Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Waba Ke Mausam Mein Toot Te Tare

Waba Ke Mausam Mein Toot Te Tare

کورونا کی وبا کے دوران پچھلے چند ماہ میں کئی عزیز دوست، مہربان بزرگ بچھڑ گئے۔ کچھ کورونا کا نشانہ بنے تو بعض براہ راست کورونا کا شکار نہیں ہوئے، مگر قیاس ہے کہ وباکے دنوں کے اعصابی تنائو اور گھٹن نے سفر مختصر کر دیا۔ نام لکھے جائیں تو طویل فہرست بن جائے گی۔

اس سال کی ابتدا ہی میں ہمارے عزیز دوست، مہربان سینئر رئوف طاہر انتقال کر گئے۔ رئوف بھائی کے جانے پر کئی کالم لکھے گئے، لکھے جاتے رہیں گے۔ ان جیسے باغ وبہار، شگفتہ مزاج، دوستوں کی خوشی غمی میں شامل ہونے والے شخص کا صدمہ برسوں نہیں بھلایا جا سکتا۔ میرا رئوف طاہر سے تعلق سی این اے میں بنا۔ کونسل آف نیشنل افیئرز(CNA)نام کا تھنک ٹینک یا تھنکرز فورم پچھلے بیس بائیس سال سے لاہور میں کام کر رہا ہے۔ ہر جمعہ کی شام نہایت باقاعدگی سے اس کا اجلاس ہوتا رہا، کورونا وبا کے باعث موقوف ہے۔ میں سولہ سترہ برس سے اس کا رکن ہوں۔ ہمارے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف صاحب اس کے کنوینر جبکہ جناب غلام مصطفی میرانی اس کے سدابہار چیئرمین ہیں۔ لاہور کے ممتاز صحافیوں، دانشوروں میں سے بیشتر اس کے فعال ممبر رہے۔ جناب مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، قدرت اللہ چودھری، عبداللہ طارق سہیل، نوید چودھری، یاسر پیرزادہ، سلمان عابد، کرامت علی بھٹی، اجمل شاہ دین، تنویر شہزاد، تنویر قیصر شاہد، احمد ولید، ریاض چودھری، فاروق عالم انصاری، شیرازی صاحب، پیر ضیا الحق نقشبندی اور بعض دیگر صحافی، قلم کاراس کا حصہ رہے ہیں۔ کراچی کے تیز دھار صحافی اور منفرد قلم کار محمد طاہر چند سال لاہور مقیم ہوئے تو وہ بھی سی این اے کی محفلوں کا مستقل حصہ رہے۔ نامور قانو ن دار، دانشورپروفیسر ہمایوں احسان، جسٹس کے ایم صمدانی مرحوم، قیوم نظامی، کے ایم اعظم، ڈاکٹر امان اللہ ملک، پروفیسر شبیر احمد خان سمیت کئی اور قابل احترام یونیورسٹی اساتذہ بھی سی این اے میں اپنے حسین رنگ شامل کرتے رہے۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر شفیق چودھری بانی ممبران میں سے ہیں، ایک زمانے میں جامعہ پنجاب کے ناظم جمعیت رہنے والے اختر ملک سی این اے کے سیکرٹری ہیں۔ شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ اور ڈاکٹر احسن اختر ناز بھی بہت ریگولر ممبران تھے، دونوں دنیا سے رخصت ہوچکے۔ یاسین وٹو بھی سی این اے کا حصہ تھے، گزشتہ روز وہ بھی اپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ پنجاب یونیورسٹی کے موجودہ پرووائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر سی این اے کے اہم ساتھی ہیں۔ میجر جنرل (ر)جاوید احمد، بریگیڈئر فاروق حمید، کرنل فرخ، میجر ایرج ذکریا بھی سی این اے کا فعال حصہ ہیں۔ ہمارے بینکر دوست شہزاد کے علاوہ وحید انجم، شاہد گِل، رانا لطیف، جاوید بھٹی اور بعض دیگر دوست اس کے اراکین میں شامل ہیں۔

سی این اے کی محفلوں سے بہت کچھ سیکھا، دوستی اور محبت کے گہرے رشتے پیدا ہوئے۔ سینئرز کی شفقت اور رہنمائی حاصل ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سی این اے سے ہی کچھ تھوڑا بہت بولنے کی مشق ہوئی۔ ارشاد عارف صاحب جیسے سینئرز سے اختلاف کا ہنر سیکھا، پروفیسر ہمایوں احسان سے آئوٹ آف باکس سوچنے کی اہمیت کا ادراک ہوا، شامی صاحب کے استدلال اور بحث کو سمیٹنے کے سلیقہ کا بارہا مشاہدہ ہوا۔ سی این اے کی محفلوں میں بھائی رئوف طاہر کا تحمل، برداشت اور جوشیلی بحث مباحث کے بعد ٹھنڈے مزاج اور دلنشین مسکراہٹ کے ساتھ سلام دعا لینا، گپ شپ لگانا متاثر کن لگا۔

