پیر کی صبح سوشل میڈیا پر نظر دوڑائی تو فیس بک پر کئی پوسٹیں شوگر کی بیماری کے حوالے سے نظر آئیں۔ معلوم ہوا کہ چودہ نومبر اس بیماری کا عالمی دن کے طور پرلیا جاتا ہے۔ یہ بیماری دراصل ڈایابیٹیز Diabetes ہے جسے اردو میں ذیابیطس کہاجاتا ہے، عام اصطلاح میں البتہ یہ شوگر کی بیماری کہلاتی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے خاکسار اس کا مریض ہے، ہائی بلڈ پریشر نے دس بارہ سال پہلے دوستی بنا لی تھی، چارپانچ برس قبل شوگر کا مرض بھی لاحق ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر دونوں بہنیں ہیں، مگر ایسی جنہیں بیک وقت اپنے نکاح میں لایا جا سکتا ہے بلکہ ان دونوں میں سے کوئی ایک پاس آ جائے تو دوسری بھی زیادہ دور نہیں رہ پاتی۔ عالمی دن کی مناسبت سے آج شوگر پر بات کرلیتے ہیں۔ ویسے بھی کئی مغالطے، غلط فہمیاں اور مسائل اس کی وجہ سے پھیلے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ بیشتر کیسز میں شوگر یا ذیابیطس دراصل آپ کی عرصہ دراز کی غلطیوں اور خراب لائف سٹائل کا نتیجہ ہوتی ہے، اس لئے یہ مرض ایک بار ہوجانے کے بعد یوں آسانی سے نہیں چلا جاتا۔ آپ کو اپنی بقیہ عمر عام طور سے اس مرض کے ساتھ ہی گزارنا پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کچھ مستثنیات موجود ہیں، میں عمومی بات کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات شوگر کنٹرول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
شوگر دراصل جسم کے ایک عضو پنکریاز یا لبلبہ کی خرابی کا نتیجہ ہے۔ لبلبہ کا کام جسم میں انسولین پیدا کرنا ہے۔ ہم جب کوئی میٹھی چیز کھائیں جیسے مٹھائی وغیرہ یا کوئی مرغن چیز یا کولڈ ڈرنک، ڈبے والا جوس وغیرہ، تو خون میں شوگر کی مقدار تیزی سے بڑھتی ہے۔ لبلبہ سے پیداہونے والی انسولین جسم میں بلڈ شوگر کی مقدار بڑھنے نہیں دیتی۔ جب لبلبہ اپنا کام ٹھیک سے نہ کرے تو انسولین پیدا نہیں ہوتی یا کم پیدا ہوتی ہے توخون میں شوگر ہائی ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات انسولین پیدا ہوتی ہے مگر جسم میں کسی وجہ سے اس کے خلاف مزاحمت آتی ہے، یوں شوگر کنٹرول نہیں ہوپاتی۔ عام طور سے لبلبہ کی خرابی ٹھیک نہیں ہوتی اور پھر زندگی بھر مصنوعی انسولین کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے لئے یا تو انجیکشن کی صورت میں انسولین لی جاتی ہے یا ایسی ٹیبلٹ (گولیاں)جومختلف طریقوں سے ہائی بلڈ شوگر کو کم کریں۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ اوپر بتائی گئی باتیں ٹائپ ٹو ذیابیطس کے بارے میں ہیں، عام طور سے لوگوں کو یہی بیماری لاحق ہوتی ہے، البتہ چند فیصد لوگوں کو ٹائپ ون یعنی پیدائشی ذیابیطس بھی ہوتی ہے، اس کا معاملہ الگ ہے۔ ہم ٹائپ ٹو ذیابیطس پر بات کررہے ہیں جو عام طور سے چالیس پچاس سال کی عمر میں ہوتی ہے، آج کل تو تیس پینتیس میں بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان میں، محتاط اندازوں کے مطابق تین چار کروڑ سے زیادہ لوگ اس کے مریض ہیں۔ ممکن ہے مریضوں کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہو۔
