Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. 92 News/
    3. Syed Munawar Hassan Kyun Dobara Ameer Na Ban Sakay?

    Syed Munawar Hassan Kyun Dobara Ameer Na Ban Sakay?

    جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن دوسری بار امیر جماعت نہ بن سکے تھے۔ 2014 میں جماعت کے الیکشن میں اراکین نے ان کے بجائے سراج الحق صاحب کوامیر منتخب کر لیا۔ اس الیکشن کے حوالے سے حیدر فاروق مودودی صاحب نے چند سوالات اٹھائے ہیں، ان پر بات کرنا مقصود ہے، مگر پہلے کچھ حیدر فاروق صاحب کی شخصیت کے حوالے سے عرض کرتا چلوں۔

    جناب حیدر فاروق مودودی نامور دینی سکالر اور جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودوی کے صاحبزادے ہیں۔ مولانا مودودی کی اولاد میں سے کچھ جماعت اسلامی کے قریب جبکہ بعض باقاعدہ قسم کے مخالف ہیں۔ حیدر فاروق مودودی جماعت اسلامی کے نہ صرف سخت خلاف ہیں بلکہ جماعت کی تشکیل کو اپنے والد محترم کی بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔ حیدر مودوی صاحب سے میرا ذاتی طور پر بڑا اچھا تعلق رہا۔ ایک زمانے میں اکثر ان کی شام کی محفلوں میں شامل ہوتا تھا۔ حیدر صاحب(شاہ جی)مغرب کے بعد وہ اپنے ڈرائنگ نما بیٹھک میں آ جاتے اور پھر نصف شب تک وہیں رہتے۔ سادہ سا فرنیچر، سائیڈ پر کتابوں کے ڈھیر ہوتے۔ ممتا ز صحافی حمید اختر مرحوم ان محفلوں میں تواتر سے جایا کرتے، سینئر صحافی پرویز حمید اور دیگر کئی لوگ بھی شریک ہوتے، میرے جیسے طالب علم بھی ایک کونے میں جگہ بنا لیتے۔ مولانا کا گھرذیلدار روڈ اچھر ہ میں ہے، جمعیت کا دفتر بھی قریب ہی ہے۔ جماعت اسلامی اوراسلامی جمعیت طلبہ کے حلقوں میں حیدر فاروق صاحب کا تاثر بہت خراب ہے، بہت سی گفتنی ناگفتنی سنائی جاتی ہے، واللہ اعلم بالصواب۔

    حیدر فاروق مودودی صاحب سے درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ میرا ذاتی تاثر بہت اچھا اور خوشگوار ہے۔ ہم نے انہیں بااخلاق، متواضع اور منکسرمزاج پایا۔ ان کی محفل میں دھواں دھار بحثیں ہوتیں، وہ تحمل سے ہر ایک کی بات سنتے۔ حیدر صاحب خود کو سیکولر کہتے ہیں، ان کے ہاں سیکولر سوچ رکھنے والے احباب زیادہ آتے، مگر کسی کے لئے کوئی پابندی نہیں تھی۔ مغرب سے نصف شب تک کوئی بھی، کسی بھی مقصد کے لئے آ سکتا تھا۔ شاہ جی ہر آنے والے کا خوشدلی سے خیر مقدم کرتے۔ ان دنوں لوڈ شیڈنگ بہت تھی۔ بتی جانے پر وہ اٹھتے اور بے تکلفی سے ہاتھ والے پنکھے اٹھالاتے۔ ہر ایک کو پکڑا دیتے، خود بھی اسی گرمی میں سکون سے بیٹھے پنکھا ہلاتے رہتے۔

