احفاظ بھائی سے میری آخری بالمشافہ ملاقات کچھ عرصہ قبل ادارہ ایکسپریس کی طرف سے منعقد کردہ ایک ادبی تقریب میں ہوئی تھی۔ وہ اور برادرم اعجاز الحق ادارے کی طرف سے اس تقریب کے منتظمین تھے جب کہ ممبران میں میرے، اطہر شاہ خان اور زاہدہ حنا کے علاوہ کچھ اور دوست بھی شریک تھے۔
وہ اُن دنوں بھی بیمار تھے ا ور گلے کے کینسر کی وجہ سے اُن کی آواز بھی تقریباً بیٹھ چکی تھی مگر جب وہ کسی اصولی بات پر اپنا موقف بیان کرتے تو اُن کے لہجے میں وہی مضبوطی در آتی تھی جوعمر بھر اُن کی شخصیت کا حصہ رہی اور بقول اقبال یوں گلے لگتا تھا کہ "بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی پوشیدہ ہیں " وہ خوش رُو اور دیدہ زیب تو تھے ہی مگر محفلِ یاراں میں نرم دمِ گفتگو کی تصویر بنتے تو گفتار، کردار اور افکار کی خوبصورتی مل کر ایک عجیب سماں سا باندھ دیتی تھی۔
میرا ان سے اوّلین رابطہ ڈرامہ "وارث" کی معرفت ہوا جس کا اسکرپٹ لُو شوئی لِن چینی زبان میں ترجمہ کردیتے تھے اور احفاظ اُن دنوں وہیں ہونے کی وجہ سے اُن کی مدد کر رہے تھے، کبھی کبھار کوئی لفظ اپنی غرابت، پنجابی تلفظ یا کتابت کی کسی غلطی کے باعث ناقابلِ فہم ہوجاتا تو وہ مجھ کو بھی اس عمل میں شامل کرلیتے تھے۔ شانگ شی شوان عرف انتخاب عالم جو اُن دنوں چین باتصویر کے اُردو ایڈیشن سے متعلق تھا اس انجمن کا چوتھا اور آخری رکن تھا۔
ہمارے یہاں اخبار نویس، صحافی، رپورٹر کسی مخصوص صفحے یا پورے اخبار کا ایڈیٹر، نامہ نگار اور کالم نویس کم و بیش ایک ہی صف میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ایسے میں احفاظ الرحمن جیسے لوگ جو مطالعے، دانش، نظریاتی استقامت اوراپنے دبنگ اور جرات مندانہ لہجے کی وجہ سے الگ سے پہچانے جاتے ہوں بہت کم ہیں، ٹی وی اینکرر کے ظہور اور فروغ کے بعد Hard Talk ٹائپ جارحانہ قسم کے پروگرام کرنے والے کئی نام آسانی سے پہچانے جاتے ہیں مگر کولڈ پرنٹ میں اور صرف قلم کے ساتھ اپنے آپ کو منوانے والوں کی صف میں احفاظ الرحمن شائداپنی نسل کے آخری آدمی تھے۔
وہ اُن چند لکھنے والوں میں سے تھے جو نثر اور نظم دونوں سے کام لیتے تھے مگر دونوں میں نہ صرف ایک جیسے کامیاب تھے بلکہ الگ اور دُور سے پہچانے بھی جاتے تھے۔ انسانی حقوق، اظہار کی آزادی اور انسانوں کو سیاسی اور تہذیبی استحصال کے خلاف جدوجہد میں وہ ہر جگہ کمر بستہ نظر آتے تھے۔ کمیونزم اور طبقاتی تقسیم کے ضمن میں اُن کا مطالعہ قابلِ رشک تھا۔ عظیم چینی لیڈر چُو این لائی کا یہ مشہورجملہ پہلی بار میں نے اُن کے منہ سے ہی سنا تھا۔
You cannot de-class yourself living in the same class.