مجھے جب شوگر تشخیص ہوئی تو دھچکا لگا، مگر حیرت نہیں ہوئی۔ جو غلطیاں میں کر رہا تھا، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ 2010 میں نائیجئریااور مصر گیا تھا۔ نائیجیریا کی مختلف ریاستوں میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے فری آئی کیمپس لگائے تھے، ان میں پیما (PIMA)سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔ ممتاز آئی سرجن پروفیسر ڈاکٹر انتظار بٹ وفد کے سربراہ تھے۔ بٹ صاحب کے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا اور خاصا کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔ اس سفر میں مجھے محسوس ہوا کہ شوگر کی کچھ علامات ظاہر ہو رہی ہیں، باربارپیاس لگنا، ضرورت سے زیادہ پیشاب آنا، تھکن ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔ واپس آ کر فاسٹنگ شوگر ٹیسٹ کرایا، شوگرتھوڑی سی بڑھی ہوئی، مگر نارمل رینج میں تھی۔ اس وقت سنبھل جاتا تو ممکن ہے شوگر کو چند برسوں کے لئے پیچھے دھکیل دیتا۔ ہم اپنی وضع پر قائم رہے۔ وہی منتشر اوقات، بے وقت کھانا پینا، نیند کی کمی اور ورزش کا فقدان، تنائو والی زندگی۔ نتیجہ سامنے ہے۔
شوگر کی بنیادی وجوہات میں وزن زیادہ ہونا، ٹینشن والی زندگی، خراب لائف سٹائل اور موروثیت شامل ہے۔ اگر والدین میں سے کسی کو یا دونوں کو شوگر رہی تھی تو بچوں کو شوگر ہونے کے امکانات پچاس فیصد تک ہوجاتے ہیں۔ اگر فیملی میں یہ مرض نہیں تو امکانات کچھ فیصد گر جاتے ہیں۔ اس لئے اگر آپ اپنے بچوں کو شوگر، بلڈ پریشراور دل کی بیماریوں سے بچانا چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو صحت مندر کھیں۔ آپ اگر مضبوط، صحت مند اور ان بیماریوں سے اپنی زندگی کا لمبا عرصہ پاک گزاریں گے تو یہ اولاد کے لئے آپ کی طرف سے تحفہ ہوگا۔ لائف سٹائل دوسرا بڑا فیکٹر ہے۔ آپ ابھی تک شوگر سے بچے ہوئے ہیں تو پھریہ نکتہ سمجھ لیں۔ اگر ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ لاحق ہوچکا، مگر ابھی شوگر نہیں تو الرٹ ہوجائیں۔
لائف سٹائل نہیں بدلا تو پھر شوگرکو سر پر منڈلاتا دیکھیں گے، جلد۔ لائف سٹائل بہتر کرنے سے مراد تین چار بنیادی چیزیں کرنا ہے۔ نمبر ایک سادہ غذا کھائیں۔ مرغن، بازاری کھانوں، میٹھے اور کولڈ ڈرنک وغیرہ سے دور رہیں۔ آپ کو زندگی بھر میٹھے سے پرہیز کرنا پڑے، اس سے اچھا ہے کہ اس کی مقدار گھٹا دیں۔ چائے میں چینی نہ لیا کریں، بوتلوں کو اپنے اوپر حرام کر لیں، تلی ہوئی نمکین چیزوں سے دوری کریں وغیرہ۔
درست لائف سٹائل کا دوسرا اصول اچھی نیند لینا ہے۔ اپنے معمولات زندگی کو منظم کریں۔ وقت پر جلدی سو جائیں اور صبح جلد اٹھیں۔ یاد رکھیں کہ رات کو دس بجے سے بارہ بجے کی نیند کے دو گھنٹے عام نیند کے چار گھنٹوں کے برابر سمجھے جاتے ہیں، اس لئے جلد سونے اور مکمل نیند لینے کی عادت ڈالیں۔ نمبر تین: باقاعدگی سے ورزش کریں۔ بہترین اور سادہ طریقہ ہفتے میں پانچ یا چھ دن آدھا گھنٹہ واک کرنا ہے۔ اگر تھوڑی تیز Briskواک کریں تو اور اچھا ہے۔ چوتھا فیکٹر وزن اپنے جسم کے مطابق کرنا ہے، اگر وزن زیادہ ہے تو اسے کم کریں۔ اسی طرح ہر وقت کے بھاگم بھاگ والے ٹینشن زدہ لائف سٹائل کو بھی متوازن کر یں۔ قوی امکانات ہیں کہ آپ شوگر سے بچ جائیں گے۔