    ان کی وضع داری اور اخلاق متاثرکن تھا۔ میں اپنے دیرینہ دوست اور ساتھی صحافی کرامت علی بھٹی کے ساتھ وہاں جایاکرتا۔ ہر بار جب ہم اٹھتے تو حیدر فاروق صاحب اٹھ کر بیٹھک سے باہر چھوڑنے آتے۔ باہر آ کر جب تک ہم موٹر سائیکل کک لگا کر رخصت نہ ہوجاتے، وہ واپس کمرے میں نہ جاتے۔ یہ رویہ سب کے لئے تھا۔ ایسی خوش خلقی اور چھوٹوں سے اتنی شفقت کم ہی دیکھنے میں آئی۔ فکری اعتبار سے وہ اپنے والد کے بجائے مولانا ابوالکلام آزاد کے پیروکار اور مداح تھے۔ مولانا مودودی کی کئی علمی آرا پر انہیں تحفظات تھے جبکہ مولانا آزاد کی فکران کے دل سے زیادہ قریب تھی۔ حیدر فاروق صاحب نے ایک دن تفصیل سے بتایا کہ ہم مودودی دراصل چشتیہ سلسلے کے بانی سید قطب مودود چشتی کی نسل میں سے ہیں۔ مولانا ابوالاعلیٰ کے بجائے مولانا ابوالخیر تصوف کی طرف گئے اوراپنے تایاسے یہ سلسلہ مجھے منتقل ہوا۔ دہلی کے نامور جلالی بزرگ مولانا عبدالسلام نیازی مولانا ابوالاعلیٰ اور مولاناابوالخیر کے استاد تھے۔ ابوالخیر مودودی صاحب نیازی صاحب کے مرید بھی تھے۔ حیدر فاروق مودودی خود بھی مولانا عبدالسلام نیازی کے بڑے مداح اور عقیدت مند ہیں۔ ان کی شام کی محفلوں میں آس پاس کے کچھ لوگ صرف تعویز اور دم کرانے آتے، بعض آسیب دور کرانے کے لئے بھی آیا کرتے۔ ان کا ایک اور دلچسپ معمول تھا کہ بدھ کی رات ایک دو بجے کے قریب داتا دربار حاضری دینے جاتے۔ وہاں آنے والوں میں سے کچھ ان کے ساتھ جایا کرتے۔ ایک دو بار میں بھی گیا۔ وہ پہلے داتا دربار جاتے، فاتحہ خوانی کے بعد باہر نکل کر قریبی گلی میں موجود ایک غیر معروف بزرگ طاہر بھیا کے مزار پر حاضری دیتے۔ طاہر بھیا بھی ایک اچھوتا کردار تھے، مگر ان کے بارے میں پھر کبھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ داتا دربار میں داخل ہوتے ہی حیدر فاروق صاحب گویا بے خود ہوجاتے۔ ایک عجب عالم استغراق میں وہ یوں دربار کی طرف کھنچے چلے جاتے جیسے کوئی طاقتور مقناطیس لوہے کے چھوٹے ٹکڑے کو کھینچ رہا ہو۔ اپنے دائیں بائیں سے بالکل بے نیاز۔ فاتحہ خوانی کے بعد جا کر ادھر ادھر دیکھنے کاہوش آتا۔

    حیدر فاروق مودودی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے جو دیکھا، جو محسوس کیا، وہ بلاکم وکاست بیان کر دیا۔ ایک چیز محسوس کی کہ وہ جماعت اسلامی کے حوالے سے شدت کا شکار ہیں۔ وہ اس تاثر سے اتفاق نہیں کریں گے، ان کے پاس بے شمار دلائل موجود ہیں۔ بڑوں سے بحث کرنا میرے مزاج کا حصہ نہیں، ایک آدھ اختلافی سوال کر کے خاموش ہوجاتا۔ یہ تاثر مگر ذہن میں واضح تھا کہ جماعت کے حوالے سے ان کی رائے ضرورت سے زیادہ سخت اور متشددانہ حد تک مخالفانہ ہے۔ حیدر فاروق مودوی صاحب نے اپنے حالیہ اخباری مضمون میں دو تین سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2014 میں امیرجماعت کے انتخابی نتائج تبدیل کئے گئے، دلیل انہوں نے یہ دی کہ سید منورحسن نے اپنی الوداعی تقریر میں اشارہ دیا کہ پانچ ہزار ووٹ غائب ہوئے ہیں جس کی جماعت کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ حیدر فاروق صاحب نے لکھا کہ سراج الحق صاحب کو ان پانچ ہزار ووٹوں کی تحقیق سے پہلے امیر جماعت کا حلف نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔ آگے جا کر انہوں نے خاصا سنگین الزام لگایا کہ الیکشن کے ذمہ دار عبدالحفیظ احمد کے مطابق انہیں الیکشن میں دھاندلی پر آمادہ کرنے کے لئے اسلامک پبلیکیشنز کا مینجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا، مزید لکھا کہ حفیظ صاحب نے الیکشن کا اعلان تو دبائو کے مطابق کر دیا، مگر ذہنی دبائو کے باعث حفیظ احمد صرف ایک ہفتہ زندہ رہ سکے(یہ بات ویسے درست نہیں، ان کا انتقال سوا سال بعد ہوا۔) حفیظ صاحب نے یہ سب کچھ معروف حکیم عبدالوحید سلیمانی صاحب سے بیان کیا تھا، جن کی زبانی یہ واقعہ حیدر صاحب تک پہنچا۔

