اس وقت ایک نکتے پر حکومت اور تمام فلاحی تنظیموں کی توجہ مرکوز ہے کہ انتہائی ضرورت مندوں کی مدد کو پہنچا جائے۔ ان کے گھروں تک راشن پہنچایا جائے، چند ہزار کی مالی مدد کی جائے تاکہ ان کڑے دنوں میں بقا کی جنگ لڑی جا سکے۔ یہ حکمت عملی درست ہے۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جن کے پاس کچھ نہیں، پہلے ان کی مدد کی جائے۔ جو دیہاڑی دار لاک ڈائون کی وجہ سے گھروں میں بند ہیں، فاقوں تک معاملہ پہنچ گیا ہے، ان کی مدد ترجیحی بنیادوں پر کرنی چاہیے۔ یہ سب درست ہے، مگر چند ایک دیگر پہلو بھی کم اہم نہیں۔ حکومت اور سماجی تنظیموں کے ساتھ میڈیا (الیکٹرانک، پرنٹ) کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ ان پہلوئوں کو نمایاں کیا جا سکے۔
یہ بات سمجھنی اور سمجھانی چاہیے کہ کورونا آفت کسی حکمران یاحکومت کی غلطیوں سے نہیں آئی بلکہ یہ ایسی وبا ہے جس نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا کے وہ ممالک جو اپنے مثالی نظام پر ناز کرتے تھے، جن کا صحت کے بجٹ پر بیسیوں ارب ڈالر صرف ہوتے اور وہاں کے سوفی صد شہری تعلیم یافتہ، باشعور اور ڈسپلنڈ ہیں، آج ان کے تمام سسٹم تباہ ہوگئے اور لوگوں کے ہیجان کی وجہ سے کئی ضروری اشیا کی شدید کمی لاحق ہوچکی ہے۔ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں جہاں کا انتظامی سسٹم ناقص اور نہایت کمزور ہے، صحت کے لئے زیادہ بجٹ نہیں، ہسپتالوں، ضروری آلات اور ادویات کے ساتھ تربیت یافتہ عملہ کی بھی کمی ہے، وہاں پر تو ویسے ہی زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کے باوجود حکومتوں، محکمہ صحت، طبی عملہ اور انتظامیہ کی کارکردگی بری نہیں رہی۔ شروع میں کچھ کوتاہیاں ہوئیں، مگر اس کے پیچھے یہ وجہ بھی تھی کہ دنیا ابھی کورونا کی تباہی اور طریقہ واردات سے باخبر نہیں تھی۔
کورونا وبا کے باعث ہونے والے لاک ڈائون میں حکومت یا سرکاری اداروں کا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں۔ یہ بنیادی نکتہ میڈیا والوں کو بھی ذہن نشین کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔ حکومت پر ضرور تنقید کریں، ان کی خامیوں، غلطیوں کی نشاندہی کریں۔ میڈیا کی یہ ذمہ داری ہے۔ لوگوں کو مگر خود ترسی (Self Pity) کا شکار نہ کریں۔ اگر لاک ڈائون نہ کیا جاتا تو پھر اٹلی، سپین کی طرح ہر گھر سے جنازے اٹھتے، بلکہ ہماری آبادی زیادہ ہے، خدانخواستہ ہمارے ہاں تو لاکھوں لوگ نشانہ بن جاتے۔ لاک ڈائون سے لوگ تنگ ہیں، روزگار کے بھی مسائل ہیں، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مشتعل ہوجایا جائے اور تمام ترغصہ حکومت، سرکاری اداروں پر نکالا جائے۔ ہرگز نہیں۔ اس کا کسی کو حق نہیں۔ آفات جب آتی ہیں تب پورا سسٹم فیل ہوجایا کرتا ہے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ حکومت کو کھلی چھٹی دے دی جائے، اس پر سوال نہ ہو۔ نہیں، بالکل نہیں۔ حکومت کو اپنے تمام تر وسائل، انتظامی قوت اکٹھی کر کے عوام کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔ یہ وقت متحد ہونے، ایک دوسرے کی مدد کرنے، اپنے حصے کی روٹی بانٹ کر کھانے کا وقت ہے۔ مشکل کے کڑے دن ایسے ہی گزارے جا سکتے ہیں۔ یہ وقت شکوے، تلخی، ناراضی، برہمی یا آگ بگولا ہونے کا نہیں۔ آزمائش ہے، اسے صبر، برداشت کے ساتھ کاٹیں۔ رب کریم سے استغفار کریں، رحمت کی دعا مانگیں۔
