سب سے پہلے یہ وضاحت کہ میں ذاتی طور پر یکسو ہوں کہ انسانی سماج کو دستیاب نظام میں سے جمہوریت اپنے اندر موجود کچھ خامیوں کے باوجود دوسروں سے بہتر ہے۔ پرامن انتقال اقتدار کا اس سے بہتر اور طریقہ موجود نہیں۔ انسانی شعور نے اسے قبول کر لیا ہے اور ایک طرح سے اس پر اتفاق رائے ہوچکا ہے۔ ہمارے ہاں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنائے جانے کے بعد جمہوریت کا مقدمہ مزید مضبوط ہوگیا ہے۔ آئینی طو رپر ہمارے ملک میں اسلامی شریعت ہی سپریم ہے اور شریعت سے متصادم کوئی قانون منظور نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسی شرط ہے جس کے ذریعے ہم بہت سی قباحتوں سے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے لئے جمہوریت کو رد کرنے کی کوئی معقول دلیل موجود نہیں۔
ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ ہمارے جمہوری سسٹم کے سب سے اہم حصے یعنی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر تنقید آخر کیوں کی جاتی ہے؟ کیا اس کا مقصد جمہوریت کو ہدف پہنچانا ہے؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ کسی خاص ایجنڈے کے تحت ایسا کرتے ہوں، مگر مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں یا سیاستدانوں کے طرزعمل پر تنقید اپنے اندر وزن رکھتی ہے۔ جو سوالات اٹھائے جاتے ہیں وہ بنیادی نوعیت کے ہیں۔ ان پر غورکرنا چاہیے۔ جمہوریت دشمنی یاآمریت کی حمایت کہہ کر رد کرنا بذات خود ظلم اور ناانصافی ہے۔
اگلے روز ہمارے ایک محترم قلم کار دوست نے اپنے کالم میں اسی ایشو پر لکھا۔ انہوں نے تحریر کا عنوان ہی جمہوریت دشمنی رکھا۔ اپنے کالم میں انہوں نے تین چار نکات اٹھائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انتہا پسند مذہبی ہوں یا لبرل، جمہوریت کی دشمنی میں یک زباں ہیں۔ آج دونوں ایک ہی مقدمہ پیش کر رہے ہیں، یہ انتہا پسند جمہوریت پر وار کرنے کے بجائے سیاستدانوں کو اپنی زبان یا قلم کی نوک پر رکھ لیتے ہیں، ان کی داستان گوئی سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سیاستدان برے ہیں پس ثابت ہوا کہ جمہوریت بری ہے۔
ان کی اس بات کا جواب بڑا آسان ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ سیاستدانوں پر اس لئے زیادہ تنقید ہوتی ہے کہ وہ عوام سے وعدے کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور بعد میں ان کی کارکردگی کو جانچنا آسان ہوتا ہے۔ جس سیاستدان کی کارکردگی اچھی نہیں، اس پر لازمی تنقید ہوگی۔ یاد رہے کہ اس تنقید کا سب سے زیادہ حصہ اقتدار سے متعلق ہے۔ اسی لئے تمام زندگی اپوزیشن میں رہنے والے سیاستدانوں پر نسبتاً کم تنقید ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ تنقید صرف سول حکمرانوں پر ہوتی ہے، ہمارے جن فوجی سربراہوں نے اقتدار سنبھالا، ان پر دوران حکومت اور بعد میں بے پناہ تنقید ہوتی رہی ہے۔ بھٹو صاحب، جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، عمران خان کے خلاف جتنی تنقید شائع ہوئی یا گفتگو ہوئی اس سے کہیں زیادہ ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف پر ہوتی رہی ہے۔ ضیا اور مشرف کے خلاف تو ٹنوں مواد نکل آئے گا۔ یحییٰ خان تو خیر متفقہ طور پر مردود قرار پا چکا۔ ایوب خان کے دور میں بعض اچھے کام بھی ہوئے، مگر ایوب خان کے خلاف مجموعی تاثر منفی ہے۔ جنرل ضیا اورجنرل مشرف کا نام تو گالی کے مترادف بن چکا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض کرتا چلوں کہ خاکسار بھی پاکستان کے ڈکٹیٹروں کے بارے میں منفی رائے رکھتا ہے جبکہ ضیا اور مشرف کو بدترین حکمرانوں میں تصور کرتا ہوں۔ نکتہ یہ بیان کرنا تھا کہ تنقید صرف سیاستدانوں پر نہیں ہوتی بلکہ ہر حکمران اس کا نشانہ بنتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا نہ سمجھیں، پھر بھی اسے یکسر مسترد نہ کریں۔ کچھ ہوتا ہے، تب ہی تنقید کی جاتی ہے۔ یحییٰ خان عیاش تھے تو ان کے ویسے قصے ہی سامنے آئے۔ ایوب خان کے صاحبزادے نے گل کھلائے، ان کی وجہ سے ڈکٹیٹر کے ساتھ اقرباپروری کا الزام نتھی ہوا۔ ضیا دور میں ان کی اولاد منظر سے باہر رہی، الزام بھی نہیں لگا۔ جنرل ضیاخواتین کے حوالے سے محتاط آدمی تھے، ذاتی طور پر منکسر مزاج اور خلیق شخص تھے، یہ سب باتیں ایسے ہی رپورٹ ہوئیں۔ جنرل ضیا کے ساتھیوں میں سے بعض پر منشیات کی سمگلنگ کے الزام لگائے، کلاشن کوف کلچرپھیلا، افغان مہاجرین کو کنٹرول نہیں کیا گیا، فرقہ واریت کا جن بوتل سے باہر آیا، برادری ازم اور لسانیت کا فروغ ہوا، ان سب پر بے تہاشا لکھا گیا۔ پرویز مشرف کی اخلاقی حالت بہت بری تھی، مالی بے اعتدالیاں بھی ہوئیں، ان سب حوالوں سے بہت کچھ کہا، لکھا موجود ہے۔ ضیا کی انڈیا پالیسی بہتر رہی، کرکٹ ڈپلومیسی کو اس نے اچھے طریقے سے استعمال کیا، اٹیم بم بنانے کاکام کیا، ان کا اعتراف مخالف بھی کرتے ہیں۔ مشرف دور میں لال مسجد آپریشن، اکبر بگٹی کے خلاف کارروائی سے لے کر سابق کشمیری جہادی تنظیموں کو مس ہینڈل کرنا اور ایم کیو ایم کی فسطائی سیاست کو کھلی چھوٹ دینے کے جرائم ہوئے، انہی پر تنقید ہوتی ہے۔
تنقید کبھی ناروا بھی ہوجاتی ہے، مخالف جماعتیں اپنے مقصد کی خاطر بے بنیاد پروپیگنڈا بھی کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر مگر وہی باتیں زندہ رہتی ہیں جن میں حقیقت کا عنصر کسی نہ کسی حد تک ہو۔ چاہے وہ ثابت نہ ہوسکیں، مگران کی تصدیق کرنے والے عینی شاہدین موجود ہوں۔ بھٹو صاحب پر مالی بدعنوانی کے الزامات غلط تھے، جلددم توڑ گئے۔ پینے پلانے کی باتیں ہوتی تھیں، وہ انہوں نے خود ہی ایک جلسے میں مان لیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں اپوزیشن، پریس اور اپنی ہی جماعت کے ناپسندیدہ لوگوں کو جس فسطائی انداز میں نشانہ بنایا گیا، وہ جبر کے باوجود سامنے آیا۔ جونیجو صاحب بنیادی طور پر شریف اور ایماندار آدمی تھے، ان کے بارے میں اخلاقی، مالی سکینڈل نہیں بنائے گئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف صاحب کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ اور الزامات بہت لگائے گئے۔ خود میاں صاحب کی زیرسرپرستی بی بی کے خلاف ذاتی الزامات کی گھٹیا مہم چلائی گئی، بیگم نصرت بھٹو کی جعلی تصاویر کے پمفلٹ بانٹے گئے۔ وقت نے وہ سب غلط ثابت کر دئیے، رہ گیا تو صرف مسٹر ٹین پرسینٹ کا الزام۔ سرے محل سے انکار کیا گیا، مگر بعد میں بھٹو خاندان ہی نے اسے بیچا۔ سوئس کیسز میں جان تھی تو وہ بعد میں پیپلزپارٹی حکومت کے گلے میں کانٹا بن کر پھنسے رہے، حتیٰ کہ اس کا حل ڈھونڈ لیا گیا۔ میاں نواز شریف پر نوے کے عشرے سے جوا لزامات لگتے تھے، لندن کے جن فلیٹوں کے حوالے سے طعنے دئیے جاتے تھے، ہزار تردید کے باوجود پانامہ نے انہیں ثابت کیا۔ میاں صاحب ہوں یا زرداری صاحب ان پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات عدالتوں میں ثابت ہو سکے یا نہیں، اس سے قطع نظر نجی محفلوں میں ان کی اپنی جماعت کے لیڈر اور کارکن ان سے انکار نہیں کرتے۔ ان کے پاس ایک ہی دلیل ہوتی ہے کہ دوسرے بھی تو ایسے ہیں اور سیاست میں رہ کر یہی کرنا پڑتا ہے۔
سیاست کی اسی دلدل میں کئی سیاستدان ہیں جو تاحیات صاف ستھرے رہے، ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اصغر خان، شیرباز مزاری جیسے لوگ ان میں سرفہرست ہیں۔ ولی خان، بزنجو صاحب، نوابزادہ نصراللہ، ملک قاسم سے لے کر مفتی محمود، مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، مولانا نورانی، مولانا عبدالستار نیازی اور ان جیسے کئی لوگ ہیں جو آخر وقت تک دھلے دھلائے رہے۔ میاں اظہر ان کے قد کاٹھ کے نہ سہی، ان پرکوئی اور تنقید ہوسکتی ہے، مگر کرپشن کا الزام کسی نے نہیں لگایا۔ چودھریوں کا ایسا دفاع کوئی نہیں کرتا۔ جماعت اسلامی کے پچھلے تینوں قائدین کو دیکھ لیں۔ قاضی حسین احمد، سیدمنور حسن اور اب موجودہ امیر سراج الحق، ان میں سے کسی پرکرپشن کا جھوٹا مقدمہ بھی نہیں لگایا جا سکا۔ جھوٹ بولنے کے لئے کون سی دلیل چاہیے ہوتی ہے؟ سراج الحق دو بار صوبائی وزیر رہے اور تحریک انصاف کی حکومت میں صوبائی وزیر خزانہ جیسی اہم سیٹ ان کے پاس تھی۔ کیا وجہ ہے کہ کوئی بدبخت اٹھ کر سراج الحق پر بے بنیاد الزام نہیں لگا پاتا؟ عمران خان پر ہر قسم کا الزام لگ سکتا ہے، اس کی سابق بیوی نے جی بھر کر کیچڑ اچھالا، کسی کو یہ ہمت کیوں نہیں ہوتی کہ پیسے پکڑنے کا الزام لگا دے؟ سچے الزام کی نہیں جھوٹے الزام کی بات کر رہا ہوں۔ کوئی دریدہ دہن پریس کانفرنس کر کے کہے کہ خان صاحب نے مجھ سے اتنے لاکھ یا کروڑ روپے ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے یا پیسے لے کر فلاں کام نہیں کیا، فلاں دن میں نے نوٹوں کا بریف کیس ان کے گھر پہنچایا وغیرہ وغیرہ۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا؟
جواب یہ ہے کہ دھواں وہاں سے اٹھتا ہے، جہاں آگ ہو یا کم از کم چنگاریاں ہی سلگ رہی ہوں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ گیلی لکڑیوں سے دھواں اٹھنا شروع ہوجائے۔ درست کہ بعض لوگ اتنے بدنام ہوجاتے ہیں کہ کچھ ناکردہ جرائم بھی ان سے جڑ جاتے ہیں۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ ہماری سیاست میں صرف ان سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگتے ہیں جو اس میں ملوث ہوں یا ان کا اس طرف رجحان ہو۔ جھوٹا الزام زیادہ دیر نہیں چلتا، لوگ اسے رد کر دیتے ہیں۔ سیاستدانوں کو اس لئے برا نہیں کہا جاتا کہ جمہوریت کو برا ثابت کیا جائے بلکہ اس لئے کہ بدقسمتی سے وہ سیاستدان برا طرز عمل اپناتے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ لے کر وہ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوشش کامیاب نہیں ہوپاتی۔ ہمارے اہل دانش کو یہ بات سمجھنی چاہیے اور ان کے دفاع کا حصہ تو بالکل نہیں بننا چاہیے۔