وہ استعفے منظور کرنے کا مطالبہ کرتے رہے۔ ہر بار سپیکر صاحب فرما دیتے کہ آئین اور قانون کی رو سے اجتماعی استعفے منظور نہیں ہوسکتے، میں فرداً فرداً اراکین اسمبلی سے ملاقات کے بعد ایک ایک کر کے استعفا منظور کر وں گا۔ تنگ آ کر تحریک انصاف نے کہا کہ چلو ایک ایک کر کے ہی بلائیں۔ سپیکر صاحب مگر خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ اب جب ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگی، وزیراعظم شہباز شریف کو خدشہ لگا کہ اگر انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا تو مشکل ہوجائے گی۔ ادھر تحریک انصاف نے اچانک اعلان کر دیا کہ ہم اسمبلی میں واپس آ نے پر غور کر رہے ہیں۔
ایسے میں وہ سپیکر صاحب جن کا دعویٰ تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق اجتماعی استعفے منظور نہیں کئے جا سکتے، انفرادی ملاقات کے بعد یہ ہوگا۔ اسی سپیکر نے اچانک ہی پینتیس اراکین کے استعفے منظور کر لئے۔ الیکشن کمیشن بھی لگتا ہے اسی تاڑ میں بیٹھا تھا، اس نے ایک لمحے کا انتظار نہیں کیا اور فوراً انصافین اراکین اسمبلی کو ڈی سیٹ کر دیا کہ شائد یہ عدالت سے سٹے نہ لے لیں۔ الیکشن کمیشن کی یہ" پھرتیاں" بھی دلچسپ ہیں۔ اب خبر آئی کہ مزید تیس پینتیس استعفے منظور کر لئے گئے، یعنی جو سپیکر آٹھ ماہ میں استعفے نہیں منظور کر سکا، اس نے اچانک دو دنوں میں ستر کے لگ بھگ استعفے نمٹا ڈالے۔ اسے کیا کہیں؟ کھلا تضاد تو بڑا نرم لفظ ہے، اسے تو سیاسی منافقت اور جمہوری اخلاقیات کے پرخچے اڑانا ہی کہیں گے۔
ایک اور دلچسپ معاملہ نگران وزیراعلیٰ کا رہا۔ تحریک انصاف نے نگران وزیراعلیٰ کے لئے نسبتاً بہترنام پیش کئے۔ جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ ناصر کھوسہ صاحب کا نام دیا گیا جو ن لیگ کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری رہے۔ ان کی غیر جانبداری میں کوئی کلام نہیں۔ سکھیرا صاحب حال ہی ریٹائر ہوگئے اور پی ڈی ایم حکومت کے سیکرٹری رہے ہیں۔ ان کا تحریک انصاف یا عمران خان سے کبھی کوئی سیاسی تعلق نہیں رہا۔
پی ڈی ایم نے جو دو نام دئیے، وہ حیران کر دینے والے ہیں۔ سابق بیورو کریٹ احد چیمہ کا نام بڑے تزک واحتشام سے پیش کیا گیا۔ شہباز شریف صاحب جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے، تب احد چیمہ ان کے سب سے چہیتے اور قابل اعتماد بیوروکریٹ تھے۔ اسی وجہ سے احد چیمہ پر نیب نے کیسز کئے اور خاصا عرصہ انہیں اسیری میں گزارنا پڑا۔ پی ڈی ایم حکومت آئی تو احد چیمہ جو سرکاری ملازمت چھوڑ چکے تھے، انہیں وفاقی مشیر بنا دیا گیا۔ اس وقت بھی وہ وزیراعظم شہباز شریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ ایسے شخص کا نام نگران وزیراعلیٰ کے لئے آخر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ نگران وزیراعلیٰ آئین کے مطابق غیرجانبدار ہونا چاہیے اور اس پر دوسرے فریق (یعنی اس کیس میں تحریک انصاف کی پنجاب حکومت)کا متفق ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی شخص یہ تصور کر سکتاہے کہ احد چیمہ کو تحریک انصاف نگران وزیراعلیٰ مان لے گی؟ نہیں۔ پھر ان کا نام کیوں پیش کیا گیا؟
اسی طرح دوسرا نام ایک میڈیا ہائوس کے مالک کا دیا گیا، وہ بھلے آدمی ہیں مگر انکے بارے میں تاثر ہے کہ وہ زرداری صاحب کے قریبی دوست ہیں اور ان کا چینل عمران خان کا سخت مخالف ہے۔ ایسے لوگ جو واضح طور پر پی ڈی ایم کے لئے ہمدردی رکھتے ہوں، انہیں آخر نگران وزیراعلیٰ کے طور پر کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ یہ بات تو پی ڈی ایم حکومت اچھی طرح جانتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دانستہ ایسے نام دئیے گئے جن پر اتفاق رائے نہ ہوسکے اور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے؟ کیا پی ڈی ایم حکومت جانتی ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ان کے حق میں جائے گا؟
بہتر یہ ہوتا کہ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دینے کے بجائے دونوں فریق ایسے نام دیتے جن پر اتفاق رائے ممکن ہوپاتا۔ پی ٹی آئی نے کسی حد تک کوشش کی، مگر پی ڈی ایم نے تو بھرم رکھنے کی بھی کوشش نہیں کی اور دانستہ ایسے نام دئیے جن پر اتفاق رائے ہو ہی نہ پائے۔ یہ کیسی چال ہے اور اس سے جمہوری، آئینی، سیاسی روایات کو کس قدر دھچکا پہنچے گا؟ کسی نے غور کیا؟
جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے، اسے کراچی کے بلدیاتی الیکشن میں بہت بری شکست سے ایک بڑا دھچکا پہلے پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے جن صاحب کو اپنی طرف سے میئر کے لئے نامزد کر دیا تھا، وہ سرے سے یوسی الیکشن ہی نہیں جیت پائے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف ستر کے قریب سیٹوں پر قومی اسمبلی کے الیکشن میں کیا حکمت عملی اپناتے ہیں؟ کیا ان تمام پر بھی عمران خان کو امیدوار بنایا جائے گا؟ اگر ایسا ہوا تو کیا یہ آئین، سیاست، جمہوریت سے ایک بھونڈامذاق نہیں ہوگا؟
عمران خان کو اب یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ عجلت میں جو جارحانہ پالیسی اپناتے ہیں، وہ ہر بار درست ثابت نہیں ہوتی۔ اگر قومی اسمبلی میں حکومت گرنے کے بعد باضابطہ استعفے نہ دئیے ہوتے تو آج وہاں منظرنامہ مختلف ہوتا۔ اگر تحریک انصاف تب وزیراعظم کے الیکشن میں حصہ لیتی تو ممکن تھا کہ اس کے منحرف اراکین اسمبلی ڈی سیٹ ہی ہوجاتے۔ صرف دو سیٹوں کے بل بوتے پر پی ڈی ایم کا وفاقی حکومت چلانا آسان نہیں تھا۔ استعفوں نے ان کا کام آسان بنا دیا۔
دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل میں عمران خان کامیاب ہوئے، لیکن اگر پنجاب اور کے پی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ نگران وزیراعلیٰ تحریک انصاف کی توقعات کے برعکس ہوئے تب وہ کیا کریں گے؟ جہاں تمام اخلاقی اصول اور پیمانے بالائے طاق رکھ کر سیاسی چالیں چلی جا رہی ہوں، وہاں کون سی چال الٹ بیٹھے گی، کوئی نہیں بتا سکتا۔