عیسوی کیلینڈر کے آغاز سے بعد کے 2021 سالوں میں یوں تو یہ دن 2021بار ہی آیا ہے مگر آج سے 81 برس پہلے آنے والا 23مارچ اس اعتبار سے ایک منفرد دن تھا کہ اُس روز برصغیر کے مسلمانوں نے مل کر ایک ایسا خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر سات برس بعد قیامِ پاکستان کی شکل میں سامنے آئی اور آج ہم اُسی تعبیر کی روشنی میں اُس خواب کو پھر سے یاد کررہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں بیشتر ملکوں کی سرحدیں بنتی، بگڑتی، مٹتی اور بعض صورتوں میں تبدیل ہوتی رہی ہیں اور نئے ممالک بھی وجود میں آتے رہے ہیں مگر جس ملک کا خواب 81برس قبل کے 23مارچ کو دیکھا گیا تھا وہ اِن سب سے جُدا اور اپنی مثال آپ ہے کہ آج یہ ملک اپنے قیام کے 24برس بعد دولخت ہونے کے باوجود بھی نہ صرف آبادی کے اعتبار سے دنیا کے پہلے دس ملکوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ ساتویں جوہری طاقت اور اس استعداد کا حامل واحد مسلمان ملک بھی ہے۔
تیسری دنیا اور نو آبادیاتی کلچر کی مخصوص پسماندگی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع اور بین الاقوامی ہمسایوں کی وجہ سے جن اضافی مسائل کا اس کو سامنا کرنا پڑا اورناتجربہ کارسیاسی قیادتوں اور فوجی دخل اندازیوں کی وجہ سے اس کی ترقی کے راستے میں جو رکاوٹیں حائل ہیں اور رہی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اجتماعی سطح پر بہت سے شعبوں میں اس کی کارکردگی اگر اچھی نہیں تو بہت زیادہ بُری بھی نہیں رہی اور جہاں تک انفرادی حوالے سے پاکستانیوں کی صلاحیتوں کا تعلق ہے تو بلاشبہ اُس میں ہماری کارکردگی بہت اچھی اور مثالی رہی ہے مجھے شاعری، ڈرامے اور کالم نگاری کے توسط سے دنیا کے بہت سے ملکوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور ہر ترقی یافتہ ملک میں میں نے وہاں پر موجود پاکستانیوں کو بہت بہتر اور ہر اعتبار سے بہت کامیاب پایا ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اگر انھیں ملک کے اندر بھی تحفظ کے ساتھ ساتھ ترقی کے آسان اور مساوی مواقع مہیا کیئے جائیں تو یہ بہت اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
23 مارچ کا دن اس قومی اور اجتماعی حوالے سے قطع نظر ذاتی طور پر بھی میرے لیے دو حوالوں سے خصوصی اہمیت رکھتا ہے ایک تویہ کہ اس دن آج سے 46 برس قبل میری شادی ہوئی اور دوسری یہ کہ اُسی دن لاہور ٹیلی وژن سینٹر سے میرا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ "خواب جاگتے ہیں " کے نام سے ٹیلی کاسٹ ہوا جس پر آگے چل کر مجھے بطور ٹی وی رائٹر پہلا گریجوئٹ ایوارڈ بھی ملا جہاں شادی نے مجھے تین بہت پیارے اور سعادت مند بچوں کا باپ بنایا وہاں کُل ملا کر نو پوتے، نواسیاں اور نواسہ بھی عطا فرمائے جب کہ اس پہلے ایوارڈ کے بعد ملنے والے چھوٹے بڑے ایوارڈوں کی تعداد دو سو سے بھی تجاوز کرچکی ہے جن میں ستارہ امتیاز، تمغہ حسنِ کارکردگی، پانچ پی ٹی وی ایوارڈز اور دس سے زیادہ بین الاقوامی سطح کے ایوارڈزبھی شامل ہیں اور یہ سب کچھ اسی پیارے ملک کی بدولت ہے جو پاکستان کے خوب صورت نام کے ساتھ ہمیں عطا ہوا ہے تو سب سے پہلے اظہارِ تشکر کے طور پر وطن کے نام کی ایک نظم کی یہ چند لائنیں جو میرے دل سے بہت قریب ہیں۔
مرے وطن، میری ہستی کا منتہا تو ہے
میرے خیال کی نُدرت تری جبیں تک ہے
میں مثتِ خاک سہی، تیرے کارواں کی ہُوں
مرے فلک کی بلندی تری زمیں تک ہے
میں تری خاک کی آواز بن کے اُٹھا ہوں
مری زباں میں اثر دے کہ میری موجِ صدا
دل و نظر میں تمنا کے پھول مہکائے
مری صدا مرے اہلِ وطن کی بن جائے
میں سیلِ شوق کا آغاز بن کے اُٹھا ہوں
مرے وطن میں تری خواہشوں کا سایا ہوں
میں ایک شاعرِ گمنام ہوں مرے بس میں
مرا وجود تھا سو آج لے کے آیا ہوں
مرے لہو کی سلامی قبول کر لینا
یہ جنسِ خام سہی، رزقِ پائے باد سہی
مگر یہ دیکھ کہ کس آرزو سے لایا ہوں
اگرچہ میری جیون ساتھی فردوس میری چچا زاد ہیں اور ہم دونوں شادی سے پہلے بھی ایک ہی گھر میں رہا کرتے تھے مگر جب ایک مرد اور عورت شادی کے خوب صورت بندھن میں بندھتے ہیں تو اُن کے درمیان ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھنے اور اس کے ساتھ نباہ کرنے کا ایک ایسا انوکھا رشتہ استوار ہوتا ہے جس کو کسی بھی مثال سے پوری طرح واضح نہیں کیا جاسکتا سو میں نے بھی چند شعروں میں ایک ادھوری سی کوشش کی ہے اس دعا کے ساتھ اُسے شیئر کرتا ہوں کہ ربِ کریم اس کو اپنی رحمت سے مزید گہرا کرتا رہے۔
وہ میری ہم سفر بھی ہے لہجہ شناس بھی
خوشبو مثال ہے جو مرے آس پاس بھی
جس سے ہو آشکار میرے دل کی کیفیت
الفاظ کی گرفت میں آتی نہیں وہ بات
یُوں ہیں بیانِ شوق کی راہوں کے پیچ و خم
بے نام کہکشاؤں میں اُلجھی ہو جیسے رات
دھڑکن میں اعتماد تو ہاتھوں میں ہاتھ ہے
ہر دکھ میں، ہر خوشی میں مرے ساتھ ساتھ ہے
آئی وہ میری زیست میں اک خواب کی طرح
حاصل ہو جو کتاب کا اُس باب کی طرح
وہ میری ہم سفر بھی ہے لہجہ شناس بھی
خوشبو مثال ہے وہ مرے آس پاس بھی