    صاحبو! خاکسار یا اس کے گھرانے کے کسی فرد کا جماعت اسلامی یا اسلامی جمعیت طلبہ سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں رہا، ایک سکینڈ کے لئے بھی اس کا رکن، ہمدرد، رفیق وغیرہ نہیں رہا۔ میری دلچسپی اس معاملے میں صرف یہ ہے کہ جماعت کے اس الیکشن کے ذمہ دار عبدالحفیظ احمد صاحب سے انہی دنوں میری ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی، جس میں انہوں نے ہر سوال کا وضاحت سے مدلل جواب دیا تھا۔ اس ملاقات کی گواہی میرے اوپر فرض ہے۔ منور صاحب، حفیظ صاحب، سلیمانی صاحب تینوں چلے گئے، ہم نے بھی چلے جانا ہے۔ ہمارے دوست طارق محمود احسن( حجاب النسافیم)کے گھر کھانے کی دعوت میں عبدالحفیظ صاحب بھی آئے تھے۔ دیگر مہمانوں کے جانے کے بعد میں نے حفیظ صاحب سے درخواست کی کہ الیکشن کے حوالے سے چند سوالات کا جواب دیں۔ انہوں نے خوشدلی سے جواب دیا اور الیکشن کا پورا عمل تفصیل سے سمجھایا۔ میں نے سوال کیا کہ پانچ ہزار ووٹ غائب کیسے ہوئے اور کیا الیکشن پر کوئی بیرونی قوت اثرانداز ہوئی؟ اس پر وہ قدرے ناخوش ہوئے، ایک بارپھر پورا عمل بتایا اور کہا کہ یہ فول پروف نظام ہے، جماعت کے اندر یا باہر سے کوئی بھی قوت اس نظام کوتوڑ نہیں سکتی، اسٹیبلشمنٹ بھی چاہے تو ایسا نہیں کر سکتی۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار ووٹ غائب نہیں ہوئے بلکہ دستور کے مطابق ہر رکن جماعت کے گھربیلٹ پیپر بھیجا جاتا ہے، چالیس ہزار میں سے پانچ ہزار کے لگ بھگ یعنی پندرہ فی صد ووٹرز نے وہ بیلٹ پیپر واپس نہیں بھیجا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ اراکین جماعت کا ایک حلقہ ضعیف ہوگیا ہے، کچھ بزرگ خواتین بھی اب ان معاملات میں دلچسپی نہیں لے پاتیں، انہیں ہٹایا اس لئے نہیں جاتا کہ طویل عرصہ انہوں نے جماعت کا ساتھ دیا تو اب بزرگی کی وجہ سے رکنیت ختم کردینا نامناسب لگے گا۔ جماعت کے بہت سے اراکین جماعت بیرون ملک شفٹ ہوچکے ہیں، وہ بھی ظاہر ہے ووٹ نہیں کاسٹ کر سکتے۔ حفیظ صاحب نے بتایا کہ ہر الیکشن میں چند فی صد لوگ ووٹ نہیں ڈالتے، اس بار قدرے زیادہ تعداد تھی، اس کی وجہ بھی عمر ہے، ہر الیکشن میں بزرگ لوگ مزید بوڑھے ہوتے جائیں گے۔ یہ وہ تفصیل ہے جو اس الیکشن سے چند ہفتے بعد عبدالحفیظ صاحب نے مجھے سنائی۔

    حکیم عبدالوحید سلیمانی صاحب سے واقف ہوں، بہت اچھے حکیم اور نجیب آدمی تھے۔ ان کا ایک بیٹا میرا دوست ہے۔ سلیمانی صاحب دروغ گو آدمی نہیں تھے۔ میرا گمان ہے کہ سلیمانی صاحب کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی یا بات کا ابلاغ آگے درست نہیں ہوا۔ عبدالحفیظ صاحب نے ایک نجی محفل میں مجھے جو کچھ بتایا، وہ بیان کر دیا۔ منطقی طور پربھی یہ قابل فہم ہے۔ میرے پڑھنے والوں میں جماعت کا ایک حلقہ ہے، سوشل میڈیا پر بہت سے سابقین جمعیت اور کچھ اراکین جماعت سے تعلق رہا۔ ان دنوں جماعت کے نسبتاً نوجوان العمر لوگ سراج الحق صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔ انہیں سراج صاحب مسیحا لگتے۔ سید منور حسن کے مزاج میں خاص قسم کی تلخی تھی، کچھ متنازع بیانات انہوں نے دئیے تھے، عام انتخابات میں جماعت کو بری طرح شکست ہوئی تھی، پیرانہ سالی کے باعث بھی وہ زیادہ فعال بھی نہیں تھے۔ سراج صاحب کو سید صاحب پر ترجیح دینے میں یہی دوتین فیکٹر کارفرما تھے۔