کوروناوائرس جس بڑے پیمانے پر خطرناک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے، اسے کنٹرول کرنے کے لئے صرف حکومت یا انتظامیہ کی کوشش کافی نہیں، سماجی تنظیموں اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والوں کو بھی ہاتھ بٹانا ہوگا۔ یہ وقت ایک دوسرے پر تنقید کا نہیں۔ یہ بات البتہ ماننا پڑے گی کہ پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت میں سے سندھ حکومت کی کارکردگی سب سے بہتر رہی۔ ان بحرانی لمحات میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور ان کی ٹیم نے غیرمعمولی فعالیت اور مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ بلوچستان سے آنے والے زائرین کو انہوں نے تیزی سے سنبھالا، سکھر میں بہت بڑا قرنطینہ قائم کیا۔ سندھ کابینہ نے جرات مندانہ اور مشکل فیصلے کئے۔ پی ایس ایل کی پروا نہیں کی، سرعت کے ساتھ بہت سے ایسے شعبے بند کئے جہاں اختلاط خطرناک ہوسکتا تھا۔ اس وقت انٹر سٹیٹرانسپورٹ، ٹرینیں بھی بندہوچکی ہیں۔ سوشل ڈسٹنس(Social Distance) کے حوالے سے جو پابندیاں حکومتی سطح پر ممکن ہیں، وہ لگائی جا رہی ہیں۔ سب سے اہم یہ اعلان ہے کہ بیس لاکھ تک نادار لوگوں کے گھروں میں راشن تقسیم کیا جائے گا۔ اگر یہ کام کر لیا جاتا ہے توسابقہ نااہلی کے داغ دھل جائیں گے۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ روز اپنی گفتگو میں معقول باتیں کیں، وفاقی حکومت پر تنقید سے گریز کرتے ہوئے عام آدمی کی مشکلات کم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ویل ڈن بلاول بھٹو۔ وفاقی حکومت اور پنجاب کی صوبائی حکومت کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے۔ عمران خان کا قوم سے خطاب عمومی طور پر ٹھیک تھا، انہوں نے مثبت باتیں کیں۔ یہ مگر حقیقت ہے کہ وہ عملی طور پر سست رہے۔ ان کی حکومت ایران سے واپس آنے والے زائرین کو بروقت روکنے اور سکریننگ کرانے میں ناکام رہی۔ اسی نااہلی سے کورونا مرض پاکستان میں پھیلا۔ چین میں موجود پاکستانی طلبہ کو واپس نہ لانے کا حکومتی فیصلہ درست تھا۔ اس وقت میرے جیسے لوگوں کا خیال تھا کہ ہمیں اپنے طلبہ کو واپس لانا چاہیے، مگر حکومت کا فیصلہ ٹھیک رہا۔ کاش عمران خان اور ان کی حکومت ایران سے واپس آنے والے زائرین کے حوالے سے بھی درست پالیسی اپناتے۔ تفتان میں قرنطینہ بنانا تو ایک بھیانک، بھونڈے مذاق سے کم نہیں رہا۔ وہاں بالکل ہی سہولتیں موجود نہیں تھیں۔ فراہم کرنے کی کوشش بھی نہیں ہوئی۔ قرنطینہ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کو بیماری ہے تو وہ دوسرے کو نہ لگنے پائے۔ اگر ایک کمرے میں کئی لوگوں کو رکھا جائے تو لامحالہ ایک بیمار سب کو بیمار کر دے گا۔ تفتان کے قرنطینہ میں ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بلوچستان حکومت کی خواہ مخواہ تعریف کی، اس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت کی کارکردگی اوسط سے بھی کم رہی۔ عمران خان کو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ حکومت کی تعریف کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، اس سے ان کا اپنا ہی قد کم ہوا، سندھ حکومت کو کیا فرق پڑے گا۔ عمران خان اگلے روز ڈی جی خان کے قرنطینہ کیمپ گئے۔ یہ خوش آئند ہے۔ اگر عمران خان دس بارہ دن پہلے تفتان کا قرنطینہ کیمپ دیکھنے جاتے تو یقینی طور پر وہاں کی حالت سدھرجانی تھی۔ پنجاب کی صوبائی حکومت اپنے نہایت کمزور سربراہ کے ساتھ ناقص کارکردگی دکھا رہی ہے۔ ڈی جی خان کے قرنطینہ کیمپ میں عثمان بزدار صاحب کو جانا چاہیے تھا۔ افسوس کہ ہمارا وزیراعلیٰ وہ ہے جو کبھی کمانڈنگ پوزیشن میں نظر ہی نہیں آتا۔ اہل پنجاب کے ساتھ عمران خان نے سب سے بڑی دشمنی یہی کی کہ پنجاب کی تاریخ کا کمزور ترین وزیراعلیٰ مسلط کر دیا۔ اللہ پنجاب، پنجابیوں اور ہم سرائیکیوں پر رحم فرمائے کہ سب کو اسی بزدارسے گزارا کرنا ہے۔
کورونا وائرس کے حوالے سے اچھا پہلو یہی ہے کہ اس کا سورس یہاں موجود نہیں۔ ڈینگی وائرس چھونے یا سانس وغیرہ سے منتقل نہیں ہوسکتا، مگر ایک لحاظ سے وہ خطرناک تھا کہ اس کا سورس یعنی ڈینگی مچھر یہیں موجود تھا۔ جب تک ڈینگی مچھر نہ ختم ہو، ڈینگی کا خطرہ ختم نہیں ہوسکتا۔ کورونا وائرس اس کے برعکس صرف ان چند سو یا چند ہزار لوگوں تک محدود ہے، جو چین یا ایران سے یہ وائرس لے کر آئے یا وہ کچھ لوگ جونادانستگی میں وائرس زدہ افراد کے قریب آئے۔ حکومت نے صرف یہ کرنا ہے کہ ان متاثرہ لوگوں کو دو ہفتوں کے لئے سخت حفاظتی انتظامات میں قرنطینہ میں رکھے۔ جس کی حالت زیادہ بگڑے، اسے ہسپتال منتقل کیا جائے، باقی وہیں رہیں۔ دو ہفتوں کے اندر کورونا وائرس کا لائف سرکل ختم ہوجائے گا اور یہ ازخود دم توڑ دے گا۔ اگر ابتدا ہی سے متاثرہ یا مشتبہ لوگوں کو قرنطینہ میں رکھا جاتا تو یہ مرض پھیل ہی نہیں سکتا تھا۔ اب چونکہ چند سو مشتبہ لوگ سکریننگ سے پہلے مختلف طریقوں سے واپس آ کر عوام میں گھل مل چکے ہیں، اس لئے خطرہ موجود ہے۔ اس کا علاج باہر نکلنے، ملنے جلنے سے گریزہے۔ اگر احتیاط برتی گئی تو انشااللہ اگلے دس بارہ دنوں میں اس کا زور ٹوٹنا شروع ہوجائے گا۔ ممتاز صوفی سکالر اور صاحب عرفان بزرگ قبلہ سرفراز شاہ صاحب کی یہی رائے ہے، دیگر روحانی شخصیات بھی کچھ ایسا ہی منظر دیکھ رہی ہیں۔ سب کو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ مارچ کے اواخر میں زور ٹوٹنے لگے گا۔ اللہ ہم سب پرکرم فرمائے، سلامتی سے رکھے، آمین۔
حکومت کوزیادہ سے زیادہ عوامی ریلیف پر توجہ دینی چاہیے۔ سماجی تنظیمیں ان کا ہاتھ بٹا سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی کے لوگوں نے ملک کی سب سے بڑی خدمت خلق والی تنظیم الخدمت قائم کر رکھی ہے، جو ہر مشکل وقت میں سب سے آگے ہوتی ہے۔ الخدمت کے بزرگ مگر جواں ہمت سربراہ عبدالشکور صاحب آج کل بھی بہت فعال اور متحرک ہیں۔ سماجی فاصلہ رکھنا بہت ضروری ہے، مگر لوگ گھر بیٹھ گئے تو کاروبار بھی متاثر ہوں گے۔ ابھی لاک ڈائون نہیں ہوا، مگر حالات ایسے بن گئے کہ بہت سے شعبوں میں کام نہیں ہو رہا۔ یہاں پر کام کرنے والوں کا روز کی آمدنی پر گزارا تھا، وہ پریشان ہوں گے۔ ان کی مدد کرنی چاہیے۔ حکومت کو الخدمت، غزالی سکول، اخوت اور دیگر سماجی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایسا نیٹ ورک بنانا چاہیے کہ اس آفت کے دنوں میں یہ غریب بھوک ہی سے نہ مر جائیں۔ سندھ کی طرح پنجاب حکومت کو بھی دیہاڑی دار افراد کے گھر راشن کے تھیلے پہنچانے چاہئیں۔ انفرادی طور پر بھی ہمیں اپنے دائیں بائیں دیکھنا چاہیے۔ ہر محلے میں صاحب حیثیت لوگ اگر ایسے افراد کی فہرست بنا لیں جن کی دیہاڑی نہیں ہو پا رہی توا نکے لئے راشن یا نقد رقم سے مدد کی جا سکتی ہے۔ اپنے رشتے داروں میں نسبتاً کمزور گھرانوں، جاننے والے سفید پوش لوگوں پر بھی توجہ مرکوز کریں، جسے ضرورت ہو، خاموشی سے اس کی مدد کو پہنچیں۔ رمضان میں بڑے پیمانے پر اہل خیر فعال ہوتے ہیں۔ آج خلق خدا مشکل میں ہے، ان کی مدد کیجئے، یہ سوچ کر کہ رب کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، وہ ممکن ہے ماہ رمضان میں کی گئی خیرات سے بھی زیادہ اجر دے۔
روحانی پہلو کو بھی نظرانداز نہ کیا جائے۔ گھروں پرقیام کے ان دنوں کو رب تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑنے کا بہانہ سمجھیں۔ استغفار کو اپنا معمول بنائیں۔ اپنی گناہوں، غلطیوں، کوتاہیو ں کی معافی طلب کریں، آئندہ کیلئے بہتر پلان بنائیں۔ یا سلامُ کی تسبیح پڑھیں، ہمت ہو تو سب گھر والے بیٹھ کر سوا لاکھ مرتبہ پڑھیں، آیت کریمہ کا ورد بھی نازک لمحات میں توانائی اور تقویت کا باعث بنتا ہے۔ جب آپ اللہ کے آگے سرنڈر کرتے اور غیر مشروط طور پر اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے، رب سے مدد مانگتے ہیں تو دل کو ڈھارس بندھ جاتی ہے۔ تجربہ شرط ہے۔ یہ چند دن تنہائی میں بیٹھ کر اپنی زندگی کا جائزہ لیں، محاسبہ کریں، طرزعمل پر نظرثانی کریں اور ان شااللہ آفت دور ہوجانے کے بعد زیادہ مضبوط، خالص بن کر زندگی میں لوٹیں۔
گھروں میں عرصے بعد اتنا وقت گزارنے والوں کے لئے ایک پہلو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ تعلقات کی تجدید ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، اپنے ماضی کے واقعات شیئر کریں، انہیں نماز پڑھنا سکھائیں، دعائیں یاد کرائیں، ان شااللہ صدقہ جاریہ بنیں گی۔ گھروں میں باجماعت نماز کا اہتمام کریں، یقین کریں بچے مسرور ہو کر شامل ہوں گے۔ اگر کچھ وقت گھر والے اکٹھے بیٹھ کر ذکر ازکار کر سکیں تو بہت اچھا ہے۔ مل بیٹھ کر کتابیں پڑھنے کا بھی بہترین موقعہ ہے۔ سب سے پہلا حق تو قرآن مجید کا ہے۔ اس کا ترجمہ خود بھی پڑھیں اور گھر میں خود ہی درس قرآن کی محفل سجائیں۔ سیرت مبارکہ ﷺکی کتابوں کا مطالعہ شروع کریں۔ آن لائن بھی بہت کچھ دستیاب ہے۔ سیرت کے منور واقعات بچوں کو بھی سنائیں۔ ہوسکے تو بچوں کے ساتھ مل کرنئے عہد کریں، ایسی کمٹمنٹ جو رواں سال پوری کرنی ہیں۔
نیو ائیر ریزولوشن کی طرح کرائسس ریوزولوشن بھی ہوسکتے ہیں۔ وبا کے دنوں میں عہد۔ جب آس پاس خطرہ ہے، تاریک سائے منڈلا رہے ہوں، کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہو، ? ایسے میں آنے والے اچھے، روشن دنوں کے لئے رب کریم سے چند عہد کر لئے جائیں۔ یہ وعدہ کہ اللہ تعالیٰ آسانی عطا فرمائے، یہ خطرات دور ہوجائیں تو ہماری زندگی پہلے سے بہت بہتر، پاکیزہ اور نفع بخش ہوگی۔ بچوں کو اس کمٹمنٹ میں شریک کریں، گواہ بنائیں۔ خلوص نیت سے کئے گئے عہد آئندہ کے لئے بہت سے خوبصورت، روشن اور صاف راستے کھول دیتے ہیں۔ آزما کر دیکھیں۔