رئوف طاہر گرجدار آواز کے مالک تھے، بحث میں یہ مزید بلند ہوجاتی۔ کمرے سے باہر کے کسی شخص کو لگے کہ اندر جھگڑا ہو رہا ہے۔ رئوف طاہر مگر تند وتیز بحث میں بھی اپنے اعصاب پر قابو پالیتے۔ سی این اے کی محفلوں میں کرنٹ افیئرز پر زیادہ بحث ہوتی رہی۔ عمران خان فیکٹر نے جہاں قومی سیاست کو تقسیم کیا، سی این اے کی محفلوں میں بھی اس کے گہرے اثرات پڑے۔ پرو عمران، اینٹی عمران کہہ لیں یا پرو نواز شریف، اینٹی نواز شریف حلقے موجود تھے، دھواں دھار بحثیں ہوتیں۔

خاکسار کے موقف اور پوزیشن کے بار ے میں قارئین کو زیادہ بتانے کی ضرورت نہیں، ہماری تحریریں گواہ ہیں کہ کیا سوچتے اور لکھتے رہے۔ میاں صاحب اور ن لیگی سیاست کے بارے میں ہمارے تحفظات تھے، عمران خان کے ریفارمز کے ایجنڈے میں کشش محسوس ہوتی۔ رئوف طاہر واضح طور پر مسلم لیگ ن کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ کھل کر دفاع کرتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے۔ سیاسی تاریخ انہیں ازبر تھی، سن، دن بلکہ کبھی تو یہ بھی یاد ہوتا کہ فلاں پریس کانفرنس کتنے بجے ہوئی تھی۔ وہ اپنی تقریر ساٹھ کے عشرے اور ایوب خان کے کردار سے شروع کرتے، کبھی مہربان ہوجاتے تو ستر، اکہتر سے آغاز کرتے۔ ایک بار میں نے اعتراض جڑ دیا کہ آپ ایک ہی تقریر بار بار دہراتے ہیں، ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کا کیا موقف ہے، اس لئے پچھلی تاریخ کو چھوڑ کر آج کی دنیا میں واپس آئیں۔ رئوف بھائی اس پربد مزہ تو ہوئے، اس بے مانگے مشورے پر نکتہ اعتراض بھی اٹھایا۔ جیسے ہی ہمارا اجلاس ختم ہوا، اپنی مخصوص مسکراہٹ اور کڑکتی آواز میں یوں ملے جیسے بحث ہوئی نہیں تھی۔ ایسی برداشت، کشادہ دلی بہت کم دیکھنے کو ملی۔ وہ سراپا محبت اور سراپا خیر تھے۔ انتہائی دیانت دار، بااصول۔ مسلم لیگ کی ڈٹ کر حمایت کی، مگر کبھی کچھ حاصل نہیں کیا۔ کچھ عرصے کے لئے ایک آدھ کنٹریکٹ پر ملازمت ملی، مگر وہ میرٹ پر بھی ان کا حق بنتی تھی۔ وہ کھرے صحافی تھے۔ نظریاتی کمٹمنٹ ان پر ختم تھی۔ پاکستانیت اور اسلام پر کبھی کمپرومائز نہ کرتے۔ قائدین تحریک پاکستان کے حوالے سے ڈٹ کر لکھتے۔ جب کبھی ان موضوعات پر کالم لکھتا تو اگلے روز مجھے رئوف طاہر کا فون ضرور آتا، کھل کر داد دیتے، حوصلہ افزائی کرتے۔ اسی نظریاتی کمٹمنٹ کی وجہ سے ہی مسلم لیگ میں پرویز رشید صاحب کا سیکولر حلقہ رئوف طاہر کو پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ کھل کر کبھی شکوہ نہیں کرتے تھے، مگر ایک دو بار میرے سامنے بات ہوئی۔ کسی نے پرویز رشید صاحب پرتنقید کی کہ وہ رئوف طاہر کو آگے نہیں آنے دے رہے تو رئوف طاہر نے ا سکی تردید نہیں کی۔ ایک زخمی مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی۔ محمد طاہر نے اپنے تعزیتی کالم میں یہ بات کھل کر لکھ دی ہے۔

