مرزا صاحب کئی برسوں سے میرے فیس بک فرینڈ ہیں۔ مرزا صاحب نے اگلے روز ایک تحریر میرے ساتھ شیئر کی۔ ان کے بقول یہ ایک قریبی دوست کی سچی روداد ہے، جسے اس نے ایک ناقابل فراموش تجربے سے گزرنے کے بعد رقم کی۔ تحریرزیادہ طویل نہیں تھی۔ اپنی زندگی کی کہانی لکھنے والے صاحب کا فرضی نام شاہد تصور کر لیں۔ اس تحریر کا خلاصہ یا تلخیص پیش کرنے لگا ہوں۔
شاہد صاحب لکھتے ہیں، " میں کراچی کا رہنے والا ہوں، ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنل۔ لوئر مڈل کلا س خاندان سے تعلق ہے، والد اوسط درجے کی ملازمت کرتے تھے، زندگی بھر موٹرسائیکل پر سفر کیا، کبھی گاڑی نہیں خرید پائے، گھر بھی کرایے کا تھا۔ پڑھائی میں ہوشیار تھا، اچھے نمبر لینے کی وجہ سے شہر کے بہترین تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا رہا۔ اپنے پسندیدہ مضمون میں اچھی پروفیشنل ڈگری لی۔ خوش قسمتی سے بغیر کسی سفارش کے میرٹ پر جلد اچھی ملازمت مل گئی۔ پہلے ایک نیشنل پھر ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی۔ بڑی کمپنی تھی، محنت سے کام کرنے پر ترقی ملتی گئی اور ساتھ ذمہ داریاں بھی بڑھتی گئیں۔ ایک پسند کی جگہ پر سیمی ارینج سی شادی ہوگئی۔ بیوی اچھی تھی، اس نے ہمیشہ سپورٹ کیا اور کبھی ناجائز تقاضا نہیں کیا۔ اللہ نے دو بچے بھی دے دئیے۔
" زندگی کا سفرآگے بڑھتا گیا۔ ملازمت اچھی چل رہی تھی، سہولتیں حاصل تھیں۔ محنت کرنے کی عادت تھی، ملازمت کے ساتھ ساتھ ایک دوست کے ساتھ مل کر چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ کاروبار بھی چل نکلا۔ پہلے چھوٹی گاڑی لی، پھربنک سے لیز لے کر اچھی والی بڑی گاڑی لے لی، جس میں بیٹھ کر اپنا آپ بھی پراعتماد لگتا، تفاخر محسوس ہوتا۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے گھروالوں کے لئے وقت کم نکل پاتا، مگر اپنی طرف سے انہیں کوالٹی ٹائم دینے کی کوشش کرتا رہتا۔ ہفتے میں ایک دو بار بیوی بچوں کو اچھے ریستوران میں کھانے کے لئے لے جانا، مہینے میں ایک آدھ بار رات کو کسی بڑے مال یا تفریحی سنٹر لے جا کر بچوں کو خوب کھیلنے کا موقعہ دینا۔ گھر کے ساتھ ہی پارک ہے، وہاں وہ ویک اینڈ پر اپنی ماں یا دادا کے ساتھ چلے جاتے۔ گھر کا ماحول خوشگوار تھا، یوں لگتا جیسے ارضی جنت میں زندگی گزار رہا ہوں۔
" ایک چیز البتہ محسوس کرنے لگا کہ میرے معمولات بہت سخت ہوچکے ہیں۔ صبح اٹھ کر ناشتہ کر کے آٹھ بجے گھر سے نکلتا تو رات کونو دس بجے سے پہلے واپسی نہ ہوپاتی۔ بارہ چودہ گھنٹے کام کرنے سے اتنی زیادہ تھکن ہوجاتی کہ آتے ہی ڈھیر ہوجاتا۔ جنک فوڈ کی بھی عادت پڑ گئی۔ کام کے دوران اکثر بریانی منگوا لیتا یا پھر برگر وغیرہ سے کام چلاتا۔ باقاعدہ کھانا کھانے جانے میں وقت ضائع ہونے کا خدشہ رہتا۔ گھر سے ٹفن لے کر آنا مجھے پسند نہیں تھا۔ رات کو بھی اکثر کلائنٹس وغیرہ کے پاس آنے جانے میں کھانے کا وقت ہوتا توباہر کہیں سے فاسٹ فوڈ ٹائپ کھا لیتا۔ کام کی سٹریس بڑھنے لگی تو ایک دوست کے مشورے پر ریلیکس ہونے کے لئے موبائل فون پر ہلکے پھلکے کامیڈی شوز دیکھ لیتا۔ پاکستانی اور پڑوسی ملک کے انٹرٹینمنٹ شوز کے مختصر کلپ یوٹیوب پر مل جاتے ہیں، انہیں دیکھنے سے تھکن اتر جاتی۔
" زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی، ایک دوست کے بقول میری زندگی کی گاڑی ٹاپو ٹاپ دوڑ رہی تھی۔ ایک دن اچانک دفتر سے اٹھتے ہوئے میری چھاتی میں شدید درد اٹھا۔ کچھ عرصے سے ایسا ہو رہا تھا، مگر ہر بار نظرانداز کر دیتا، کبھی کوئی پین کِلر کھا لیتا۔ ڈاکٹر کو دکھانے کا خیال تو آتا، مگر اتنا وقت نہیں تھا۔ زندگی کا پہیہ اتنی تیز رفتار سے چل رہا تھاکہ کہیں چند لمحوں کے لئے سستانے کا وقت بھی نہیں تھا۔ خیر اس دن درد اتنا شدید تھا کہ ہوش ہی اڑ گئے۔ کولیگز ہسپتال لے گئے، دوسٹنٹ ڈالے گئے۔
" زندگی میں اب ایک اہم موڑ آیا۔ ایک ہارٹ سپیشلسٹ کے پاس مہینے میں دو باردکھانے کے لئے جانے لگا۔ وہاں پر ایک روز عجیب بات ہوئی۔ ایک دن کسی وجہ سے ڈاکٹر نہیں تھے تو کچھ انتظار کرنا پڑا۔ ایک بزرگ سے صاحب ساتھ بیٹھے تھے، ان کے ساتھ گپ شپ ہونے لگی۔ انہوں نے پوچھا کہ اتنی عمر تو نہیں ہے، پھر یہ سٹنٹ کی نوبت کیوں آئی۔ انہیں تفصیل سنا ئی۔ دھیمے انداز میں بڑی نستعلیق اردو بولنے والے شخص تھے۔ خاموشی سے سنتے رہے، پھر بولے اب زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ انہیں بتایا کہ کھانے پینے کی عادتیں بدل رہا ہوں، واک کی عادت ڈال دی ہے۔ امید ہے کہ ان شااللہ اب سب ٹھیک رہے گا۔ وہ صاحب مسکرا کر سنتے رہے، پھر اچانک ایک ایسا جملہ کہا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ کہنے لگے، " باقی تو سب ٹھیک ہے، مگر اس سب میں خدا کہاں ہے؟ آپ کے اس پورے شیڈول میں خدا ہی مسنگ ہے، آپ کی ترجیحی فہرست میں کیا اس خالق کی کوئی جگہ نہیں، جس نے آپ پر بے پناہ رحمتیں نازل کیں؟ آج رات سوچئے گا کہ کہیں یہ سٹنٹ ڈالنے والا واقعہ آپ کو جھنجھوڑنے کے لئے تو نہیں ہوا؟ آپ کی ڈی ٹریک لائف کو ٹریک پر لانے کی کوشش؟ "
شاہد صاحب لکھتے ہیں:" اس ایک منٹ نے میری زندگی کا رخ بدل دیا۔ رات کو میں دیر تک سوچتا رہا، پھر اٹھ کر کاغذ قلم اٹھایا اور اپنے معمولات کی فہرست بنائی۔ معلوم ہوا کہ ہر ایک کے لئے وقت تھا مگراپنے رب کی عبادت کے لئے، اس کا شکر ادا کرنے کے لئے ایک منٹ بھی نہیں۔ اگلے روز سے زندگی کے پیٹرن میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کی۔ دن بھر میں صر ف ایک گھنٹہ اس تخمینے یا ایسسمنٹ کے لئے وقف کر دیا کہ آج خدا کے لئے کیا کرنا ہے؟ آدھا گھنٹہ صبح، آدھا گھنٹہ رات کوسونے سے پہلے۔ صبح میں صرف تیس منٹ بیٹھ کر یہ پلان بناتا ہوں کہ دن بھر کے معمولات کیا ہوں گے؟ وہی سب مصروفیت ہے، وہی اچھی صحت مند عادتوں پر کاربند ہونے کی کوشش، مگراب محور بدل گیا ہے۔ اب اپنے معمولات بناتا ہوں کہ کون سی میٹنگ نماز ظہر کے بعد رکھنی ہے، فیلڈ میں نکلا تو عصر کہاں پڑھوں گا، مغرب اور عشا کہاں؟ صبح نماز پڑھنے کے بعد صرف دس پندرہ منٹ کے لئے تلاوت قرآن کرلیتا ہوں، دس منٹ تلاوت اور صرف پانچ منٹ کے لئے چند آیات کا ترجمہ۔ سو روپے کی ایک چھوٹی انگوٹھی نما تسبیح ملتی ہے، وہ چار پانچ لے آیا ہوں۔ گھر سے دفتر پندرہ بیس منٹ کا سفر ہے، اس میں پہلے کی طرح گانے سننے کے بجائے چار پانچ تسبیحات پڑھ لیتا ہوں۔ وہ کلمات جو آپ ﷺ کے مبارک قول کے مطابق مختصر مگر عمل میں وزنی ہیں، ان کے ساتھ استغفراللہ اور درود پاک۔ یہی معمول واپسی پر ہوتا ہے۔ دفتر کام کے دوران بھی جب خیال آجائے اپنے رب کا نام پیار سے لے لیا، دل کی کلی مہک اٹھتی ہے۔ رات کو روزانہ آدھا گھنٹا باقاعدہ کاغذ قلم لے کر حساب کرتا ہوں کہ آج کون سا اچھا نیک کام ہوا؟ ایک دن نتیجہ مایوس کن نکلے تو اگلے دن خود بخودکارگزاری بہتر ہوجاتی ہے۔ اپنی گفتگو میں مزید نرمی یہ سوچ کر پیدا کر لی کہ یہ رب کو پسند ہے، اسوہ نبویﷺ ہے۔ دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ تعلق زیادہ بہتر ہوا ہے، ہفتہ میں ایک آدھ بار گھر سے زیادہ کھانا پکوا کر ان کے ساتھ کھاتا ہوں۔ دوستوں، کولیگز کی ضروریات پر نظر رکھنے کی عادت پڑ گئی۔ مشکل میں دیکھا تو خاموشی سے مدد کر دی۔ ایک اصول طے کر لیا کہ اپنی کم از کم دس فیصد آمدنی چیریٹی کرنی ہے، نوے فیصد میں زندگی گزاروں گا۔ پہلے بھی والدین کا خیال رکھتا تھا، مگر اب دانستہ سوچ کر ہفتے میں چند گھنٹے ان کے ساتھ گزارتا ہوں۔ دیر سے گھر آیا تب بھی گرین ٹی والدین کے ساتھ پی لی تاکہ کچھ گپ شپ ہوجائے۔ جب موقعہ ملے والد کے پیر دبا دئیے، والدہ کا سر دبایا، ان کی دعائیں لیں۔ رات کو سونے سے پہلے چند منٹ بچوں کے لئے مختص کر دئیے ہیں۔ انہیں قصص القرآن یا صحابہ کے واقعات میں سے کوئی سنا دیا، روزمرہ کی کوئی دعا یاد کرا دی۔ یہ کمٹمنٹ کی کہ ہر روز کوئی سے دو یا تین رشتے داروں اور دوستوں کو فون کرنا ہے۔ مختصر تین چار منٹ کی سلام دعا اورخیر خیریت۔ رات کو سونے سے پہلے دو نفل شکرانے کی پڑھنے کی عادت ڈالی ہے کہ رب نے آج کا دن خیر خیریت سے گزار دیا۔ یہ بتاتا چلوں کہ اس سب کچھ میں ہرگز زیادہ وقت خرچ نہیں ہوتا۔ یہ احساس البتہ ہوتا ہے کہ اللہ میری ترجیحات میں سرفہرست ہے، اس کے ساتھ جڑا ہوا ہوں، دنیا کی بھاگ دوڑ میں اپنے خالق کو فراموش نہیں کیا۔"
صاحبو اپنے فیس بک فرینڈ کی شیئر کردہ اس روداد میں خاکسار نے معمولی سی تبدیلیاں ہی کیں۔ بیان ان کا ہے، انداز تحریر البتہ میں نے اپنے حساب سے بدلا ہے تاکہ روانی رہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد سخت شرمندگی ہوئی اور اپنے محاسبہ کا شدت سے خیال آیا۔ زندگی کے تیز رفتار سفر میں میرے جیسے لوگ تنکے کی طرح بہے چلے جا رہے ہیں۔ کیا خبر ہمارے حصے میں کوئی وارننگ بھی ہے یا ایسے ہی اچانک کہانی ختم ہوجائے گی۔ خوش نصیب ہیں وہ جنہوں نے اپنی زندگی کی ترجیحات درست کر لیں۔ اپنے رب کو اول ترجیح بنا لیا۔ ان کی یقینا دنیا بھی سنور گئی، آخرت بھی۔