Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Aik Taqreeb Haseena Moin Ke Liye

Aik Taqreeb Haseena Moin Ke Liye

1980کے بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے شائد حسینہ معین کا نام زیادہ معروف نہ ہوکہ اُن کے جوان ہونے تک ٹی وی کی دنیا ہی بدل چکی تھی لیکن جن لوگوں نے پی ٹی وی کا آغاز دیکھا ہے، اُن کے نزدیک وہ کل بھی سپراسٹار تھیں اور آج بھی بے حد قابلِ تعظیم ہیں کہ 1970 سے 1980 تک کی پوری دہائی حسینہ معین سے شروع ہوکر انھی پر ختم ہوتی ہے۔ اُن کے دلچسپ جملے اور چُلبلے نسوانی کردار اپنی مثال آپ تھے کہ کوئی ان سے بڑھ کر یا ان کے برابر تو کیا ان کی نقل بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکا۔

اب کے وہ بہت دنوں بعد لاہور آئی ہیں جہاں اُن کی چھوٹی بہن غزالہ مقیم ہیں اور شائد ہمیشہ کی طرح اپنی محبوب کم آمیزی کے باعث کچھ دن رہ کر لوٹ بھی جاتیں اگر اُن کی بہن خصوصی بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال کے لیے قائم شدہ ایک نسبتاً نئی این جی او"ہم مشعلِ راہ فائونڈیشن" کے ساتھ وابستہ نہ ہوتیں جس نے اس تقریبِ ملاقات کا اہتمام کیا۔ این جی او کی صدر آمنہ آفتاب اور حسینہ معین کے فون ایک ہی دن اُوپر تلے آئے کہ مجھے اس تقریب میں شامل ہونا ہے۔

حسینہ معین کی فرمائش ان کے سب دوستوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے چنانچہ ڈیفنس کلب کے گالف ویئوکی طرف کھلنے والے ہال میں منیزہ ہاشمی، شہناز شیخ، اصغر ندیم سید معہ بیگم، راشد محمود، بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید اور اعجاز حسین بٹالوی مرحوم کے صاحبزادے سلمان بٹالوی سمیت بہت سے احباب حسینہ کے آنے سے قبل ہی پہنچ چکے تھے۔

آغاز میں میزبان تنظیم کے مشن اور دائرہ کارکے بارے میں کچھ معلومات فراہم کی گئیں تو میرا ذہن بے اختیار عزیز دوست امتیاز پرویز کی "لیبارڈ"اور غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے خصوصی بچوں کے لیے قائم کردہ پروگرام کی طرف منتقل ہوگیا۔ یقینا ان کے علاوہ بھی بہت سے ادارے اس بہت نیک اور انتہائی اہم کام میں حصہ لے رہے ہیں مگر مجموعی طور پر ہمارے سماج میں اس طرف بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مجھے یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ میرے بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر چلڈرن کمپلکس کے دور میں خصوصی بچوں کے لیے جس عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا اُس کے انتظام وانصرام میں بھی ہم مشعلِ راہ والے پیش پیش ہیں۔

تو بات ہورہی تھی حسینہ معین کے اعزاز میں منعقد کردہ اس تقریب کی جس کے مقررّین نے اُن کی شخصیت، ڈراموں، کرداروں، جملوں اور عورتوں کے حقوق سے متعلق موضوعات کو نہ صرف سراہا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ فی الوقت مختلف چینلوں پر عورت کے حقوق کے نام پر اُس کی جو توہین کی جارہی ہے اُس میں اور حسینہ معین کے ڈراموں کی بے باک اپنے حقوق سے آگاہ، بہادر اور تہذیبی دائرے کے اندر رہ کر بغاوت کرنے والی لڑکیوں اور آج کے ڈراموں میں عمومی طور پر دکھائی جانے و الی لڑکیوں میں بنیادی فرق کیا تھا۔

