سوچا تھا کہ غیر جذباتی انداز میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے سوال پر بات کی جائے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہم ہر اہم ایشو پر بات کرتے ہوئے شہنشاہ جذبات کیوں بن جاتے ہیں؟ نہایت جذباتی لب ولہجے میں عجیب وغریب دلائل کے انبار لگا دئیے جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے تاریخ کے پرخچے اڑا نے میں حرج نہیں سمجھتے۔ تاریخی واقعات کی من پسند تعبیرکر دی جاتی ہے۔ ہمیں ان سب سے نکل آنا چاہیے۔ بطور فرد اور بطور قوم اب بالغ ہوجانا چاہیے۔ ایشوز پر سنجیدگی اور متانت سے بات کی جائے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک نقطہ نظر ہے، اس کے حق میں دلائل دئیے جاسکتے ہیں، مگر دلیل دیتے ہوئے تاریخ کے سینے میں خنجر نہ گھونپا جائے، یہ ظلم ہوگا۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کو ابھی تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ یہ میری رائے ہے، مگر میں اس کے مخالف رائے سننے، اس پر غور کرنے کو تیار ہوں۔ شرط یہ ہے کہ یہ مقدمہ دلیل سے پیش کیا جائے۔
گزشتہ کالم (منگل، یکم ستمبر)میں ایک معروف اور سینئر کالم نگار، اینکر کا ذکر کیا کہ ان کے حالیہ کالم میں بعض اہم تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا۔ ( جن قارئین نے وہ کالم نہیں پڑھا، وہ 92نیوز کے آرکائیوز میں پڑھ سکتے ہیں یا میرا فیس بک پیج دیکھ لیں۔ ) اس کالم کے دو اہم نکات پر بات باقی تھی کہ گزشتہ روز انہوں نے اسی موضوع پر ایک بار پھر قلم اٹھایا او ر فصاحت وبلاغت کے دریا بہا ڈالے۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر بعض تاریخی سچائیاں مسخ کی گئیں۔ جذبات کی روانی میں ایسا ہوجاتا ہے۔ ، ایسے میں دلیل اور منطق سے تعلقات کشیدہ رہتے ہیں، سطحی جذباتیت اورٹین ایجر رومانویت غالب آجاتی ہے۔
ان صاحب نے اپنے پچھلے کالم میں لکھاتھا :"ہمارے پاس جب دلیل ختم ہوجاتی ہے تو ہم سفارتی اور سیاسی ایشوز میں بھی اسلام کو ڈال دیتے ہیں اور اگر اسلام فٹ نہ ہو رہا ہوتو ہم اس میں علامہ اقبال اور قائداعظم ڈال کر دوسروں کو خاموش کر دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظم 1947میں اس ملکہ برطانیہ کے دستخطوں سے گورنر جنرل بنے تھے، جس نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا تھا?" جواب دینے سے پہلے تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1947میں ملکہ برطانیہ حکمران نہیں تھی بلکہ اس کے والد کنگ جارج سکس یا ششم ( King George VI)حکمران تھے۔ ملکہ ایلزبتھ دوم تو پانچ سال بعد(فروری 1952) اس مسند پر فائز ہوئی۔ ا س بات کو چیک کرنے میں صرف آدھامنٹ لگنا تھا۔ گوگل پر ایک کلک واضح کر دیتا، مگر جب تحقیق کا مزاج نہ ہو اور جو جی میں آئے لکھ ڈالنے کا وتیرہ بن جائے تب ایسی تاریخی غلطیاں ہوتی ہیں۔ پھر یہ بات یوں کہی گئی ہے جیسے برطانوی بادشاہ نے قائداعظم کونجی ملازمت کا کوئی لیٹر جاری کیا ہو۔ برطانوی شاہ تو برائے نام حکمران ہے، اس غریب کی کیا مجال کہ اسرائیل بنائے یا ہندوستان کو آزاد کرے۔ برطانوی حکومت جو فائل بھیجے گی، وہ اس پر دستخط کر دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں " انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ1947 "منظور ہوا، تاہم رسمی طور پر شاہ برطانیہ کی جانب سے حکم نامہ جاری ہوا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ گورنر جنرل کے حلف میں کنگ جارج سکس سے وفاداری کاحلف لیا جانا تھا، قائداعظم نے اپنے قلم سے حلف نامہ میں یہ جملہ لکھ کر شامل کیا کہ میں پاکستان کے آئین کا وفاداررہوں گا۔ گزٹ نوٹیفکیشن میں قائداعظم کا حلف موجود ہے۔ حلف میں کنگ جارج سکس سے وفاداری کا جملہ رسمی نوعیت کا تھا، مگر قائداعظم نے یہ ضروری سمجھا کہ اس فارمیلیٹی میں بھی واضح کر دیا جائے کہ بطور گورنر جنرل میرے لئے پاکستان کا بننے والا آئین زیادہ اہم ہوگا، برطانوی شاہ جارج سکس نہیں۔ مزے کی بات ہے کہ اپنی تمام تر انقلابیت کے دعوے کے باوجود نہرو نے بھارتی گورنر جنرل مائونٹ بیٹن کے حلف میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کرائی۔
رہی ہمارے ممدوح کالم نگار کی یہ طنزیہ بات کہ اسلام کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں فٹ کر دیتے ہیں تو عرض یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی سفارتی، سیاسی اور قومی پالیسیوں میں اسلامی اصولوں کو ملحوظ کیسے نہ رکھے؟ سیکولر ملک ہوتا تو پھر اس کی پالیسیوں میں مذہبی حوالہ بالکل نہ ملتا۔ اسلام ہماری زندگیوں کا اہم ترین جز ہے، ضابطہ حیات ہے۔ ہماری انفرادی اور قومی اخلاقیات کے سوتے ہمارے مذہب اسلام ہی سے پھوٹتے ہیں۔ اسلام کو کس طرح پاکستان سے کاٹ کر شوپیس کی طرح ڈرائنگ روم کی میز پر سجا دیں؟ ایسا ممکن نہیں صاحب، ورنہ ممکن ہے آپ کی آسودگی کے لئے کر گزرتے۔
چودھری صاحب نے اپنے پچھلے کالم میں یہ طعنہ دیا، " اٹھاون اسلامی ممالک میں سے کسی نے آج تک فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دیا، سوائے ایران کے، ایران بیالیس برسوں سے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔"یہ جملہ ناقابل فہم ہے۔ لبنان اور شام کا فلسطین سے کیا موازنہ؟ کیا ان کے نزدیک لبنان کا بھی فلسطین جیسا کوئی معاملہ ہے؟ وہاں پر کسی نے قبضہ کر رکھا ہے اور لبنانیوں کو لبنان سے نکال باہر کیا ہے؟ شام میں خانہ جنگی ہوئی، شام کے اپنے لوگوں نے بشارالاسد کی سفاک آمرانہ حکومت کے خلاف بغاوت کی جسے بشار کی فوج نے بے رحمی سے کچل ڈالا، لاکھوں شامیوں کی ہلاکت اور کئی ملین شامیوں کی ہجرت کی اصل ذمہ داری شام کے ڈکٹیٹر پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہاں کی بھڑکتی آگ میں دوسرے علاقائی کھلاڑی بھی کود پڑے، معاملہ پیچیدہ ہوگیا مگر اصل مسئلہ شام پر الاسد خاندان کا جبر اور تسلط ہے۔ شام اور لبنان کا فلسطین کے ساتھ ذکر کرنا پرلے درجے کی زیادتی ہے۔ ایران کی تعریف اگر کرنا چاہتے تھے تو اسکے اور کئی طریقے ہوسکتے تھے۔
کالم کے انتہا پر جب مصنف کا جوش وخروش انتہا پر پہنچ گیا تو پاکستانیوں کو کئی طعنے دے ڈالے۔ لکھا:"ہم پاکستانی اگر واقعی فلسطین سے مخلص ہیں تو چلیے پھرہم فلسطین کے لئے جہاد کرتے ہیں، نکلیں بیس کروڑ پاکستانی اپنی گھروں سے اورچل پڑیں اسرائیل کی طرف ?۔"اسی پیرے میں آگے جا کر لکھامجھے اس محبت کی سمجھ نہیں آئی جس میں ہم یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر اسرائیل مردہ باد کی پوسٹ شیئر کرتے ہیں۔"