رئوف طاہر انتہائی فعال شخص تھے، ہر تقریب میں شامل ہونا۔ دوستوں سے رابطے میں رہنا، خود نہ جا سکتے تو فون کر کے گپ شپ لگا لیتے۔ شوگر کا عارضہ تھا، بلڈپریشر بھی آخری برسوں میں ہوگیا، مگر دیکھنے میں بھلے چنگے، فٹ نظر آتے۔ ان کا اچانک چلے جانا مرگ ناگہانی ہے۔ ابھی تک یقین نہیں آرہا۔ اللہ ان کی مغفرت کرے، ہم نے ان میں ہمیشہ خیر ہی دیکھا۔ وہ ایک باعمل مومن تھے۔

ہفتہ کی شام معلوم ہوا کہ سی این اے کے ایک بزرگ ساتھی یاسین وٹو بھی بچھڑ گئے۔ وٹو صاحب بڑی دلچسپ شخصیت تھے۔ اے جی آفس سے ریٹائر ہوئے، پامسٹ، آسٹرالوجسٹ تھے، نوائے وقت میں کالم بھی شائع ہوتا تھا۔ وٹو صاحب برسوں سی این اے کے سیکرٹری فنانس رہے۔ یہ فورم کبھی کسی سے مدد نہیں لیتا اور ارکان سے ماہانہ کچھ رقم اجلاس کے دوران چائے کافی، سینڈوچ، پیسٹری وغیرہ کے لئے لی جاتی ہے۔ وٹو صاحب کمال مہارت سے یہ انتظام نبھاتے، اجلاس کا افتتاح ان کی تلاوت سے ہوتا، وہ ہمیشہ سورہ العصر پڑھا کرتے۔ کہتے کہ یہ حیران کن جامع سورہ ہے۔ روحانیت سے بھی شغف تھا۔ سالار والا فیصل آباد کے نامور بزرگ صوفی برکت علی لدھیانوی صاحب کے مرید تھے۔ کہتے ہیں کہ انہیں صوفی صاحب سے فیض ملا تھا، کچھ لوگ وٹو صاحب سے منسوب خرق عادت واقعات بھی سناتے۔ ہمارا ان کا تعلق روحانی امور کا نہیں تھا، اگرچہ بعض نجی امور میں انہوں نے بڑی شفقت سے رہنمائی کی۔ میرے بڑے بیٹے صارم کو انہوں نے بچپن میں دیکھا تھا، اس کا ہمیشہ پیار سے پوچھتے رہتے۔ وٹو صاحب کا مخصوص مزاج تھا، سی این اے کے اجلاس میں وقت پر پہنچتے اور ہم جیسے دیر سے آنے والوں پر پھبتیاں کستے رہتے۔ کبھی معمولی سی بات پر بگڑ جاتے، مگر فوراً مان جاتے۔ میرا اور ہمد م دیرینہ کرامت بھٹی کا وٹو صاحب کے ساتھ ایک اور مشترک رشتہ تھا۔ پی سی ہوٹل میں کئی برسوں اجلاس ہوتا رہا۔ ہم دو نوں نوجوان موٹرسائیکلوں پرآتے، وٹو صاحب کے پاس ان دنوں ویسپاسکوٹر تھا۔ سخت سردی کی راتوں میں گھر روانہ ہونے سے پہلے موٹر سائیکل پارکنگ میں ہم تین باہمت "شہہ سوار" چند منٹ کھڑے تبادلہ خیالات کرتے رہتے۔

ایک دن وٹو صاحب نے موڈ میں آ کر کچھ روحانی اشغال بھی لکھ دئیے، کچھ عرصہ پڑھے، پھر سستی کی نذر ہوگئے۔ وٹو صاحب کی پیش گوئیاں اخبارات میں شائع ہوتی رہتیں، کوئی غلط اور کبھی کوئی درست بھی ہوجاتی۔ درست پیش گوئی کا حوالہ ہمیں سال بھر سننا پڑتا۔ محبت کرنے والے آدمی تھے، سی این کی رونق رہے۔ کچھ عرصہ چھوڑ گئے، اس کی تفصیل میں کیا جانا۔ دو ڈھائی سال پہلے واپسی ہوگئی، مگر اب ان میں پہلے جیسی توانائی نہیں تھی، عمر کے اثرات آ رہے تھے۔ فالج کا اٹیک بھی ہوا، صحت یاب ہوگئے تھے، چھڑی لے کر ارشاد عارف صاحب کے بیٹے کی شادی میں شریک ہوئے۔ رئوف طاہر کے جنازے میں وٹو صاحب کو نہ پا کر خیال آیا کہ ان کی طبیعت پوچھی جائے۔ سوچتا ہی رہ گیا، گزشتہ روزآخری اطلاع آ گئی۔ حق مغفرت کرے، ان کے ساتھ حسین، خوشگوار یادیں منسلک ہیں۔