اپنے پچھلے کالم میں اس پر تفصیل سے بات کی تھی کہ سیاستدانوں کی کرپشن پر بات کرنا غیر جمہوری قوتوں کی حوصلہ افزائی نہیں۔ اسے جمہوریت دشمنی نہیں کہنا چاہیے۔
بات بڑی واضح ہے، سیاستدانوں کا یہ کام ہے کہ وہ الیکشن لڑیں، عوام سے ووٹ لیں اوراکثریت حاصل ہونے پر اقتدارمیں آئیں۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا کام نہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک خاص کردار ہے، ہمارے ہاں بھی وہی ہونا چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر اپنی اِن پٹ دیتی اورپالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بناتی ہے۔ پیچھے رہ کر یہ سول حکومت کی معاونت اور مدد کر سکتے ہیں۔ مدد کا لفظ استعمال کیا، ڈکٹیشن کا نہیں۔ فیصلے سول حکمرانوں کو کرنے چاہئیں کہ انہیں عوامی مینڈیٹ بھی حاصل ہوتا ہے اور وہ ملک وقوم کے آگے جواب دہ بھی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کوحکومت کا ہاتھ مروڑنے (Arm Twisting) کی کوشش نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں سے ساز باز کر کے لانگ مارچ، دھرنا حکمت عملی کی حوصلہ افزائی۔ اس سے مسائل پیچیدہ اور گمبھیر ہوتے ہیں۔
ہر باشعور شخص چاہتا ہے کہ ملک میں جمہوریت مستحکم ہو، غیر جمہوری فوجی حکومتیں قصہ پارینہ بن جائیں۔ سیاسی عمل آگے بڑھے۔ تمام ادارے ایک ہی پیج پر رہ کر اہم فیصلے کریں۔ طاقت کا مرکز بھی واضح ہو، وزیراعظم ہائوس کو فیصلوں کا گڑھ ہونا چاہیے، مگر اداروں کی ان پٹ کے ساتھ۔ اس کیلئے مگر نہایت ضروری ہے کہ جمہوریت کا نام صرف اقتدار میں آنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت ایک مکمل پیکج ہے، اسے پورا خریدنا پڑتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ایک پرکشش ڈنر سیٹ ہے، اس کی ایک جگمگاتی پلیٹ لے کر خوشی خوشی استعمال کر لی جائے۔ نہیں، اگر جمہوریت کی بات کی جاتی ہے تو پھر مکمل جمہوری نظام ہی چلے گا۔ یہاں پر ہمارے سیاستدان اور سیاسی پارٹیاں بدنیتی اور عدم خلوص کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ہمارے اہل دانش ایک دلیل بڑے ذوق شوق سے دیتے ہیں کہ سیاسی عمل کو چلنے دیا جائے تو یہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بات ایک لحاظ سے درست ہے، مگر اسی کے اندر ایک تضاد بھی موجود ہے۔ سیاسی نظام اصلاحات لانے سے بہتر ہوتا ہے، ایسے ہی بے مہار چلتے رہنے سے یہ کبھی درست نہیں ہوگا۔
ہمارے ہاں جماعتیں چند افراد اور ان کے گھرانوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہیں۔ بھٹو خاندان جو کہ اب عملاً زرداری خاندان ہے، شریف خاندان، اسفند یار ولی کا گھرانہ، مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی بیٹے، محمود اچکزئی اور ان کا خاندان، چودھری برادران، عمران خان، پیر آف پگاڑا اور سندھ کے چند ایک اینٹی پیپلزپارٹی جاگیردار، مینگل خاندان اور انہی کی طرح دوسری مختلف جماعتوں میں کئی دوسرے بلوچ سردار۔ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں ان پانچ سات افراد یا گھرانوں میں اسیر ہیں۔ جماعت اسلامی میں موروثیت نہیں، مگر سیاسی طور پر یہ کمزور ہوچکی۔ ایم کیو ایم میں الطاف حسین کے بعد کوئی فرد یا گھرانہ قابض نہیں، مگر ابھی یہ ٹرانزیشن کے عمل میں ہے اور اس کے پیچھے اصل قوت مہاجر شناخت کا نعرہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ سسٹم چلتا رہے تب بھی یہ خاندان اپنی جماعتوں پر گرفت کیوں کمزور کریں گے؟ میاں نواز شریف سے سیاسی ورثہ مریم نواز، شہباز شریف سے حمزہ شہباز، چودھری پرویز الٰہی سے مونس الٰہی، مولانا فضل الرحمن سے ان کے صاحبزادے اسعدالرحمن، آصف زرداری سے بلاول بھٹو زرداری یا آصفہ بھٹو زرداری، اسفند یار ولی سے ایمل ولی اور اسی طرح دیگر جگہوں پر اگلی نسل تک منتقل ہوجائے گا۔ عمران خان کے بچے پاکستانی نہیں بلکہ اصلاً انگریز ہیں، انہیں پاکستانی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں، اس لئے عمران خان کا ورثہ انہی کے ساتھ چلا جائے گا، ویسے امکان تو یہ ہے کہ خان صاحب اپنی زندگی ہی میں اس سیاسی اثاثے کابخوبی احسن طریقے سے خاتمہ کر ڈالیں گے۔ اگر سیاسی نظام میں اصلاحات نہ لائی گئیں تو اگلے پچیس تیس برسوں بعد مریم نواز سے جنید صفدر، مونس الٰہی سے ان کے بچوں، بلاول یا آصفہ کی اگلی نسل میں چلا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جو سیاستدان جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگائے نہیں تھکتے، انہوں نے اپنی جماعتوں میں کتنی جمہوریت نافذ کی ہے؟ اے این پی جو باچا خان، ولی کے ورثے کی امین ہے، وہاں کئی ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے پارٹی اور نظریے کے لئے بہت قربانیاں دیں، بلور فیملی سے میاں افتخار حسین تک کتنے نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ ان تجربہ کار، آزمودہ لوگوں میں سے کسی کو پارٹی کی قیادت کیوں نہیں سونپی جا سکتی؟ یہی سوال پیپلزپارٹی، ق لیگ، مسلم لیگ ن سے کیا جا سکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق قربانیوں، جدوجہد اور سیاسی تجربے میں حمزہ شہباز سے کئی گنا زیادہ ہونے کے باوجود اس قابل نہیں سمجھے گئے کہ انہیں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف منتخب کیا جاتا۔
سیاسی عمل چاہے جتنے برس چلتا رہے، جمہوریت کا راگ الاپنے والے یہ سیاستدان کبھی اپنی پارٹی کے کسی لیڈر کو آگے نہیں آنے دیں گے۔ اس کے لئے باقاعدہ قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔ دو بار سے زیادہ کوئی پارٹی کا عہدے دار نامزد نہ ہوسکے۔ پارٹی قیادت میں موروثیت پر پابندی ہو۔ اس کا آسان طریقہ ہے کہ سیاسی بلوغت یعنی الیکشن لڑنے کی عمر پچیس سال ہوجانے کے بعد کم از کم بیس سال کی پارٹی جدوجہد کی شرط رکھی جائے۔ اس کے بغیر وہ پارٹی کا کوئی مرکزی عہدہ نہ سنبھال سکے۔ جو سیاسی شہزادہ یا شہزادی بیس سال کی کٹھنائی برداشت کر لے، تب اس کا حق فائق ہے۔
ایک سوال یہ ہے کہ سیاست سے نظریاتی کارکن کو جس طرح بے دخل اور غیر متعلق کر دیا گیا ہے، اسے کیسے واپس لایا جائے؟ اس کے لئے ہر حال میں الیکشن کو سستا کرنا پڑے گا۔ قوانین کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے اخراجات کی حد مقرر ہے۔ ہوتا اس کے ا لٹ ہے۔ بیس پچیس لاکھ کی حد تو ابتدائی تین چار دنوں میں عبور کر لی جاتی ہے۔ صوبائی، قومی اسمبلی کے الیکشن میں دس پندرہ کروڑ اور کسی سخت مقابلے میں بیس پچیس کروڑ کا خرچہ عام بات ہے۔ اچھا بھلا کروڑ پتی بھی یہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ سیاسی کارکن اسی لئے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور مختلف مافیاز کے نمائندے آگے آ چکے ہیں، وہ کروڑوں روپے خرچ کر کے پارٹی ٹکٹ لیتے ہیں، مزید کروڑوں خرچ کر ممبر اسمبلی بنتے ہیں اور کارکنوں کے مقدر میں صرف دھکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین یہ اصلاحات کیوں نہیں کرتے؟