اگر آپ کو شوگر ہوگئی ہے تو گھبرانے کی بات نہیں۔ کروڑوں لوگ اس کے مریض ہیں اور اچھی خبر یہ ہے کہ بہت اچھی، موثر دوائیاں بن چکی ہیں جن سے شوگر کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔ بے شمار لوگ بیس، پچیس بلکہ تیس پینتیس سال تک شوگر کی بیماری کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اس مرض کو کنٹرول کر کے اس کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
اگر شوگر ہوچکی ہے تو کسی اچھے فزیشن کو دکھائیں۔ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لئے کسی حکیم یا ہومیوپیتھ کے پاس جانے کا میں مشورہ نہیں دوں گا، اگرچہ بعض لوگوں کو ان سے فائدہ پہنچا ہوگا، مگر اس حوالے سے ایلوپیتھک بہت موثر ہے۔ گلی محلے کے ڈاکٹر بھی کچھ مدد کر سکتے ہیں، لیکن اگر آپ کے پاس تھوڑے سے بھی وسائل ہیں تو کسی اچھے شوگر سپیشلسٹ ڈاکٹر کو دکھائیں۔ وہ آپ کو دوائیاں تجویز کریں گے۔ استعمال کریں اور پھر ابتدا میں ہر پندرہ دنوں کے بعد اور پھر ماہانہ یا شوگرکنٹرول ہوجانے کی صورت میں دو ماہ بعد سہی، مگر فالو اپ چیک اپ ضرور کراتے رہیں۔ شوگر چیک کرنے کا ڈیجیٹل آلہ(Aquachek) گھر میں رکھیں۔ نہار منہ اپنی شوگر چیک کریں، اس کا طریقہ نہایت آسان ہے، سمجھ نہ آئے تو یوٹیوب سے دیکھ لیں۔ یار رکھیں کہ نہار منہ یا فاسٹنگ شوگر کا مطلب ہے کہ دس بارہ گھنٹوں سے کچھ نہ کھایا ہو، پانی پینے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اپنی شوگر ریڈنگ کو نوٹ کریں اور ڈاکٹر کو وزٹ پر یہ دکھائیں۔
ہر تین ماہ کے بعدایک بہت ضروری ٹیسٹ ہے جسے ایچ بی اے ون سی HbA1Cیا عام اصطلاح کے مطابق پچھلے تین ماہ کی شوگر کا ٹیسٹ کہتے ہیں۔ اس ٹیسٹ سے آپ کے ڈاکٹر کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کی شوگر کہاں پر ہے؟ شوگر کے مریضوں کو اپنا کولیسٹرول ٹیسٹ یعنی Lipid Profileبھی لازمی کرانا چاہیے۔ یہ بھی شوگرکے ٹیسٹ کی طرح دس، بارہ، چودہ گھنٹوں کے فاقے کے ساتھ ہوتا ہے، مگر کسی لیب میں کرانا پڑے گا۔ اسکی رپورٹ ڈاکٹرز کو آپ کی جسمانی صورتحال سمجھنے میں مدددے گی، دل کودرپیش خدشات کا بھی اندازہ ہوگا۔
یہ نکتہ ذہن میں رکھیں کہ اگر شوگر کنٹرول نہیں ہورہی تو ڈاکٹر ہی دوائیوں میں ردوبدل کر کے اسے کنٹرول کرنے میں مدد کرے گا۔ ٹوٹکوں سے یہ نہیں سنبھل سکتی۔ سمجھ لیں کہ ہائی شوگر سے بینائی جانے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لئے شوگر کے مریض ہر چھ ماہ بعد یا سال میں لازمی آنکھوں کے ڈاکٹر کو تفصیلی چیک آپ کرائیں، وہ آنکھوں کے پردے پر شوگر کے اثرات چیک کرے گا۔ ہائی شوگر سے گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں، خدانخواستہ ایسا ہوا تو پھر باقی زندگی نہایت تکلیف اور خواری کے ساتھ ڈائیلائسز کرانے میں گزرے گی۔ ہائی شوگر سے دل کی بیماری اور کچھ اور مسائل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہوشیار رہیں، اسے سیریس لیں اور کسی بھی طریقے سے کنٹرول رکھیں۔
شوگر کی بیماری سے میں نے کیا سبق سیکھے اور اسے کنٹرول کرنے کا ایک بہت مختلف طریقہ کیا ہے، اس پر اگلی نشست میں، ان شااللہ۔