جو تجویز انہوں نے پیش کی، اس پر کیا گفتگو کی جائے؟ بیس کروڑ پاکستانی گھروں سے نکل کر اسرائیل آزاد کرانے کے لئے نکل کھڑے ہوں ? یہ ہے وہ آئیڈیا جو ہم پاکستانیوں کو عقل سکھانے پر مصر محترم دانشور نے پیش کیا۔ کیا دنیا میں یہی دو انتہائیں موجود ہیں؟ اسرائیل جیسے غاصب ملک کو بغیر فلسطینیوں کے لئے کچھ حاصل کئے، تسلیم کر لیا جائے، اس کا قبضہ جائز مان لیں اور اگر ایسا نہیں کرتے تو پھر بیس کروڑ پاکستانی گھر سے نکلیں اورلیفٹ رائیٹ کرتے فلسطین پہنچ جائیں۔ کیاان دونوں شدتوں کے درمیان کچھ بھی نہیں؟ دنیا میں رہنے اور کام چلانے کا یہی قرینہ ہے؟ ایک پرانا لطیفہ یاد آیا کہ نہر سوئز کے قضیے میں یا اس کے بعد کے کسی عالمی ایشو پر لاہور میں خاکساروں کا ایک گروپ پرجوش انداز میں بیلچہ اٹھائے مال پرچپ راست کر رہا تھا۔ یاد رہے کہ خاکسار لیفٹ رائٹ کی جگہ چپ(بایاں ) راست (دایاں )کے اردو مترادف استعمال کرتے تھے۔ ظہیر کاشمیری یا کسی دوسرے بذلہ سنج نے دیکھا تو پوچھا کہ کیا ارادہ ہے، جوشیلا جواب ملا ہم مشرق وسطیٰ کا رخ کرنا چاہتے ہیں۔ کاشمیری صاحب نے کمال معصومیت سے مشورہ دیا، ایسا کرو بذریعہ بیڈن روڈ چلے جائو، شارٹ کٹ پڑے گا۔ ہمارے ممدوح کالم نگار لاہور والوں کو تو بذریعہ رِنگ روڈ سفر کا مشورہ دے دیں گے، باقی بیس اکیس کروڑ کو کس طرح باہر نکالنا ہے، اس کی تدبیر بھی سجھانی چاہیے۔
یہودیوں کی فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام کا طعنہ بھی پڑھ لیا، مگر کیا ان ایپس سے بھی کسی نے پوچھا ہے کہ وہ خود کو یہودی ایپ کہلانا پسند کریں گی؟ فیس بک، انسٹا کا مالک مارک زکربرگ کو یہودی کہا جاتا ہے، مگر وہ ریفارم جیوش( Reform Jewish) فیملی سے تعلق بتاتے ہیں، ہم محترم چودھری صاحب کو مشورہ دیں گے کہ گوگل یا وکی پیڈیا پر صرف دو لفظ Reform Judaism لکھ کر جو نتیجہ آئے اسے پڑھ لیں۔ سمجھ آ جائے گی کہ مارک زکربرک کس قسم کا یہودی ہے؟ دراصل یہ سب گھسے پٹے پرانے طعنے ہیں، ایسے پامال الفاظ جن کے اصل معنی بھی رگڑ سے مسخ ہوگئے۔ دنیا بھر میں احتجاج کے بہت سے طریقے ہیں، مختلف حکمت عملیاں اپنائی جاتی ہیں۔ کچھ نہ ہو پا رہا ہوتب بھی اپنا اصولی موقف برقرار رکھا جاتا ہے۔ آپ کئی بار ظلم کے سامنے مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں کیا ظالم کا ساتھی بن جایا جائے؟ اگرظالم طاقتور ہے، اس سے لڑ نہیں سکتے تو کیا پھر اس کے قدموں میں گر جایا جائے؟ درمیانی کوئی صورت نہیں؟
افسوس یہ نہیں کہ صاحب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ یہ ایک رائے ہوسکتی ہے، اس پر بات کی جاسکتی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ دانشور اور قلم کار جن کا فرض قوم کی تربیت کرنا، ان میں شعور پیدا کرنا ہے۔ جب وہی حقائق مسخ کریں، تاریخی واقعات کو توڑ موڑ کر پیش کریں، غلط تناظر میں بے معنی جذباتی بھاشن دیں، تب ہمارا زوال کا سفر تیز تر ہوگا۔ قوم مزید کنفیوز ہوگی۔ افسوس کہ قبلہ چودھری صاحب نے یہی کیا۔