پارٹی فنڈنگ کے حوالے سے قوانین کو واضح اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہر بڑی سیاسی جماعت میں ٹکٹ دیتے وقت پارٹی فنڈنگ کے نام پر کروڑوں روپے لے لئے جاتے ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ بہت بار یہ فنڈ پارٹی لیڈر کی ذاتی جیب میں جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کوملنے والے تمام فنڈز ٹرانسپرنٹ ہونے چاہئیں۔ ہمارے ہاں اتنی بڑی بلیک اکانومی موجود ہے کہ بہت سے گھپلوں کا علم ہی نہیں ہوپاتا۔ گفٹ کے نام پر اکثر پارٹی لیڈروں کو بڑی بڑی گاڑیاں تحفے میں دی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے جنوبی پنجاب کے ایک حلقے سے ایک صاحب نے معروف سردار کو ہرایا۔ معلوم ہوا کہ ان صاحب نے ٹکٹ لینے کے لئے چار پانچ لینڈ کروزر تحفہ میں دی تھیں۔ اپنے ضلع کے سب سے اہم سیاستدان کو ایک بڑی گاڑی دی، پارٹی لیڈر کے گھرانے کے افراد سے لے کر ٹکٹ دینے والی کمیٹی تک ہر ایک کو نوازا گیا۔ یہ سب چیزیں ختم ہونی چاہئیں، مگراصلاحات کون لائے گا؟ پارٹی قائدین؟ جوخیر سے ان تمام خرابیوں سے براہ راست ثمرات سمیٹتے ہیں؟
میں کسی ایک جماعت پر تنقید نہیں کر رہا، سب کا یہی حال ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت برائے نام ہے، صرف اس کا نام استعمال ہوتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ قوانین اور جمہوری اصولوں کے مطابق پنجابی اسمبلی میں تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کو اپنا لیڈر چننا چاہیے تھا۔ صوبائی پارلیمانی پارٹی کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔ عمران خان نے یہ فیصلہ کیا، جو صوبائی اسمبلی کے ممبر بھی نہیں۔ انہوں نے یہ فیصلہ کس طرح کیا، یہ کوئی نہیں جانتا۔ معلوم نہیں استخارہ کیا، قرعہ اندازی کی یا عین کے حرف سے شروع ہونے والے نام کا انتخاب کیا؟ انہیں کس نے یہ اختیار دیا؟ جمہوری سیٹ اپ میں مرکزی قائد مشورہ تو شائد دے سکے، مگر صوبائی سطح پر فیصلے صوبائی جماعت اور صوبائی پارلیمانی پارٹی میں ہونے چاہئیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور کبھی نہیں ہوگا۔ جب تک سیاسی اصلاحات نہ لائی جائیں، سیاسی جماعتوں اور لیڈروں پر لازمی قرار نہ دیا جائے کہ وہ جمہوریت کو اس کی روح کے مطابق اپنے اور پارٹی پر نافذ کریں۔
اقتدار میں آنے کا حق صرف سیاستدانوں کا ہے، انہیں یہ کام کرنا چاہیے۔ سیاستدانوں کو پھر محاسبہ کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ وہ چونکہ سیاست کے بینی فشری ہیں، اس لئے اصلاحات لانا انہی کا کام ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پیچھے ہٹ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ سیاستدان ہائی مورل گرائونڈ پر رہ کر اچھا پرفارم کریں۔ وہ اپنی ذات اور پارٹی میں جمہوری اصلاحات لے آئیں، کارکن کو سیاسی نظام کا سٹیک ہولڈر بنائیں۔ اگر ایسا کیا تو اسٹیبلشمنٹ ازخود پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجائے گی، سیاسی سپیس بڑھ جائے گی۔ یہ ذمہ داری جب تک سیاستدان نہیں اٹھائیں گے، ان پر تنقید بھی ہوتی رہے گی۔