اور اسی کلاس اور اس سے تعلق کی نوعیت کے حوالے سے یہ واقعہ بھی مجھے انھوں نے ہی سنایا تھا کہ روسی وزیراعظم خروشچیف نے پہلی ملاقات پر چُو این لائی سے جو مکالمہ کیا اُس کی پنچ لائن دنیا کے چند بہترین جملوں میں شمار کئے جانے کے لائق ہے۔ اس بات کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ خروشچیف نے کہا، "مسٹر چُو این لائی تم میں اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں، ہم دونوں اپنے اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں، کمیونسٹ فلاسفی کے علم بردار ہیں، دونوں ہم عمر ہیں اور نیچے سے محنت اور کوشش کرکے اوپر آئے ہیں اور دونوں مغرب سے نفرت کرتے ہیں۔"
چُو این لائی نے مسکرا کر کہا، "اس کے علاوہ بھی ہم میں ایک بات مشترک ہے، وہ یہ کہ ہم دونوں جس جس کلاس میں پیدا ہوئے اس سے غداّری کررہے ہیں۔"
خروشچیف کا رنگ مزید سرخ اور گردن ایک دم ڈھیلی ہوگئی کیونکہ چو این لائی نے اُس کو بڑے لطیف انداز میں یہ سمجھایا تھا کہ تم مزدور کے بیٹے ہو اور میرے بزرگوں کا تعلق امراء سے ہے مگر نہ تم مزدوروں کے ساتھ ہو اور نہ میں اپنے لارڈوں کے طبقے سے وفاداری کر رہا ہوں۔"
اپنی آواز اور صحت دونوں کی خرابی کے باعث وہ بہت دنوں سے تقریباً گوشہ نشین ہوچکے تھے، اس دوران میں کئی بار کراچی آنا جانا ہوامگر باوجود ارادے کے ملاقات نہ ہوسکی۔ اعجاز الحق کی معرفت اور فون کی وساطت سے سلام دعا تو ضرور ہوئی مگر تفصیل سے کوئی بات نہ ہوسکی البتہ اُن کی تحریروں، شاعری، متراجم اور احباب سے اتنا پتہ ضرور چلتا رہا کہ اندر سے وہ آج بھی اُتنے ہی مضبوط اور کمٹڈ ہیں جتنے اس بیماری سے پہلے تھے۔
عزیزی فاضل جمیلی نے جو خود بھی ا ُن کی طرح ایک نڈر صحافی اور عمدہ شاعر ہے، اُن کی وفات پر غزل کی ہیئت میں اُن کے لیے ایک بہت خوبصورت اور رُوح پرور نظم لکھی ہے جو میرے خیال میں ہماری شاعر اور صحافی دونوں برادریوں کی طرف سے اس شاندار، بہادر اور محترم احفاظ کے لیے ایک اجتماعی سلام ہے۔ میں اس کے چند شعر اپنے دو تازہ اشعار کے ساتھ یہاں درج کر رہا ہوں کہ جو براہ راست اُن کے لیے تو نہیں مگر اُنہی جیسے لوگوں کی نذر ہے۔
قالینِ سُرخ کی طرح دل میں بچھا کے رکھ
ہم رفتگاں کی یاد ہیں ہم کو بچا کے رکھ
امجد ہَوا کا زور یہ ٹوٹے گا ایک دن
بجھتے ہیں جو چراغ انھیں پھر جلا کے رکھ
اور آیئے اب فاضل جمیلی کی آواز میں آواز ملاتے ہیں۔
اظہار ہوا رُخصت، للکار سپردِ خاک
تکرار خدا حافظ، انکار سپردِ خاک
اب دھوپ ہی قسمت ہے ہم راہ نوردوں کی
سایا سا کئے تھی جو دیوار سپردِ خاک
جاتے ہوئے موسم سے کچھ پھول ہیں وابستہ
ہوتی ہیں پھولوں کی مہکارِ سپردِ خاک
کردیتا ہے مٹی کے اندر بھی اُجالا سا
ہوجائے اگر کوئی مینار سپردِ خاک
افکار تو زندہ ہیں دفنائے نہیں جاتے
کر آئے ہیں ہم اُس کی تلوار سپردِ خاک