پی ٹی وی نے بہت سی غلطیاں کی ہیں اور ان کی سزا بھی پائی ہے کہ آج یہ ادارہ اپنے شاندار ماضی کا ایک دُھندلا اور بے معنی سا عکس بن کر رہ گیا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکارممکن نہیں کہ اپنے تقریباً 35 برس پر پھیلے بھلے دنوں میں اس ادارے نے قومی کلچر، تہذیب اور معاشرے کے ہر حصے کی عمدہ اور تخلیقی رہنمائی کا فریضہ جس خوبصورتی اور ذمے د اری سے نبھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور بلاشبہ اس حوالے سے جن لکھنے والوں نے اُس کا ہاتھ بٹایا اُن میں حسینہ معین کا نام سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اُن کے لکھے ہوئے ڈراموں کی بے باک لڑکیوں کو سارا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر نہ صرف دیکھ سکتا تھا بلکہ اُن سے ساری نسلیں یکساں طور پرمحضوظ بھی ہوسکتی تھیں۔

آج کل کے گنتی کے چند کرداروں اور اُن کے درمیان موجود ناقابلِ بیان رشتوں کے مقابلے میں حسینہ معین کے کرداروں میں گھر کے تمام افراد مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ رشتوں کا ایک ایسا احترام تھا جو بغیر کچھ کہے دیکھنے والوں کے لیے ایک تربیت گاہ کا درجہ رکھتا تھا۔

حسینہ معین کا پہلا سیریل میری اطلاعات کے مطابق مرزا عظیم بیگ چغتائی کے ناول پر بنائی جانے والی کہانی "شہروزی" تھا جس میں نیلوفر علیم نے مرکزی کردار اداکیا تھا اس کے بعد تو انکل عرفی، تنہائیاں اور دھوپ کنارے سمیت کامیاب سریلز کی ایک ایسی قطار لگ گئی جس میں سے بہترین کا انتخاب بے حد مشکل تھا کہ ہر آنے والا ڈرامہ نہلے پر دہلے کی شکل میں تھا۔

منیزہ ہاشمی اور شہناز شیخ نے بتایا کہ حسینہ اپنی ذاتی زندگی میں بے حد ڈرپوک ہیں اور اُن کے اپنے مزاج میں وہ تیزی اور تندی دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتی جو اُن کے تخلیق کردہ کرداروں میں نظر آتی ہے شائد وہ ان کرداروں میں وہ سب کچھ ڈال دیتی ہیں جس کا اظہار وہ خود نہیں کرسکیں اُن کے بُھولنے کی عادت اور گھومنے پھرنے کے شوق کے بارے میں بھی بہت سی باتیں ہوئیں اور اُن کی ٹھہرائو والی طبیعت کا بھی بہت تذکرہ رہا لیکن امرِ واقعہ یہی ہے کہ ٹی وی ڈرامے کی تاریخ میں اُن کے تخلیق کردہ بعض کردار اور بے شمار جملے ہمیشہ ستاروں کی طرح جگمگاتی رہیں گی۔

ایک ٹی وی ایوارڈ کی تقریب میں ہم دونوں ایک ساتھ اسٹیج پر آئے، اس موقعے پر پڑھی گئی میری ایک نظم کا وہ اکثر حوالہ دیا کرتی ہیں۔ سو آج کی اس تقریبِ پذیرائی کے حوالے سے میں وہی چار لائنیں اُن کی خوشنودی طبع کے لیے درج کردیتا ہوں۔ اس اُمید کے ساتھ کہ آج کی نسل بھی اپنے اس عظیم فن کار کے کارناموں سے واقف ہوسکے کہ ایسے لوگوں کے عہدمیں زندہ رہنا بھی اپنی جگہ پر ایک خوش قسمتی ہے۔

تم جس خواب میں آنکھیں کھولو

اس کا روپ اَمر

تم جس رنگ کا کپڑا پہنو، وہ موسم کا رنگ

تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو

کبھی نہ وہ مرجھائے

تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو، وہ روشن ہوجائے