یہ بات اس لئے کہی کہ آج کل سڑکوں پر عجیب وغریب قسم کے جتھے دیکھ رہا ہوں۔ ان کے چہروں پر وحشت اور آنکھوں میں عجیب سی گرسنگی ہے۔ یہ مزدور یا دیہاڑی دار نہیں، زیادہ تر پیشہ ور مانگنے والے ہیں۔ آج کل کاندھے پر مزدوروں کے انداز میں رومال ڈال کر، ہاتھ میں پینٹ برش پکڑے ملتے ہیں۔ انداز یہی ہوتا ہے کہ ہم دیہاڑی دار ہیں، لٹ گئے اور اب ہماری امداد ہونی چاہیے۔ یہاں تک چلو خیر تھی، ان کے انداز ہر روز مزید جارحانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ موٹی تازی پلی ہوئی پیشہ ور بھکاری خواتین اور یہ نام نہاد بھکاری نما تگڑے مزدور اس انداز میں گاڑیوں کے پاس آ کر کھڑے ہوتے ہیں جیسے اگر کسی نے ان کی مدد نہ کی تو وہ گناہ عظیم کا مرتکب ہوگا۔ اگر کسی نے غلطی سے کھڑکی کا شیشہ نیچے کر کے یا اتر کر ایک دو کو پیسے دینے کی کوشش کی تو اس پر باقاعدہ یلغار ہوجاتی ہے۔ کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور بمشکل پولیس کی مدد سے پیسے دینے والے کو بچایا گیا۔ مجھے خطرہ ہے کہ جلد ہی یہ پیشہ ور بھکاری اور ان کے گینگ باقاعدہ راہ چلتی گاڑیوں پر حملے نہ کرنا شروع کر دیں۔ تب کہیں نہ کہیں میڈیا کا ایک حلقہ یہ دلیل دے گا کہ بھوکے مرنے والے لوگ مجبور ہو کر سٹرکوں پر لوٹ مار کو آ گئے۔ میڈیا کے بعض عاقبت نااندیش اینکر، ضرورت سے زیادہ پرجوش رپورٹر نادانستگی میں ایک آگ بھڑکا رہے ہیں۔ وہ ایسے جارحانہ رویوں، اشتعال انگیزی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ لوگوں کی مدد ہونی چاہیے، ضرور ہو، مگر لوٹ مار کا کسی کو حق نہیں۔ احتجاج کے سو طریقے ہیں، تشدد کے بغیر اپنی بات کہیں، سب ساتھ دیں گے۔
ایک بہت اہم معاملہ ان لوگوں کا ہے جو ہاتھ نہیں پھیلا رہے۔ وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔ بحران کی وجہ سے گھر بیٹھ گئے، سخت پریشان ہیں، مگر بھرم بچانے کے لئے کسی سے کچھ مانگ نہیں سکتے۔ ہم سب کوان کے لئے آواز اٹھانی چاہیے۔ مختلف شعبوں کے لوگ ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں کی انتظامیہ، ٹیچرز اور دیگر عملہ ہی کو دیکھ لیجئے۔ ہزاروں، لاکھوں پرائیویٹ سکول ہیں، لاکھوں پر مشتمل عملہ یکایک اپنی تنخواہوں سے محروم ہوگیا۔ لاک ڈائون ختم ہوجائے تب بھی سکول تو اکتیس مئی تک بند ہوچکے ہیں۔ ایساوسط مارچ سے ہوا، یعنی مارچ، اپریل، مئی تین ماہ کی فیسیوں کا بحران پیدا ہوگیا۔ اچھے سکولوں میں ٹیچر بارہ چودہ سے بیس پچیس ہزار تک تنخواہیں لیتے ہیں، نسبتاً ہلکے سکولوں میں بھی پانچ، سات، دس ہزار تک تنخواہ ملتی تھی، شام کو اکیڈمی جا کر یا ٹیوشن پڑھا کر کچھ اور بنا لیتے۔ اب یہ سب لاکھوں ٹیچر ہاتھ پر ہاتھ دھرے گھر میں بیٹھے ہیں۔ ایک روپیہ بھی آمدنی نہ ہو تو یہ لوگ تین ماہ تک کیسے گزارا کریں گے؟ یہ سب عزت دار لوگ ہیں، بے نظیر سپورٹ پروگرام یا غریبوں کے لئے راشن سکیم میں نام بھی نہیں لکھوائیں گے۔ حکومت کو ان کے لئے کسی پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ بڑے چند سکولوں کو چھوڑ کر بیشتر نجی سکول والے بھی اپنا مناسب سا گزارا ہی کرتے ہیں، پچاس، ساٹھ یا ستر ہزار تک آمدنی۔ ان کا سرکل اچھے طریقے سے چل رہا تھا، مگر تین ماہ کے اس بحران میں یہ بھی فاقوں پرچلے جائیں گے۔ بیشتر سکول کرائے کی عمارتوں میں ہیں، کرایہ تو دینا پڑتا ہے۔ بحران اچانک آیا۔ پہلے اندازہ ہوتا تو لوگ پس انداز کر رکھتے۔ جن کا ماہانہ سرکل چل رہا تھا، وہ اب کیا کریں؟ سکول مالکان کو سبسڈی دینی چاہیے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کی طرز پرنجی سکولوں کو اپنے طلبہ کی تعداد کی بنیاد پر مدد فراہم کرنی چاہیے، انہیں ٹیچرز کی تنخواہوں کے لئے پیسے فراہم کریں اور یقینی بنائیں کہ ادائیگی ہوجائے۔
بعض کاروبار ایسے ہیں جنہیں اگر ہفتے میں صرف ایک دن کھلنے کی اجازت مل جائے تو کئی لاکھ گھرانے فاقوں سے باہر آ سکتے ہیں۔ سب سے اہم ایزی پیسہ، ایزی لوڈ والی دکانیں ہیں۔ انہیں ہفتہ میں ایک دن یاتین دنوں کے لئے پانچ چھ گھنٹے کھولنے کی اجازت دیں۔ آج کل ویسے بھی کسی کی مدد کرنے کا واحد طریقہ ایزی پیسے کے ذریعے اسے پیسے بھیجنا ہے۔ دکانیں بند ہوں گی تو لوگ کیا کریں گے؟ اسی طرح گھروں میں مقید لوگ اپنا موبائل لوڈ اور نیٹ پیکیج تک نہیں کر ا پا رہے۔ یہ دکانیں ہفتے میں ایک دن کھل جائیں تو ان لاکھوں دکانداروں کی کچھ نہ کچھ آمدنی ہوجائے گی، جبکہ گھر بیٹھے لوگوں کے مسائل بھی کم ہوں گے۔ آج کل تو کسی کا موبائل چارجر خراب ہوگیا تو وہ غریب گھر میں بیٹھا رہ جائے گا۔ اتنی سہولت تو حکومت کو دینی چاہیے کہ ہفتے میں ایک ایک دن کر کے چند ایک شعبوں کو کھولا جائے۔ انہیں پابند بنائیں کہ صرف ماسک پہننے والے کو چیز دیں، اس کا کام کریں اوررش نہ ہونے دیں۔ سگریٹ پان کے کھوکھے بھی کسی دن کھل جائیں تو ان غریبوں کی بھی کچھ نہ کچھ دیہاڑی لگ جائے گی۔ الحمدللہ میں سگریٹ پیتا ہوں نہ پان کا شوق ہے، مگر بہرحال لاکھوں لوگ اسے استعمال کرتے ہیں، یکایک وہ چھوڑ تو نہیں دیں گے؟ ایک بہت ضروری شعبہ الیکٹریشن، پلمبر وغیرہ کا ہے۔ بے شمار گھروں میں بجلی وغیرہ کا چھوٹا موٹا مسئلہ پیدا ہو تو وہ کسی کو نہیں بلا پا رہے۔ سب دکانیں بند ہیں۔ یہ سب دیہاڑی دار لوگ تھے، محنت کر کے کمانے والے۔ لاک ڈائون میں ایک دن کے لئے انہیں بھی کام کرنے دیا جائے تو کچھ روزی کما لیں گے اورجس نے اپنا کام کرانا ہے، وہ بھی کرا لے گا۔ اوبر، کریم وغیرہ میں رجسٹرڈ ڈرائیوربھی گھر بیٹھ گئے ہیں۔ ان سب کا ڈیٹا موجود ہے، حکومت زیادہ نہیں کر سکتی تو انہیں بارہ ہزار روپے امداد والی کیٹیگری میں ڈال دے۔ کڑکی کے ان دنوں میں کچھ تو ملے گا۔
اصل مقصد لاک ڈائون کو کامیاب بنانا ہے، احتیاط اور کچھ پابندیوں کے ساتھ، باری باری کسی ایک شعبے کو ایک دن کے لئے کھول کر بھی یہ کام ہوسکتا ہے۔ صرف لوگوں کے مسائل سمجھنے اور ہمدردانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