چین اور پاکستان کی دوستی میں جب سے سی پیک کا اضافہ ہوا ہے، یہ اصطلاح اب اپنی تمام غیر مانوسیت کے باوجود ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ بن گئی ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں اور شاہراہِ ریشم کو آپس میں ملانے والے ان رستوں کی ضرورت اور نوعیت اپنی جگہ مگر اس کے حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اس طرح کا ایک سی پیک منصوبہ زبان، کلچر اور ادب کے لیے بھی ہونا چاہیے کہ غالباً دنیا کی بڑی زبانوں میں چینی اور اُردو ہی دو ایسی بڑی زبانیں ہیں جن کے باہمی تراجم کا دائرہ بے حد محدود ہے۔
قدیم چینی فلسفیوں کے بالواسطہ اِکا دُکا تراجم سے قطع نظر بیسیوں صدی کے آغاز تک اُردو کا دامن تقریباً خالی ہے اور اس کے بعد بھی مائوزے تنگ کے افکار کے تراجم سے قطع نظر صرف مختار صدیقی مرحوم کی لِن یُو تانگ کی ترجمہ کردہ کتاب "جینے کی اہمیت" ہی دھیان میں آتی ہے۔ 1992میں مجھے ادیبوں کے وفد کے ساتھ چین جانے کا موقع ملا تو بیجنگ یونیورسٹی کے شعبہ اُردو میں گنتی کی چند کتابوں کے اُردو تراجم نظر آئے۔
پاکستان میں اس طرح کا سلسلہ اس کے بھی بعد نمل یونیورسٹی کے قیام سے شروع ہوا جن دنوں میرا ٹی وی سیریل "وارث" لُوشوئی لِن چینی زبان میں ڈب کرنے کے لیے ترجمہ کررہے تھے، وہاں سے اُردو میں "چین باتصویر" شایع ہوا کرتا تھا جس سے ہمارے دوست چانگ شی شوان عرف انتخاب عالم بھی متعلق تھے، پھر پتہ چلا کہ وہ بھی بند کردیا گیا ہے جب کہ میرے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ تراجم اُردو اور چینی کے مابین ہی ہونے چاہئیں تھے۔
چند دن قبل بھارتی مزاحیہ شاعر اور عزیز دوست پاپولر میرٹھی کی فرمائش پر میں نے اُن کے واٹس ایپ گروپ "ہنسنا ہے زندگی" میں شمولیت کی دعوت قبول توکرلی مگر بھانت بھانت کی پوسٹوں کی وجہ سے بہت کم اُدھر جانا ہوتا تھا، ایسی ہی ایک سرسری سی وزٹ میں امریکا سے کسی دوست کی بھیجی ہوئی ایک چینی نظم کے انگریزی ترجمہ پر نظر پڑی تو اس کا انداز اور مزاج اچھا لگا، تفتیش پر معلوم ہوا کہ اس کی شاعرہ ہیں تو چینی نژاد مگر مدت سے سنگا پور میں مقیم ہیں اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ میں نے یونہی اس کا قدرے آزاد مگر منظوم ترجمہ شروع کیا تو بات بنتی ہی چلی گئی۔
چائے پیئو مزے مزے اور آہستہ
ہر چُسکی ہے ایک کہانی
سب کو دیکھو اور سنو
چائے پیو مزے مزے اور آہستہ
کس کی خبر ہے کب یہ مہلت بِن بتلائے
ختم ہو جس میں ہم تم اب تک جیتے جی ہیں
کب وہ لمحہ کہیں سے آئے
اور ہمارے بیچ سے گزرے
جس سے آگے کچھ بھی نہیں ہے
سو اُس لمحے کے آنے تک کُھل کے جیئو
چائے پیو مزے مزے اور آہستہ
عمر کا قصہ بہت ہی چھوٹا سا ہوتا ہے
لیکن پھر بھی طولانی سا لگتا ہے
کرنے والے کام بہت ہیں
کتنا کچھ ہے جس کو واپس سیدھے رستے پر لانا ہے
جس کے لیے ہم لمحہ لمحہ کیا کیا چارا کرتے ہیں
اس سے پہلے اس قصے میں دیر زیادہ ہوجائے
اور وقت کہیں پر کھوجائے
ہر اک پَل کی قدر کرو
چائے پیو مزے مزے اور آہستہ
محفلِ یاراں سے کچھ ساتھی چپکے سے اُٹھ جاتے ہیں
باقی اپنی باری کے آشوب میں پیچھے رہ جاتے ہیں
کتنا بھی پیارا ہوکوئی اُس کو جانا ہوتا ہے
بال و پَر کے آتے ہی اک روز پرندوں کی صُورت
بچے بھی اُڑجائیں گے!
ہر وہ شے جو آج ہے اُس نے
(کچھ بھی کرلو)
آتے پَل میں مٹ جانا ہے
اس لافانی طرزِ فنا کو یاد رکھو، آباد رہو
چائے پیو، مزے مزے اور آہستہ
کیا ہے محبت؟ چاہت کیا ہے؟
آخر آخر یہی حقیقت رہ جاتی ہے
انسانوں کی خاک سے لے کر سر پہ چمکتے تاروں تک
یہی وہ منظر ہے جس کی تفہیم معانی رکھتی ہے
اس کی ہی تحسین ہے واجب اس کی ہی تعظیم کرو
اسی ہوا میں جینا سیکھو
خوشیاں بانٹو اور ہنسو
ہر اک غم سے دُور رہو
چائے پیو مزے مزے اور آہستہ
ہر چُسکی ہے ایک کہانی
سب کو دیکھو اور سنو
چائے پیو، مزے مزے اور آہستہ
مجھے یاد آیا کہ چند برس قبل برادر عزیز آصف فرخی(مرحوم) کی فرمائش پر اُن کے رسالے کے لیے میں نے اُن کی بھجوائی ہوئی ایک مختصرچینی نظم کا ترجمہ بھی کیا تھا جو میرے مجموعے "شام سرائے" میں شامل ہے۔
دریا پر اُترتی شام
(چینی شاعر Meng-Hou-Janکی نظم کا آزاد ترجمہ)
کشتی رواں تھی میری خاموش پانیوں میں
کُہرے میں نیم گم سا، چھوٹا سا اک جزیرہ
نزدیک آرہا تھا
اک اجنبی شفق میں، آہستگی سے سُورج
اک سمت ڈوبتا تھا
اس سمت ہورہے تھے ایک ایک کرکے روشن
یادوں کے کچھ ستارے، جیسے کسی نشے میں
پیڑوں پہ جھک رہا تھا یوں آسمان اُس دم
چاہو تو اُس کو چھولو
پورا وہ چاند ایسے مدہوش پانیوں میں
نزدیک آرہا تھا
ممکن ہے یہ دونوں نظمیں جدید چینی شاعروں کی نمایندہ نظمیں نہ ہوں مگر یہ تراجم یقینا اس بات کی دلیل دیں کہ دونوں ملکوں کے جدید اور قدیم قومی اور علاقائی ادب کے منتخب تمدنوں کے باہمی تراجم کا کوئی سلسلہ قائم کرنا ضروری ہے کہ موجودہ سی پیک تو دونوں ملکوں کی حکومتوں کو نزدیک لارہا ہے مگر یہ ادب کا سی پیک یقیناً عوام، لکھاریوں اور اہلِ فکر و نظر کو ایک دوسرے سے قریب تر لائے گا جو شاید پہلے والے سی پیک سے بھی زیادہ ضروری ہے۔